امام خمینی سے ملاقات

ایران ترابی کا واقعہ

انتخاب : فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-8-19


۸ فروری ا۱۹۷۹ کا دن تھا ہم ہسپتال میں تھے۔ ہمیں حکم ملا تھا کہ ہم تیار رہیں کیوں کہ آج ائیر فورس کے اراکین امام خمینی سے ملاقات کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شدید جھڑپ چھڑ جائے۔

اس دن ائیر فورس والے رفاہ اسکول گئے اور امام خمینی سے ملاقات کی۔ ظہر کے بعد ہم (ایران ترابی اور ان کے ساتھی)  بھی رفاہ اسکول گئے تاکہ امام خمینی سے ملاقات کر سکیں۔ مدرسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اس وجہ سے ہم صرف امام کا دیدار ہی کر سکے ان سے گفتگو نہ کر سکے۔ جب لوگوں نے یہ نعرہ لگایا کہ ’’ ہم سب تیرے سپاہی ہیں اور اے خمینی تیرے فرمان پر کان  لگائے کھڑے ہیں۔۔ جب تک جان میں جان ہے خمینی ہمارا رہبر ہے۔ اس وقت میری آنکھوں سے ایسے ہی آنسو جاری ہوئے جیسے امام رضا علیہ السلام کے روضہ پر جاری ہوتے ہیں۔

اس رات تمام سڑکیں ٹریفک سے پر تھی اور فائرنگ کی آواز تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ اگلے دن ہمیں اطلاع ملی کہ ائیرفورس کے اہلکاروں پر حملہ ہوا تھا اور بہت سے زخمیوں کو فرحناز پہلوی اسپتال لایا گیا تھا۔ آپریشن تھیٹر میں جا کر دیکھا تو وہا ں زخمیوں  میں ائیر فورس کے اہلکار بھی تھے اور حملہ آور بھی ۔  ہم نے اپنا کام شروع کیا تو اسپتال سوم شعبان سے فون آیا کہ وہاں زخمیوں کی تعداد زیادہ میں جلد از جلد وہاں پہنچوں۔

میں نے کہا: یہاں بھی بہت زیادہ زخمی آئے ہوئے ہیں  اور ہمارا کام زخمیوں کا مداوا کرنا ہے یہاں کروں یا وہاں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس رات صبح تک ہم نے کئی ایک بڑے آپریشنز انجام دئیے کچھ ائیر فورس کے اہلکار اور کچھ حملہ آور زخموں کی تاب نہ لا سکے اور انتقال کر گئے۔

آپریشنز کے دوران ہی ایک مریض کو ہم باہر لائے تاکہ اس کو وارڈ  کی تحویل میں دیں تو ریکوری روم سے گالیوں کی آواز سنی۔ وہاں ایک حملہ آور گارڈ  اور ایک ائیر فورس آفیسر  اسٹریچر خالی ہونے کے انتظار میں تھے تاکہ ان کو آپریشن تھیٹر لے جایا جا سکے۔  حملہ آور کے گلے میں کوئی مخصوص نشان تھا جس کی وجہ سے ائیر فورس کے افسر نے اس کو پہچان لیا تھا۔  وہ چاہتا تھا کہ اٹھ کر اس کو مارے مگر اس کے پیر  میں گولی لگی تھی  اور اس کے پاس اسپتال کا عملہ تھا جو اس کو اٹھنے نہیں دے رہا تھا۔  حملہ آور خاموش ہوگیا تھا مگر زیر لب یہی کہہ رہا تھا کہ میں  حملہ آور نہیں ہوں۔ ائیر فورس افسر نے گالیاں دیں اور کہا جھوٹ مت بک اگر تو حملہ آور گارڈ نہیں تو یہ میڈل تیری گردن میں کیا کر رہا ہے؟ اس نے گالی دی اور کہا کہ تم بکاو کارندے ہو۔  تم اسرائیل کے زر خرید ہو۔ حملہ آور گارڈ بہت ڈر گیا تھا کیوں کہ وہ اس وقت ایسے مجمع میں پھنس گیا تھا جہاں سب لوگ ہی امامؒ اور انقلاب کے حامی تھے۔  وہ خاموش تھا مگر کبھی کبھی بڑبڑاتا تھا کہ ہم بے قصور ہیں ہمیں تو  اس کا حکم ملا تھا۔ اس کو آپریشن تھیٹر میں لائے تو ہمارے بعض ساتھیوں کا کہنا تھا کہ لعنت ہے ایسے پیشے پر کہ اب  ہمیں  تجھ جیسے  کا بھی مداوا کرنا پڑے گا۔ ساری دنیا مر گئی تھی کہ تو امریکا اور اسرائیل کا کتا بن گیا۔

وہ حملہ آور کہتا تھا: صاحبوں ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا ہم تو بس اپنے بیوی بچوں کے لئے روٹی روزی چاہتے تھے اور بس۔ خدا لئے آپ میری مدد کریں۔

حملہ آور شدید ڈرا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تمہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے مت مارنا۔

ہم نے جواباً کہا: ہم قاتل نہیں ہیں مسیحا ہیں۔ دشمن بھی اگر ہمارے پاس ہو تو ہم اس کا علاج کرتے ہیں یہی ہماری ذمہ داری ہے۔  تم ہمارے ہی بھائی ہو خدا لعنت کرے ان پر جنہوں نے تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو مارنے کی ترغیب دی۔  ہم تمہارا علاج کریں گے اگر کل کلاں کو تم صحت یاب ہوگئے تو کوشش کرنا نئی زندگی میں انسان بن کر رہو۔ حق کے طرفدار بنو اور راہ حق میں جان دو۔

ہم اس کو آپریشن تھیٹر میں لے آئے اس کے گلے سے میڈل اتارا تو اس نے کہا اس کو کچرے  میں پھینک دو یہ اعزاز نہیں ہے  بلکہ یہ میرے لئے مایہ ذلت ہے۔ جب تک وہ بیہوش نہ ہوگیا مسلسل کانپتا لزرتا رہا۔  آپریشن کے بعد میں اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ اس کو ریکوری روم اور وارڈ میں اس ائیر فورس افسر کے پاس مت لٹانا اس کا کمرہ الگ رکھنا۔ [1]

 

 

 

 

 

 

 


[1] سجادی شیوا۔ خاطرات ایران، خاطرات ایران ترابی، ناشر: سورہ مہر، تہران طبع اول ص ۱۰۸۔ ۲۰۱۲



 
صارفین کی تعداد: 777


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔