صادق طباطبائی

یادوں کو بیان کرنے والا شخص

حمید قزوینی

2015-8-29


ڈاکٹر سید محمد صادق سلطانی طباطبایی بروجردی کہ جنکو سب صادق طباطبائی کے نام سے جانتے تھے۔ رواں ماہ، سرطان( کینسر) کے خلاف ایک قابل ستائش مزاحمتی جنگ لڑ تے ھوئے، دار فانی سے کوچ کر کے، اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان لوگوں کے لئے،جو کہ تاریخ شفاہی پر کام کر رھے ھیں، صادق طباطبائی ھمیشہ ایک گرانقدر سرمایہ رھے، کیونکہ ان کے پاس، انقلاب اسلامی سے مربوط، بہت سے موضوعات پر، بہت ساری باتیں، مشاھدات اور یادداشتیں موجود تھیں۔

خاندانی حسب و نسب، جرمنی کی یونیورسٹی کے طلباء کیلئے اسلامی انجمن کا قیام، یورپ کی یونیورسٹی کے طلباء کی اسلامک فورم میں نمائندگی، امام موسی صدر و امام خمینی سے مستقل اور قریبی رابطہ،عبوری حکومت کی ذمہ داری، ایران کی مسلح افواج کو دفاع مقدس کے سالوں میں ہتھیاروں کی فراھمی میں کردار، ممتاز شخصیات سے دوستی، علمی ، ثقافتی اور ھنری سرگرمیاں، اور اسی طرح کی دیگر فضیلتیں، ان کی حیثیت اور مقام کو مضبوط ، اور منفرد بناتیں ہیں۔

صادق طباطبائی اس کے باوجود، ، اپنے بہت سے ساتھیوں سے بالکل برعکس تھے اور نہ صرف مشاہدات، یادوں اور سوالوں کے جوابات دینے میں کوئی اعتراض نہ کرتے بلکہ ہمیشہ بہت خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے تمام ریکارڈز کو دوسروں کی دسترس میں دے دیا کرتے تھے اور مشاہدات اور یادداشتوں کو بیان  کرنے میں مثالی جرات رکھتے تھے۔ میری نظر میں وہ لوگ جو گذشتہ یادوں کو بیان نہیں کرتے، یا سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دیتے، یا گذشتہ یادوں اور مشاہدات کو ترمیم کر کے بیان کرتے ہیں اس جرات بیانی اور ہمت سے عاری ہیں( حتی اگر یہ دعوی بھی کریں کہ مصلحت کی بناء پرایسا کررہے ہیں)۔


صادق طباطبائی کیونکہ، نام و نمود اور شھرت کے دلدادہ نہ تھے اس لئے مصلحت کے علاوہ، انقلاب سے ہٹ کر کبھی نھیں سوچتے اور اسی وجہ سے ، اپنی گذشتہ یادوں اور مشاہدات کو بیان کرنے کیلئے ھمہ وقت تیار رہتے تھے اور شاید یہ لقب یعنی انقلاب کی یادوں کو بیان کرنے والا ‘ جس سے، ایک اخبار نے انکی رحلت کے بعد ان کو نوازا، کچھ غلط نہ تھا،

انکی حالیہ تصاویر جو کہ جمهوری اسلامی ایران کے ایک ٹی وی چینل نے نشر کیں ، اس بات کی علامت ہیں کہ، صادق طباطبایئ  اپنی اس بیماری کے دوران  اور اس جسمانی ناتوانی اور کمزوری کے باوجود بھی، اسی طرح یادوں کو بیان کرنے کیلئے آمادہ تھے۔


اس حوالے سے، وہ ان تمام لوگوں کیلئے جو کہ ماضی(انقلاب) کی یادوں کو بیان کرتے ہیں، ایک کم نظیر اور منفرد مثال ہیں، دور حاضر کے ایک سجیلے اور اچھے سیاستدان نے، ان کے انٹرویوز اور تقریروں کے علاوہ، کچھ تعلیمی سالوں کے ہنگاموں کی یادیں، امام موسی صدر سے رابطے اور جمہوری اسلامی کی تشکیل کو، 2010 میں تین جلدوں میں چھپوایا اور اسکے بعد یہ جلدیں کئی دفعہ چھپوائی گئیں ۔

وہ ھمیشہ،جلد چھارم اور پنجم کو لکھنے کی کوشش کرتے رھے، جو کہ انقلاب کے بعد  ہونے والے واقعات اور پیشرفت کے بارے میں ھوں، مجھے یاد ھے کہ، کبھی اسی حوالے سے دوسروں سے بھی اس بات کا تقاضہ کیا کرتے تھے کہ وہ مطالب یا دستاویزات ان کے لئے تلاش کریں۔

میں نے اس کام کی وجہ ان سے پوچھی  تو بولے: چاہتا ہوں کہ،جو کچھ میرے ذھن میں ھے اس سے مطمئن ھو جاوں اور اگر کوئی شک و شبہ ہے تو اسکو دور کروں۔ وہ ہمیشہ، مستند مشاہدات کو اھمیت دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب، کچھ تحریری دستاویزات ان کے گھر سے لے گئے، آپ ہمیشہ ان کے لے جانے پر ملول رہتے، سیاسی و حفاظتی مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سےکہ وہ سب چیزیں تاریخ سے مربوط تھیں اور وہ ہمیشہ چاہتے تھے کی وہ لوٹائی جائیں تاکہ وہ اپنے بیانات میں ان سے استفادہ کرسکیں۔ ان کے رنج و غم میں سے ایک اور رنج، یورپ کی یونیورسٹی  کے طلباء کی اسلامک فورم کی  تحریروں اور دستاویزات کا برباد ھوجانا تھا کہ ھمیشہ رنجیدہ ہو کر یاد کیا کرتے تھے یہ سب باتیں اس بات کی علامت ھیں کہ وہ ان مشاھدات اور یادوں کو ریکارڈ کرانے، اور تاریخ کی ترقی پر حیرت انگیز طور پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی ایک اور سب سے ممتاز خصوصیت جلسوں میں انٹرویوز دینے کی تھی کہ پہلی ہی ملاقات میں وہ انٹرویو لینے والے کےساتھ گھل مل جاتے، اور ھر طرح کی مدد کیلئے تیاررہتے، موبائل نمبر، گھر کا لینڈ لائن نمبر، اور ایمیل فورا دے دیا کرتے تاکہ، کوئی چیز ان سے رابطے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ مجھے یاد ھے کہ کئی مرتبہ ٹیلیفون پر، بعض موضوعات پر ان سے سوالات کئے، انھوں نے بہت محبت کے ساتھ ان کے جواب دیئے، ان کیلئے یہ اھم نہ تھا کہ مطلب کس سے بیان کیا جا رہا ہے بلکہ یہ اھم تھا کہ تاریخ کے ایک حصے کو تحریف سے محفوظ رکھ سکیں۔ وہ پوچھنے والے کو کسی بھی طرح کے سوال کرنے سے نہیں روکتے تھے ذاتی مسائل سے لیکر، سیاسی اور امنیتی مسائل تک، سب کا بہت آرام سے جواب دیا کرتے،ھمیشہ ایک مسکراھٹ اور نرم مزاجی کے ساتھ، یادداشتوں کو بیان کرتے تھے۔

حتی کسی تلخ یاد کے اثر سے بھی ،مسکراھٹ، ان کے چہرے سے نہ جاتی۔ ہمیشہ ایک خاص ادب و احترام سے ملتے، میڈیا یا علمی حلقے سے انٹرویو لینے والوں سے بہت خوش ھوتے اور مطالب کو بہت انہماک اور شوق سے بیان کرتے۔ انٹرویو دینے کیلئے ایسا وقت منتخب کرتے، جب ان میں حوصلہ و توانائی زیادہ ہو تاکہ  کوئی بھی چیز اس نشست  کے تسلسل میں حائل نہ ھو۔

انٹرویو کے تقاضوں اور ضروریات سے بخوبی واقف تھے، ریکارڈنگ کے حوالے سے اسکی تیاری اور اختتام سے مربوط مقدمات کی کبھی مخالفت نہ کرتے تھے،عام طور پر نشست کے دوران، فون نہیں اٹھاتے تھے اور نشست کے اراکین کے علاوہ کسی کے ساتھ اس وقت ،ملاقات نہ کرتے۔ اور اچھی طرح جانتے تھے، کہ کسطرح سے، تھکن اور یک سوئی کو دور کرنے کے لئے، نشست کو ایک دوستانہ گفتگو میں تبدیل کریں اور ان لمحوں میں مطالب کو، انٹرویو لینے والے کے ذوق کے مطابق بیان کرتے تھے۔ اگر ان سے کوئی تصویر، فائل، یا دستاویز مانگی جاتی تو بہت آسانی سے دے دیا کرتے تھے۔

عموما، انٹرویو سے پہلے، موضوع اور گفتگو کے محور کو مشورے سے طے کر لیا کرتے تھے، تاکہ گفتگو ایک خاص اور معین شدہ جہت میں انجام پائے، اسی وجہ سے محتاط رھتے تھے کہ موضوع گفتگو، سے خارج نہ ھوں۔ کبھی کبھار انٹرویو کے بارے میں بھی دریافت کرتے، تاکہ اگر کوئی غلطی یا ابھام ھو تو اسے دور کردیا جائے۔

دوسروں کے مشاھدات و یادوں کے بارے میں بیان کرتے وقت، انصاف کے دائرے سے خارج نہیں ھوتے۔ بنیادی طور پر، ان کے الفاظ اورادبیات، تیز ، مرچ مصالحے والے اور تکلیف دہ نہ تھے۔

بہرحال صادق طباطبائی، انقلاب کی کہانیاں، مشاھدات اور یادداشتوں کو بیان کرنے والا شخص،ھمیشہ کے لئے چلا گیا اور خود ایک یاد بن گیا۔ان کو ھمیشہ احترام کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔



 
صارفین کی تعداد: 4383


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔