ڈھائی سو سالہ شاہی جشن کی تقریبات پر ردعمل

ترجمہ: محب رضا

2023-12-6


محرم کے مہینے میں، میں نے ساکیہ سے مشورہ کیا کہ اہواز میں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ لوگ حالات سے آگاہ ہو جائیں اور تیار رہیں۔ ہمیں سب سے بہتر یہ لگا کہ عاشورہ کے دن سڑکوں پر نکلنے والے ماتمی دستوں سے یہ درخواست کریں کہ شاہ کی حکومت کے خلاف نعرے لگائے جائیں اور کچھ ایسا کریں کہ ماتمی انجمنیں ہمارے مورد نظر نعرے لگائیں، چونکہ ان دنوں شہنشاہیت کا ڈھائی سو سالہ جشن ہو رہا تھا اس لیے اس عمل کا ملک بھر میں چرچا ہونا تھا اور لوگوں نے خود بخود اس ماجرے کو 2500 سالہ جشن سے نسبت دے کر، اسے ان تقریبات کے خلاف ایک طرح کا احتجاج سمجھنا تھا۔ دوسری طرف چونکہ ان دنوں ماتمی دستوں نے سڑکوں پر آنا ہی تھا تو ہمیں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے زیادہ کوشش بھی نہیں کرنی تھی، بس اتنا کرنا تھا کہ نعرے بدل دیں۔

اس مقصد کے لیے مرتضایی صاحب اور دو تین دیگر دوست متحرک ہو گئے اور میں بھی ماتمی دستوں میں آگے کی جانب چلا گیا۔ طے یہ تھا کہ چند افراد، مختلف جگہوں سے دستوں میں شامل ہوں گے اور میرے پیچھے آ جائیں گے۔ وہ سب تین ٹیموں میں، ماتم کرتے ہوئے، اپنے سالانہ روٹ پر چلتے جلوس کے دستوں میں شامل ہو گئے۔ ہم نے دستوں کے ساتھ چلنے اور نعرے لگانے کے کچھ دیر بعد، ایک بار شاہ، ساواک اور فرح کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ فرح کے خلاف نعرے بازی اس لیے کی گئی کہ اس وقت وہ 2500 سالہ جشن کی تقریبات کا ایک اہم جزو اور ملک میں مذہب مخالف رجحانات کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کا اصلی محور تھی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے لیکن توقعات کے برعکس، لوگ بھاگ گئے اور اجتماع منتشر ہو گیا! کچھ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا ہوا ہے۔ اگرچہ حالات گڑبڑ ہو چکے تھے، لیکن یہ خبر اہواز اور خوزستان میں بہت تیزی سے پھیل گئی۔ مثال کے طور پر، آقا مرتضائی کے ایک رشتہ دار نے، جو امیدیہ میں تھا، انہیں بتایا کہ اہواز افراتفری کا شکار ہے اور ہنرمندوں [آرٹ اکیڈمی کے طلباء] نے عاشورہ کے دن سیاسی نعرے لگائے ہیں۔ ساواک نے بھی ان کو گرفتار کر لیا ہے اور ممکن ہے آپ کے لیے بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے۔

ہفتہ کے دن جب ہمارے دوست آرٹ اکیڈمی پہنچے تو ساواک کے اہلکار ان کی تلاش میں وہاں آ گئے۔ البتہ ان کو میرا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ میں نے اپنا کام کرنے میں بہت احتیاط اور رازداری برتی تھی۔ اس خفیہ کام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں مسلحانہ کام کر رہا تھا اور اس سے پہلے ہم نے، 2500 سالہ جشن کی تقریبات کی رات، بجلی ٹاور اڑا کر بجلی منقطع کرنے کے لیے، دھماکہ خیز مواد منتقل کیا تھا۔ اس وجہ سے میں نے خود کو اس واقعے سے مکمل طور پر دور رکھا اور باہر سے ہی اس کے انتظام مں شامل رہا۔ اس کے بعد، جب ساواک نے ہمارے کچھ دوستوں کو آرت اکیڈمی سے گرفتار کیا اور جیل لے گئے، تو میں نے سوچا یہ اچھا نہیں ہوا ہے، لیکن ہمارے ہاتھ ایک موقع آیا ہے جسے ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ آئیں، اپنی ہینڈ رائٹنگ کے بجائے کسی اور ناقابل شناخت اور ٹوٹی پھوٹی ہینڈ رائٹنگ میں ایک اعلان لکھتے ہیں اور شہر بھر میں اس خبر کو پھیلا دیتے ہیں کہ یہ ماجرا ہوا ہے۔ کل یہ اعلانات، آرٹ اکیڈمی کے طلباء کی میز کی درازوں میں رکھ دیں گے۔ اس خبر کے لیے اتنا ہی کافی ہوگا کہ چند لوگوں تک پہنچ جائے اور پھر ہر طرف، زبانی طور پر پھیل جائے۔ اعلانات کی تعداد اہم نہیں ہے، خبر کا پھیلنا اہم ہے۔ دوست جمع ہوئے اور کچھ سفید صفحات کے درمیان کاربن پیپر رکھ کر - ہر بار ایک صفحہ لکھ کر - اس جیسے پانچ یا چھ دوسرے صفحات کی نقل تیار کر لی- کافی سارے اعلانات لکھے گئے۔ ان میں سے کچھ اعلانات جناب قمیشی نے لکھے اور چند دوسرے افراد نے جیسا کہ جناب مرتضائی اور کچھ دوسرے دوستوں نے، جن میں سے ہر ایک نے، اسکی تقریباً بیس یا تیس نقول تیار کیں تھیں، اور تیل کمپنی کی آرٹ اکیڈمی کے طلاب کی میزوں کی درازوں میں رکھ دئیے۔ جب اکیڈمی کے سربراہ کو اس معاملے کا علم ہوا تو اس نے فوری طور پر ساواک کو اطلاع دی اور ساواک کے اہلکاروں نے اکیڈمی پر دھاوا بول دیا اور دوبارہ کچھ طلاب کو پوچھ گچھ کے لیے لے گئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کام کرنے کا کس نے کہا تھا۔

ہم بجلی کے ٹاور کو اڑانے کا آپریشن تو کامیابی سے انجام نہیں دے سکے تھے لیکن اس سیاسی سرگرمی نے اس ناکامی کی تلافی کردی اور بالآخر صوبہ خوزستان میں 2500 سالہ جشن کی تقریبات کے حوالے سے احتجاجی مظاہرہ ہوا۔

منبع: رضایی میرقائد، محسن، تاریخ شفاهی جنگ ایران و عراق روایت محسن رضایی، ج 1، به کوشش حسین اردستانی؛ تهران، سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1394، ص 103 ـ 102.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 393


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔