صاحب الزماں کے چند سکے!

ترجمہ: محب رضا

2023-11-26


ان دنوں، مذہب اور دینی و قومی روایات کی نسبت، خیالات اور افکار کے جھکاوَ کی نوعیت واضح کرنے کے لیے، میں نوروز کے مراسم اور عید کے جشن کی  تقریب کا ماجرا بیان کروں گا، جس کا اہتمام کنفیڈریشن سے منسلک آخن نامی تنظیم نے کیا تھا۔

 ۱۳۴۵ کے موسم خزاں میں، جرمنی میں ایرانی اسٹوڈنٹس کی فیڈریشن نے اعلان کیا کہ اس سے وابستہ تمام اعضاء، ۱۳۴۶ کے نوروز کے مراسم ہر ممکن حد تک شاندار طریقے سے منعقد کریں تاکہ ان مراسم کی بدولت، ایران کی سیاسی صورتحال کو بھی واضح کیا جا سکے اور تنظیم کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی بنے۔

آخن سٹی ایسوسی ایشن کی عمومی میٹنگ میں، مجھے اور اردشیر دیانتی نامی ایک خوشگوار طبیعت کے مالک نوجوان کو منتخب کیا گیا اور ہمیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آخن یونیورسٹی کے کیمپس میں نوروز کے جشن کی تیاریوں اور انتظامات کی نگرانی کریں اور اس سلسلے میں یونیورسٹی کے اندر اور باہر موجود تمام سہولیات سے استفادہ کریں۔

اردشیر اور میں نے، تین ماہ تک، اپنا تقریباً سارا وقت اس جشن کو ہر ممکن حد تک شاندار طریقے سے منانے کے لیے صرف کیا۔ جشن کے پروگراموں میں سے ایک چیز، ایران کی سیاسی صورتحال کو متعارف کرانے والا، ۴۰ صفحات پر مشتمل، ایک کتابچہ بھی شامل تھا، جو جرمن زبان میں تھا۔ اس کتابچہ کی دو ہزار کاپیوں کو بہترین اور معیاری کوالٹی کے ساتھ پرنٹ کروانے کی مالی معاونت حاصل کے لیے، میں چند بینکوں اور تجارتی اداروں سےاشتہار لینے میں کامیاب ہو سکا۔ کتابچے میں ان اشتہاروں کو چھاپنے کے لیے ہمیں جو رقم ملی وہ اس تمام پرنٹنگ کی لاگت سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ، میں نے شہر کی تھیٹر کی تنظیم کے ساتھ جو بات چیت کی تھی، اس میں انہوں نے ہمیں یہ آفر کی تھی کہ ایرانی موسیقی کے کنسرٹ اور لوک رقص کی محفل منعقد کرنے والی جگہ، ہال اور پنڈال کی سجاوٹ کے لیے درکار تمام سامان اور افرادی قوت مفت فراہم کی جائے گی۔ ہم نے اس جشن کو منانے کے لیے آخن شہر کے کولن ہوف نامی ایک پرتعیش اور پرشکوہ ہوٹل کے سب سے بڑے ہال کا انتخاب کیا تھا۔ ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ شرکاء کی اچھی تعداد میں شرکت ہوگی اور انہیں ٹکٹ بیچنے سے ہم اس بڑے ہال کا کرایہ ادا کر سکیں گے۔ سب کچھ پہترین انداز میں اور منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہا تھا۔ آخن کے ہالینڈ اور بیلجیئم کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے احتمال تھا کہ ان دونوں ممالک میں مقیم ایرانی بھی اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ نوروز کے اس جشن میں شریک ہوں گے، اور ہوا بھی ایسے ہی۔ عید میں ایک ماہ رہ گیا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ اگر ہم مبارکباد کے کچھ سکوں کا انتظام کرسکیں اور ایک خوبصورت لفافے میں ایک سکہ اور ایران کے بارے میں ایک پمفلٹ اور کچھ اقتباسات ڈال کر مہمانوں میں سے ہر ایک کو تحفتاً دیں تو اس کا اچھا اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ، یہ عمل نوروز کی روایات اور رسومات میں سے ایک شمار ہوگا۔ جب میں نے اردشیر دیانتی کو اپنی رائے بتائی تو اسے بہت پسند آئی اور اس نے کہا کہ وہ ایران میں اپنے رشتہ داروں سے درخواست کرے گا ہمیں اقتباسات  اور چند ہزار سکے بھیج دیں۔ سکے پہنچ گئے اور ہم نے کچھ لوگوں کے ذمے لگایا کہ وہ ہر شریک مہمان کے لیے متعدد اقتباسات، ایک سکہ اور مذکورہ پمفلٹ، ایک خوبصورت تحفے کی شکل میں لپیٹ کر تیار کر دیں۔

زیادہ تر سکے مبارکباد کے تھے اور صرف چند سکوں پر "یا صاحب الزمان" لکھا ہوا تھا۔ مجھے اور اردشیر کو اس کا پتہ نہیں چلا اور ہم نے انہیں بھی بطور تحفہ دے دیا۔ جشن بہت بہترین انداز میں منایا گیا، پریس میں اس کا بہت چرچا ہوا، اساتید اور علمی و سیاسی شخصیات کی شرکت متاثر کن تھی، اور تنظیم کو کافی آمدنی بھی ہوئی۔ ثقافتی، سیاسی، فنون اور تبلیغاتی مواد کے لحاظ سے بھی یہ بہت متاثر کن رہا، خاص طور پر جب آذری خاندان کے ایک 5 سالہ لڑکے نے مقامی رقص کے کچھ ٹکڑے پیش کیے،تو اس نے غیر ملکیوں کی توجہ بڑی حد تک اپنی جانب مبذول کروائی۔ تقریب میں مدعو کیے گئے یونیورسٹی کے تقریباً تمام پروفیسرز اور سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ جشن کی افتتاحی تقریر بھی میرے ذمے تھی، جس میں نوروز کی تاریخ، ان قدیم مراسم کے سنتی رواجوں کی توضیح،  سال کے آخری منگل کے دن کی رسومات سے لیکر، چمچے کے ذریعے دروازہ کھٹکھٹانے، پورے گھر کی صفائی کرنے اور نیا سال شروع ہونے تک کے لحظے کی رسومات کی گفتگو شامل تھی، ان توضیحات کے ساتھ ساتھ ایران کی سیاسی اور معاشی صورتحال اور آخر میں ایران میں گھٹن کے ماحول اور جبری حکومت کے حالات کا بیان بھی اس گفتگو کا حصہ تھا۔

اس رات کے دیگر اچھوتے اور آمدنی پیدا کرنے والے پروگراموں میں ایک، لاٹری ٹکٹوں کی فروخت کا پروگرام تھا۔ ہم نے کچھ خوش شکل اور  خوش لباس ایرانیوں کا انتخاب کیا جو جرمن زبان بولنے میں مہارت رکھتے تھے، انہوں نے بڑے سٹوروں اور کارخانوں کا دورہ کیا اور ان  سے انکی اپنی تیار کردہ یا دیگر بیچنے والی مصنوعات بطور تحفہ حاصل کیں تاکہ انہیں لاٹری ٹکٹ جیتنے والوں کو انعام کے طور پر دیا کیا جا سکے۔ یہ عمل، مصنوعات کی تشہیر کے لیے بھی بہترین تھا اور ٹکٹ خریدنے والوں کے لیے قابل ترغیب بھی تھا۔ اس رات ہم تقریباً 400 مختلف مصنوعات اور سٹائلش اشیاء، کتابیں، موسیقی کے ریکارڈز، یہاں تک کہ ایرانی قالین بھی نمایش کرنے اور تحفہ دینے میں کامیاب ہو سکے۔ اشیاء کی شمارہ گیری اور شمارہ والے اور بغیر شمارہ کے لاٹری کارڈوں کی تیاری کا کام، کہ جن کی مدد سے لاٹری ٹکٹ خریدنے والا یہ چیزیں حاصل کر سکتا تھا، آخن کے محکمہ خزانہ کے نمائندے کی نگرانی میں انجام پایا۔ جشن نوروز ہر لحاظ سے بہترین اور شاندار طریقے سے منایا گیا۔ اس کا سیاسی، علمی اور ہنری پہلو بھی بہت شاندار تھا، اور تفریحی و خوشگوار پہلو بھی۔

چند روز بعد، جب میں اور اردشیر تنظیم کی عمومی میٹنگ میں، اس سارے کام، ہونے والی آمدنی، اخباری تراشوں اور اس جشن کے نتیجے میں ہونے والے وسیع اثرات کی رپورٹ پیش کر رہے تھے، تو حاضرین نے ہمیں بہت سراہا، البتہ چند ساتھی ہماری خدمات کی قدردانی کے ساتھ ساتھ مجھ اور ادرشیر سے چاہتے تھے کہ میں اور وہ تنظیم سے معافی مانگیں!! کیونکہ "یا صاحب الزمان" والے سکے تقسیم کرنے سے، تقریب نے ایک مذہبی رخ اختیار کر لیا تھا اور اس لحاظ سے یہ کنفیڈریشن کے آئین کے ساتھ خیانت ہوئی تھی، جس میں تنظیم کے غیر مذہبی ہونے پر زور دیا گیا تھا۔ میں پہلے سمجھا کہ دوست مذاق کر رہے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ اردشیر تو یہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہمیں موقع ملتا اور پہلے سے اندازہ ہوتا تو ہم مسلمان اور عرب مہمانوں کو " و این یکاد" کے تقریباً 100 سکے تحفے میں دیتے۔ لیکن کچھ دیر تک ہمیں احساس ہو گیا اور ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ نہیں، میں نے اور اس نے تنظیم کے ساتھ خیانت کی ہے اور اب ہمیں لازماً معافی مانگنی ہوگی۔ اردشیر اس اعتراض پر اس قدر مضطرب ہوا کہ اس اور اس کی دو بہنوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو آخن میں زیر تعلیم تھیں اور اس میٹنگ میں شریک تھیں۔ میں نے اس اعتراض کے جواب میں، تنظیم اور طلبہ تحریک کے، مسلمان ملت کے ارادے اور درست راستے سے منحرف ہو جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ تنظیم جو ایک قومی روایت کے احیاء کے ذیل میں مبارکباد کے سکے تحفے دیتے ہوئے، حضرت صاحب الزمان کے نام کے چند سکے، اور وہ بھی غیر ملکیوں کو، تحفہ دینے پر اس قسم کا اعتراض کر رہی ہے، وہ موقع آنے پر ایران کی مسلمان ملت کا، جو کہ ملک کی آبادی کا تقریباً ۹۶ فیصد ہے، کس منہ سے سامنا کرے گی؟ کیا اپنے اسلامی عقائد پر سختی سے عمل کرنے والی قوم کے لیے ممکن ہے کہ چند بےخود اور مارکیسٹی طلاب  پر انحصار کرکے ایسی توہین کو برداشت کرے؟ یہی میٹنگ تھی جہاں میں نے اعلان کیا کہ آج کے بعد میرے اور دیگر مسلمان بھائیوں کے لیے، جو اس کنفڈریشن سے وابستہ ہیں، ایسی تنظیم میں کوئی بھی سرگرمی، وقت کی  بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے بعد اگرچہ ہم اس انجمن کے رکن رہے، لیکن ہم نے اپنا سارا وقت اسلامی طلبہ کی تنظیم کے قیام اور اسے مضبوط بنانے کے لیے وقف کیا اور انٹرنیشنل مسلم اسٹوڈنٹس یونین (UMSO) میں بھی کام کیا۔               
   

منبع: طباطبایی، صادق، خاطرات سیاسی ـ اجتماعی دکتر صادق طباطبایی، ج 1، جنبش دانشجویی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر عروج، 1387، ص 214 ـ 217.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 378


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔