دعائے توسل کی محفل میں کیا ہوا؟ 2

ترجمہ: محب رضا

2023-11-28


ہمارا دعائیہ پروگرام 1344 میں 'تیر' کے مہینے کے تقریباً وسط میں گوہرشاد مسجد کے دارالسیادت میں مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوا۔ دار السیادت ایک بڑی راہداری اور ایک وسیع ہال پر مشتمل تھا، جس کا داخلی راستہ بنیادی طور پر مسجد گوہرشاد سے تھا۔ اب بھی تقریباً اسی طرح ہی ہے۔ اگر مسجد گوہرشاد سے داخل ہوں تو نیچے کی جانب چند سیڑھیاں اتر کر ایک بڑا احاطہ آتا ہے جس میں بہت سے کمرے ہیں۔ اس کے آخر میں ایک قدیمی صحن ہے جسے صحن انقلاب کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ وہی صحن ہے جہاں اسماعیل نامی پانی کی طلائی سبیل اور لوہے کے پنجرے والی کھڑکی [اس کھڑکی سے صحن میں کھڑے ہو کر ضریح مبارک نظر آتی ہے]  واقع ہے۔ دارالسیادت حضرت امام رضا علیہ السلام کے مزار اقدس سے بہت نزدیک، بالکل راستے میں اور زائرین کی گزرگاہ ہے۔ اس جگہ کو منتخب کرنے کی بنیادی وجہ اسکی یہی اہمیت تھی؛ کہ اگر زائرین چاہیں کہ مسجد گوہرشاد سے زیارت کے لیے جائیں، یا قدیمی صحن کی جانب، یا پانی کی سبیل اور لوہے کے پنجرے والی کھڑکی کی سمت جائیں، یا پھر گوہرشاد مسجد کی باجماعت نماز میں شرکت کریں، خاص طور پر گرمیوں میں یا اس وقت جب موسم اچھا ہوتا ہے اور لوگ صحن میں نماز باجماعت ادا کرتے ہیں؛ مختصراً، آپ جس کسی سے بھی ملنا چاہیں تو اس سے یہاں مل سکتے تھے۔ ہمارا دعائیہ پروگرام بھی عین اسی جگہ منعقد ہوا۔ اس گزرنے والی جگہ کے کنارے۔

ابتدا میں تو بیس یا اس سے بھی کم لوگ تھے، لیکن تین چار راتوں کے بعد طلبہ و طالبات اور زائرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی۔ پروگرام اس طرح  سے ہوتا تھا کہ ایک فرد دعائے توسل پڑھتا تھا، اور دوسرا شخص دعا کے درمیان، اہل بیت علیہم السلام کے مصائب بیان کرتا تھا اور تیسرا فرد،جس کے ذمے پروگرام کا سب سے اہم کام تھا، دعا کے آخر میں امام کا ذکر کرتا اور ان کے لیے دعا کرتا تھا۔ دعا کے اس آخری حصے کی ذمہ داری زیادہ تر قم کے دوستوں اور طالب علموں کی تھی۔ ایک طالب علم، جن کا نام جناب موَیدی تھا، دعائے توسل پڑھتے تھے، اور طلاب میں سے ایک اور محترم، جن کا تعلق کرمان سے تھا، بدقسمتی سے جن کا نام میں اب بھول گیا ہوں، بہت اچھی آواز کے مالک تھے اور مصائب کی ادائیگی بہت اچھے انداز میں کرتے تھے، کبھی کبھی دعائے توسل بھی پڑھ لیتے تھے، یا کم از کم اس کا کچھ حصہ۔ دیگر حضرات بھی موجود ہوتے تھے اور مختلف کاموں میں شریک تھے، لیکن مجھے ان کے نام یاد نہیں رہے کیونکہ یہ محفل ہر رات ہوتی تھی، اور ہر رات کوئی نہ کوئی پروگرام کا انتظام کرتا تھا،اور ہر رات مزید لوگ اس دعائیہ تقریب میں شریک ہوتے تھے۔

پہلے تو ہجوم ہو جانے کی وجہ سے حرم مطہر کے کچھ خدام نے اعتراض کیا کہ لوگ جمع نہ ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ساواک کو شک ہو گیا تھا کہ ہم اس دعائیہ پروگرام کے بہانے امام کے لیے دعا کرواتے ہیں، اسی لیے انہوں نے براہ راست مداخلت نہیں کی اور خدام میں سے چند افراد کو بھیجا کہ وہ اس اجتماع کو محدود کریں اور ہمارے کام کا دائرہ پھیلنے نہ دیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ خدام ایسا نہیں کر سکے تو وہ خود سامنے آ گئے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب خادم لوگوں سے کہتے ہیں کہ ادھر کھڑے نہ ہوں یا  مجمع نہ لگائیں تو لوگ انکے کہنے پر توجہ نہیں دیتے  یا انکے اعتراض پر خود معترض ہو کر جواب دیتے ہیں۔لہذا ساواک میدان میں کودی اور دو تین طلباء کو، جو دعا کے آخر میں امام کے نام کا ذکر کرتے تھے، گرفتار کر لیا؛ اگرچہ بعد میں انہیں کسی بہانے سے بہت جلد رہا کر دیا گیا۔

اس سال موسم گرما میں جب یہ پروگرام ہوا، ہمارا پورا خاندان مشہد کے ایک مضافاتی پرفضا مقام آخلمد میں ٹہرا ہوا تھا۔ سوائے میرے، کیونکہ میں اس پروگرام کی وجہ سے انکے ساتھ نہیں گیا تھا، یہاں تک کہ ان راتوں میں سے ایک رات، میں ان سے ملنے گیا اور رات وہاں گزاری۔ اگلے دن جب میں نے وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا تو میری ماں نے کہا، "تم کہاں جا رہے ہو؟ آج رات یہیں رکو۔" میں نے کہا "نہیں! مجھے جانا ہے، مجھے مشہد میں کام ہے"۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ دعائے توسل کے اس پروگرام میں شرکت کروں۔

میں مغرب کے قریب مشہد پہنچا اور سیدھا مسجد گوہرشاد چلا گیا۔ جب میں پہنچا تو پروگرام شروع ہو چکا تھا اور میں کچھ کہے سنے بغیر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ میں نے اپنے دوستوں سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کل رات کیسی رہی! کچھ ہوا یا نہیں؟ میں نے محسوس کیا کہ کچھ اجنبی لوگ موجود ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ کل رات دو تین لوگوں کو پکڑ کرلے گئے تھے۔

ایک بہت بڑی تعداد بیٹھی دعا پڑھ رہی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ اس قدر اندھیرا تھا کہ گویا پورا مشہد بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ دوستوں نے کچھ موم بتیاں روشن کیں اور دعا جاری ہو گئی۔ بجلی آنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا۔ جب بجلی آئی تو مجھے لگا کہ مجمع کی ترتیب اور شکل بدل گئی ہے۔ کچھ حلیے بدلے ہوئے تھے، مجمع میں تقریباً تیس نئے چہرے نظر آ رہے تھے، البتہ ان کی اکثریت محفل کے آگے جمع تھی، جہاں دعا پڑھی جا رہی تھی۔ پہلی نظر میں، مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ ساواکی اہلکار ہیں، لیکن وہ تھے!

دعائے توسل اپنے اختتام پر پہنچ چکی تھی اور اب کسی نے آگے جا کر وہ آخری دعا اور پروگرام کے آخری مرحلے کو ادا کرنا تھا لیکن بظاہر آگے جانے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ میں جناب عماد شریفی کے پاس کھڑا تھا، میں نے خاموشی سے سرگوشی کی: "کیا کوئی ہے جو پروگرام کو ختم کر سکے؟ لوگ آہستہ آہستہ منتشر ہو رہے ہیں۔" وہ خاموش رہے اور کچھ نہیں بولے۔ لوگ کھڑے ہوگئے تھے اور کچھ جانے والے بھی تھے، جب میں نے مرحوم شریفی سے دوبارہ پوچھا: "وہ دعا کیوں نہیں کر رہے؟" کیا طے نہیں ہے کہ کوئی دعا کروائے گا؟" اس بار انہوں نے کہا: "مجھے نہیں معلوم!" اب دیر کی گنجائش نہیں تھی۔ اسی لمحے میں نے خود آخری دعا کروانے کا فیصلہ کیا اور شروع کر دی۔ میں نے اسی جگہ سے  باآواز بلند بولا: "خدا کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے..." پھر میں نے چند ابتدائی جملے کہے،  اسکے بعد امام کے لیے دعا مانگی جو اصل مقصد تھا اور بس! البتہ یہ بس نہیں تھا بلکہ ایک ماجرے کا آغاز تھا۔ اس دعا پڑھنے اور آمین کہنے اور لوگوں کے آنے جانے کے درمیان، میرے پیچھے سے دو لوگوں نے، دونوں طرف سے میری کلائیاں پکڑ لیں اور بڑے آرام سے مجھے احساس دلایا کہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلوں۔ گرفتاری کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ سنہرے بالوں والا، خوش لباس نوجوان جو میرے پیچھے کھڑا تھا اور دعا کے اختتام کا انتظار کر رہا تھا، وہ مشہد کے ساواکی اہلکاروں میں سے ایک تھا۔

 

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 181 - 186.

 



 
صارفین کی تعداد: 435


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔