آیت اللہ خمینی کے نام پر درود

ترجمہ: محب رضا

2023-11-30


1342 شمسی میں، ایک عوامی اجتماع میں امام خمینی کے نام کے ساتھ درود، اور وہ بھی بیرجند میں پہلی بار، ایک اہم تاریخی موڑ سمجھا جاتا ہے۔ کم از کم میں نے، جو عام طور پر مختلف اجتماعات میں خطاب کرتا رہتا تھا، اس وقت تک ایسا کچھ نہیں سنا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا؛ مجھے پتہ چلا کہ ایک طالب علم نے امام کی شان میں گستاخی کی ہے اور ان کی مرجعیت کو زیر سوال لایا ہے؟! یہ خبر سن کر میں بہت مضطرب ہوا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ مناسب وقت پر اس گھٹیا حرکت کا جواب دوں۔ کچھ عرصہ بعد مجھےآیت اللہ آیتی کی مسجد میں ایک مجلس میں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں امام کی مرجعیت کا دفاع کروں گا اور جب میں منبر پر بیٹھا تو میں نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے آمادہ کیا۔ خاص طور پر جب میں نے دیکھا کہ مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، اور کچھ برجستہ شخصیات بشمول آیت اللہ شیخ محمد حسین ضیاء آیتی، اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں تو مجھے بہت اطمینان محسوس ہوا اور میں پرسکون ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں، مجھے مزید ہمت مل گئی کیونکہ بزرگ شخصیات کی موجودگی، محفل کا وزن اور وقار بھی بڑھا دیتی ہے اور مقرر کو، سیاسی اور سماجی مسائل پیش کے لیے، مزید خود اعتمادی اور حوصلہ بھی ملتا ہے۔

حالات ہر لحاظ سے سازگار تھے، اس لیے میں نے موقع غنیمت جانا اور توہین کرنے والے شخص سے مخاطب ہو کر (اس فرض کے ساتھ کہ وہ مجلس میں موجود ہے) بولا: "تم کون ہوتے ہو جو ایسی بے بنیاد باتیں اپنی زبان پر لے کر آوَ؟ تم جو بھی ہو، یہ جان لو کہ اس قابل تک نہیں کہ ایک مرجع تقلید کی حیثیت کے بارے میں کوئی رائے دو، توہین کرنا تو بہت دور کی بات ہے! تمہاری حیثیت یہ ہے کہ تم جاوَ اور گائے بھیڑوں کو چراوَ!" میں نے اپنی تقریر جاری رکھی اور ترتیب وار مراجع تقلید کے نام ذکر کیے اور پھر مضبوط اور محکم انداز میں کہا: "دینی مراجعین میں سے ایک آیت اللہ خمینی بھی ہیں!" اچانک منبر کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد نے بے اختیار باآواز بلند صلوات پڑھنا شروع کر دی اور ان کی پرجوش صدا مسجد میں ایسے گونجنے لگی جیسے گویا مسجد کے ستون لرز رہے ہیں! اس طرح کا منظر اس وقت تک دیکھا نہ گیا تھا اور یہ اپنے انداز میں منفرد اور حیرت انگیز تھا، جیسے آپ کے گلے میں کچھ پھنسا ہوا تھا جو اچانک نکل گیا۔ بظاہر کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح پہلی بار، اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے، امام خمینی کا نام اس طرح پرجوش انداز میں ذکر ہوگا! بیرجند کے لوگوں کے بارے میں عمومی تصور یہ تھا کہ یہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور خواب آلود افراد ہیں، جنہیں اپنے اردگرد کے واقعات کا کوئی علم نہیں ہوتا! لیکن اس طرح صلوات کے ذکر کے ساتھ، بیرجند میں امام کے حامیوں کو مزید ہمت اور جرات ملی۔

اگلے دن، جناب صالحی کے اصرار پر میں گھر سے نکلا۔ اتفاق سے ساواک کے اہلکاروں نے سڑک پر میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور مجھے تھانے لے گئے۔ میں بغیر کسی خوف کے، دلیری کے ساتھ تھانے گیا۔ تھانہ، خیابان شہید مطہری پر، موجودہ گورنر کے دفتر کے ساتھ اور ہمارے گھر کے قریب واقع تھا۔ اس وقت خفیہ ادارے کا سربراہ، "سبحانی" نامی شخص، بیرجند میں ساواک کا ایجنٹ تھا اور مرکز کو باقاعدگی سے حالات کی اطلاع دیتا تھا۔ میرے تصور کے برعکس، اس نے میرے ساتھ سختی کیے بغیر، مجھے بہت سکون سے کہا: "جناب دیانی! ہم بھی مسلمان ہیں، لیکن ہم یہاں پر مامور ہیں اور مجبور ہیں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی باتیں دوبارہ نہ کریں"۔ اس نے مجھے تنبیہ کی، لیکن اس کے کہنے کی پرواہ کیے بغیر، اگلی رات میں نے "خواجہ ھا مسجد" میں تقریر کی۔

منبع: اسداللهی گازار، احمد،‌ مریم سبحانیان، شیخ اسماعیل، تهران، سوره مهر، 1400، ص 159 - 160.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 355


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔