آیت اللہ شاہرودی کی موجودگی میں سیاسی خطبہ

ترجمہ: محب رضا

2023-11-22


حضرت آیت اللہ العظمی سید محمود شاہرودی سے ہماری ملاقات کچھ اس طرح ہوئی کہ  ہم نے جمعہ کی صبح اپنے دوستوں کے ساتھ ان کے مکان پر ہونے والے جلسے میں شرکت کی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو منبر پر موجود خطیب، خطبہ دے رہے تھے۔ اپنی تقریر کے اختتام پر، وہ سامعین کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: "کیا کوئی حضرت ہیں، جو منبر پر تشریف لانا چاہیں؟" جناب علوی گنابادی نے میری طرف [حجت الاسلام شیخ اسماعیل دیانی] اشارہ کیا اور بولے: "جناب دیانی چاہتے ہیں۔" جناب علوی، آیت اللہ شاہرودی کے شاگرد تھے لیکن ہماری دوستی، مشہد میں ان کے طالب علمی کے زمانے سے تھی اور میں نے ان کے والد کے گھر پر، چند جلسوں میں منبر پر خطاب کیا تھا۔ اعلان ہونے کے بعد، خود آیت اللہ شاہرودی نے مجھ سے کہا؛ "تشریف لائیے!" جب آقا نے فرمایا تو میں نے ان کی اطاعت کی اور منبر پر بیٹھ گیا۔

یہ مجلس 12 ربیع الاول کو حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم مطہر پر ہونے والے حملے کی برسی کے موقع پر منعقد کی گئی تھی اور دوسری جانب اسی موقع پر آقا روح اللہ خمینی کو ترکی جلاوطن کیا گیا تھا۔ اس لیے مختلف پہلووَں سے یہ مجلس میرے لیے اہمیت کی حامل ہو گئی تھی؛ مذہبی نقطہ نظر سے، سیاسی نقطہ نظر سے، اور اس لیے کہ یہ مجلس نجف میں مرجع تقلید کے حضور میں اور بعض اعلیٰ درجے کے علماء و بزرگان کی موجودگی میں منعقد ہو رہی تھی۔ دوسری طرف ان تمام پہلووَں کو دیکھتے ہوئے میں خود ایسا مسئلہ اٹھانا چاہتا تھا جو مجلس میں شریک شخصیات کی توجہ کا مرکز قرار پا سکے۔ چنانچہ میں نے تقریر کے آغاز میں چند تعارفی جملے ادا کرکے، بات کا رخ بنوامیہ اور عباسی خلفاء کے طریقہ کار کی جانب موڑ دیا اور اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ؛ انہوں نے اپنے طرز حکومت میں، آئمہ علیہم السلام پر ہر قسم کا ظلم و ستم روا رکھا اور طول تاریخ میں آنے والے دیگر ظالموں نے ان کے اس ہولناک طور طریق کو اسی طرح جاری رکھا اور بالکل انہی کی طرح، کلمہ حق کہنے والے افراد کے سامنے کھڑے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں رضا شاہ نے بھی انہی خلفاء کے طریقے اور راستے کو جاری رکھنے کی کوشش کی ہے اور اہل بیت (ع) کی اسلامی ثقافت کو تباہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لایا ہے!۔۔ اس طرح میں نے بالواسطہ طور پر ایران کی سیاسی صورتحال پر تنقید کی اور کسی حد تک، اس وقت کے خراب حالات بیان کیے۔ جب میں منبر سے نیچے آیا تو آیت اللہ شاہرودی نے کہا؛ "آقا دیانی تقریر بہت اچھی تھی، ہم نے استفادہ کیا، لیکن محتاط رہیں کہ یہاں منبر پر کچھ باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ کیونکہ یہاں بھی کچھ لوگ مسائل پیدا کریں گے اور...!" آقا شاہرودی ٹھیک کہتے تھے، جیسے اگرچہ "شیخ محمد علی خراسانی" جیسے مشہور و معروف خطیب نجف میں موجود تھے، مگر سیاسی مسائل کے تجزیہ اور امام خمینی کی جلاوطنی کے حالات بیان کرنے کے امکانات ابھی مہیا نہیں ہوئے تھے۔

اگلے دن میں اکیلا آیت اللہ شاہرودی کے دفتر گیا اور ان کی خدمت میں پہنچا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے نجف آیا ہوں تو انہوں نے مجھ سے پاکستان کے حالات اور وہاں کے اہل تشیع اور علماء کا احوال پوچھا۔ پھر انہوں نے کچھ درد دل کی باتیں کیں اور نجف اور عراقی حکومت کی نئی صورتحال (امام کی جلاوطنی کے بعد) کا گلہ کیا۔ معلوم ہوا، ایرانی حکومت کے آیت اللہ خمینی کو جلاوطن کرنے کے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ان کی حرکت نے ایران کی حکومت کے لیے تشویش پیدا کر دی ہے اور اب یہ حکومت بزرگ علماء کو  کوئی جگہ دینے سے گریز کر رہی ہے۔ اس حوالے سے آیت اللہ شاہرودی نے کہا: "پہلے ایرانی حکومت ہم سے تمام معاملات کے بارے میں مشورہ کرتی تھی اور کہتی تھی کہ اگر آپ کی حکومت سے کوئی فرمائش یا درخواست ہے تو بتائیں، ہم اسے پورا کریں گے"۔ ہم جواب میں کہتے تھے، "ہم طالب علم ہیں اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ہم نے علم حاصل کرنا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لیے مفید  ثابت ہو سکیں"۔ "اگرچہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے لیکن حکومت اس معاملے میں اصرار کرتی تھی اور ہم سے پوچھنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی! لیکن اب، جب ہم کچھ عرصے سے آیت اللہ خمینی کی رہائی کا مطالبہ اور درخواست کر رہے ہیں تو ایرانی حکومت ہماری درخواست پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے"۔ جناب شاہرودی کے اس بیان سے مجھے پتہ چلا کہ ایران کے علماء، خصوصاً بزرگ علماء نے آقا روح اللہ خمینی کی واپسی اور جلاوطنی کے خاتمے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں، لیکن ایرانی حکومت نے علماء کی خواہش پر کوئی کان نہیں دھرے ہیں!

منبع: اسداللهی گازار، احمد،‌ مریم سبحانیان، شیخ اسماعیل، تهران، سوره مهر، 1400، ص 184 -

 

 



 
صارفین کی تعداد: 509


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔