یہ بچہ تمہیں کہاں سے ملا؟

ترجمہ: محب رضا

2023-8-14


اسفند 1342 میں تہران یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے دھرنا دیا، کلاسیں تعطیل کر دی گئیں۔ اسی وجہ سے میں معمول سے کچھ روز پہلے، یعنی 20 اسفند کو، نوروز کی تعطیلات سے چند دن پہلے، جب آیت اللہ سید حسین آیت اللہی کو رہا کیا گیا تھا، تہران سے جہرم واپس لوٹ آیا۔ وہاں سب مجھ سے پوچھتے رہے تم اتنی جلدی کیوں آگئے؟ میں جواب دیتا تھا: "تہران میں ہڑتال اور دھرنے کی وجہ سے کلاسیں بند تھیں۔ اس لیے میں وقت سے پہلے آگیا۔" دراصل میں ایک استاد تھا اور مجھے حکومت سے تنخواہ ملتی تھی، اور میں سرکاری طور پر پڑھنے کے لیے تہران گیا تھا، اس لیے جب انہوں نے دیکھا کہ میں نوروز کی چھٹی سے دس دن پہلے واپس آیا ہوں، تو یقیناً سوال پوچھنا بنتا تھا کہ میں جلدی کیوں آ گیا؟!

جس دن میں تہران سے پلٹا، آیت اللہ سید فخرالدین آیت اللہی نے، کہ جن سے میں نے سیوطی کا ایک حصہ (سال 1331 اور 1332) میں پڑھا تھا، مجھے گلی میں دیکھا، خوش آمدید کہا اور پوچھا:

  • "تم کب آئے؟"
  • "کل"
  • "اتنی جلدی کیوں؟!"

میں نے بے خیالی میں فرض کیا کہ وہ آدمی، جو انکے ہمراہ ہے، کیونکہ وہ انکے ساتھ تھا اس لیے قابل اعتماد شخص ہوگا، جواب دیا: ’’جناب! تہران میں ہڑتال تھی اور طلبہ نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ میں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور جہرم آگیا"۔

اس سے اگلے دن، پولیس میرے گھر پہنچ گئی  اور پولیس کے سپاہی نے کہا: "انہوں نے ہم سے کہا ہے کہ آپ کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیں۔ لیکن آپ کے گھر والوں کی عزت اور مجھے آپ کے والد سے جو عقیدت ہے، اس کی خاطر میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ پولیس اسٹیشن آجائیں تاکہ مجھے آپ کو ہتھکڑی لگانے کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے۔"

جب میں پولیس اسٹیشن پہنچا تو انہوں نے مجھے جھوٹی افواہیں پھیلانے کے الزام میں پوچھ گچھ کے لیے بھیج دیا۔ میں نے بھی یہ کہا: "یا تو تم جھوٹی افواہیں پھیلانے کا مطلب نہیں جانتے، یا تم جانتے ہو اور مجھے جان بوجھ کر گرفتار کیا گیا ہے۔"

"ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں،" تفتیش کرنے والے نے کہا۔

"اگر آپ جانتے ہیں، جھوٹی افواہیں پھیلانے کا مطلب، جھوٹ پھیلانا ہے۔ تو میں نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔"

"تم سال کے اس وقت کلاسیں چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے ہو؟"

"کیونکہ ہڑتال تھی، کلاسیں بند تھیں۔ چنانچہ میں ادھر آگیا۔"

"کسی بھی صورت میں، ہم کیس درج کریں گے اور اسے سیکورٹی ایجنسی کو بھیجیں گے، پھر وہ آپ کے ساتھ جو کرنا چاہیں، کریں۔ ہمارا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

جہرم پولیس اسٹیشن کا چیف انسپکٹر دانشور، ہائی اسکول میں کچھ عرصے تک میرا ہم جماعت رہا تھا۔ میں اسے جانتا تھا۔ جب میری فائل دستخط ہونے اس کے پاس پہنچی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی پیش کیا جائےَ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، چونکہ وہ مجھ سے واقف ہے، اس لیے یقیناً میرا کچھ لحاظ کرے گا۔ جب میں داخل ہوا تو اس نے میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جیسے وہ مجھ سے کبھی ملا ہی نہ ہو اور ناہی مجھے جانتا ہو۔ اس نے پوچھا: "تم نے جھوٹی افواہیں کیوں پھیلائیں؟"

میں نے بھی یہی کہا: "میں نے جناب نجیبی کو بھی یہی کہا تھا کہ کوئی جھوٹی افواہ نہیں پھیلائی، میں ایک استاد ہوں اور جہرم کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے تنخواہ لیتا ہوں۔ اگر ایک دن بھی غیر حاضر رہوں تو میری تنخواہ کاٹی جاتی ہے۔ جب میں جہرم پہنچا اور لوگوں نے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیوں آگئے؟ تو میں نے فقط یہ کہا کہ کلاسیں تعطیل ہو گئی ہیں، اس لیے واپس آ گیا۔ انہوں نے پھر پوچھا کیوں تعطیل ہوئیں؟ میں نے یہ بتایا کیونکہ ہڑتال ہوئی تھی۔ یہ جھوٹ نہیں ہے۔ ہڑتال ہوئی ہے اور اس لیے کہ میں ان کی طرح اس میں شرکت نہ کروں اور بہانہ بنا سکوں، اس لیے میں جہرم آگیا۔"

- "اب اس طرح کی باتیں کر رہے ہو کہ خود کو بچا سکو؟! لیکن اب یہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہمیں لازماً کیس سیکیورٹی ایجنسی کو بھیجنا ہوگا۔ وہ تمہارے لیے جو مناسب سمجھیں، کریں گے۔"

پھر انہوں نے مجھے منوچیہری اسٹریٹ بھیج دیا۔ وہ جگہ جسے "پائیدار فورس"  کہتے تھے،اس جگہ لوگوں کو لے جایا جاتا تھا اور تربیت دی جاتی تھی۔ انہوں نے وہاں ایک شخص کو انچارج بنایا ہوا تھا۔ ادھر وہ مجھے انسپکٹر پورزال کے پاس لے گئے۔ وہ مجھے جانتا تھا؛ کیونکہ جب ہم نے جہرم میں بلاک بنانے کی پہلی مشین خریدی تھی اور بلڈنگ بلاکس بناتے تھے، تو ہم نے انسپکٹر پورزال کے باغ کے لیے ایک سوئمنگ پول بنایا تھا۔ اس طرح میں اسے جانتا تھا۔ جب وہ مجھے انسپکٹر پورزال کے پاس لے گئے تو اس نے پوچھا: "تم یہاں کیوں آئے ہو؟"

میں نے اسے بتایا کہ کیا ماجرا ہے۔

- "میں تمہارا کیس شیراز نہیں بھیجوں گا۔"

مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ یہ جہرم کی سیکیورٹی ایجنسی کا ادارہ ہے اور وہ خود اس کا انچارج ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسپکٹر پورزال نے مجھ سے کہا: "ان کو دکھانے کے لیے، کہ ہم نے کارروائی کی ہے، میں تم سے ضمانت لوں گا اور فی الحال تمہیں رہا کر دوں گا۔ جاؤ، کل آنا!"

مجھے رہائی مل گئی اور اگلے روز میں پھر دوبارہ انسپکٹر پورزال کے سامنے بیٹھا تھا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ ڈرامہ تھا یا نہیں، ایک سپاہی نے آ کر اس سے کہا: "ایک خاتون آئی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اسے تم سے کوئی کام ہے۔"

"کیسی خاتون؟"

- "ایک عورت، جس کی گود میں ایک بچہ ہے؛ غریب لگتی ہے اور کچھ مانگنا چاہتی ہے۔"

اس نے بھی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک تومان کا سکہ نکالا اور کہا: "اسے دے دو۔ کہو کہ ابھی وقت نہیں ہے۔"

سپاہی چلا گیا اور پھر دوبارہ واپس آیا، بولا: "وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے پیسے نہیں چاہیے۔ میں خود انسپکٹر سے ملنا چاہتی ہوں۔"

ایک بار پھر، سپاہی گیا اور واپس آیا، یہاں تک کہ آخر کار اسے خاتون کو کمرے میں بلانا پڑا۔ جب وہ عورت داخل ہوئی تو اس نے خانہ بدوشوں کی طرح لباس پہنا ہوا تھا اور گلے میں سکارف لپٹا ہوا تھا اور اس کی آغوش میں ایک بچہ تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی، میں نے دیکھا کہ انسپکٹر تیزی سے اپنی میز کے پیچھے سے اٹھا، اپنے پاوَں جوڑے اور اس خاتون کو سلوٹ مارا۔ "اپنا ہاتھ نیچے کر لو" عورت نے کہا۔ پھر اس نے انسپکٹر سے کہا: "بس کمپنی کو کال کرو اور میرے لیے تکٹ کا بندوبست کرو۔ میں لار جانا چاہتی ہوں، ایک مشن کے لیے۔"

’’آپ خود ٹکٹ کیوں نہیں لیتیں؟‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔

اس عورت نے میری طرف اشارہ کیا۔ "مسئلہ نہیں ہے"، انسپکٹر نے کہا۔ "یہ میرا دوست ہے۔"

انسپکٹر نے یہ نہیں کہا کہ میں بطور ملزم وہاں موجود تھا۔ پھر انسپکٹر نے اس سے پوچھا: "یہ بچہ تمہیں کہاں سے ملا؟"

- "ایک مشن پر تھی؛ میں نے یہ بچہ اس وقت کسی سے خریدا تھا جب ہم خفر کے راستے سے آرہے تھے، تاکہ میں اپنا مشن مکمل کر سکوں۔"

بہر الحال انسپکٹر پورزال نے میونسپلٹی کو فون کیا اور کہا: "یہاں ایک فقیر ہے جو لار جانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس کے لیے ٹکٹ کابندوبست کرو تاکہ وہ جا سکے۔"

جب وہ عورت چلی گئی تو میرا جسم کانپ رہا تھا۔ انسپکٹر نے کہا: "یہ ملکی سیکیورٹی ایجنسی کے اعلیٰ افسران میں سے ایک ہے۔"

مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ یہاں کس مشن کے لیے آئی تھی، میں نے انسپکٹر سے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ آخرکار اس نے مجھ سے یہ عہد لیا کہ میں بغیر اطلاع کے جہرم کی حدود کو نہیں چھوڑوں گا اور پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ انسپکٹر نے یہ بھی کہا: "خبردار رہو اور آئندہ ایسے الفاظ مت کہنا!"

 

منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 67 ـ 72.

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 642


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔