مت بتانا کہ مجھ پر تشدد ہوا ۔ ۱

تحریر: محسن رضائی میر قائد

2023-6-20


تعلیمی سال کے آغاز ہوتے ہی، ہم بظاہر پڑھائی میں مصروف تھے، لیکن دراصل ہر لمحہ ساواک کے کارندوں کی آمد اور اپنی گرفتاری کے منتظر تھے۔ ہم نے اپنی مشترکہ رہائش بھی چھوڑ دی تھی اور صرف کلاسوں میں مصروف تھے تاکہ پتہ چل جائے کہ ساواک والے ہمارے سراغ میں آتے ہیں یا نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، تعلیمی سال شروع ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ مجھے لیتھ ورکشاپ سے ٹیکنیکل سنٹر کے پرنسپل کے دفتر میں بلایا گیا۔وہاں، ہم نے جو سوچا تھا، وہی ہمارا منتظر تھا، اور ساواکی ہمیں گرفتار کرنے کے لیے موجود تھے۔

گرفتار کرتے وقت، ایک افسر نے مجھ سے پوچھا، "تمہارا نام کیا ہے؟" جیسے ہی میں نے کہا: "سبزوار رضائی"، تو وہ مسکراتے ہوئے بولا: "بہت خوب، سبزوار، ہاں؟"  مختصر یہ کہ وہ ہمیں ایک لینڈ روور میں بٹھا کرلے گئے۔ انہوں نے مجھے ہتھکڑیاں لگائی ہوئی تھیں اور میرے دونوں طرف، دو افراد بیٹھے تھے۔ آنکھوں پر بھی پٹی بندھی تھی۔ اب مجھے یہ یاد نہیں کہ انہوں نے سنٹر میں ہی میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی یا گاڑی میں، لیکن یہ یاد ہے کہ جب میں ساواک کے ادارے میں داخل ہوا تو میری آنکھیں بند تھیں۔

حسین کیانی اور براتی ایک ساتھ کاروائیاں کرتے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے بارے میں کچھ معلومات ہمارےان دو دوستوں کے ذریعے ان لوگوں تک پہنچی ہیں۔ وہ ہمیں تفتیشی کمرے میں لے گئے اور مارنا شروع کر دیا، انہوں نے ہمیں خوب مارا۔ کبھی کبھار ساتھ والے کمرے سے لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی آتیں۔ ہم نے سوچا کہ وہ یہ آوازیں خود ہم تک پہنچانا چاہ رہے ہیں، شاید کسی اور دوست کو مار پڑ رہی ہے کہ جس کا شور تھا۔ انکے کارندے کوشش کر رہے تھے کہ یہ شور ہمارے کمرے تک پہنچے تاکہ ہمارا حوصلہ کمزور ہو جائے۔

ساواک کے کارندوں نے ہمیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ تفتیش کرنے والے چاہتے تھے کہ وہ اپنے تک پہنچی ہوئی ساری معلومات ہماری زبانی سنیں اور اس کے علاوہ وہ معلومات، جو اب تک ان کے پاس نہیں ہیں، ہم سے حاصل کریں۔ اس کے لیے انھوں نے دو حربے استعمال کیے: ایک، انھوں نے اعتراف جرم کروانے کے لیے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا، دوسرے، انھوں نے گروہ کے کچھ دوستوں کے اعترافی بیانات کو ہمارے خلاف استعمال کیا۔ وہ انہیں لاتے اور ان کے سامنے ہم سے راز اگلوانے کی کوشش کرتے۔ اس صورت حال میں مزاحمت کرنا بہت مشکل تھا، کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ تفتیش کرنے والوں کو کچھ نہیں بتائیں گے اور انہیں یہ باور کرائیں گے کہ یہ معلومات اور خبریں ہمارے سفر سے پہلے کی ہیں اور موجودہ حالات کے بارے میں ہمارے خیالات، اس سفر کے دوران بدل گئے ہیں۔ ساواک کے ہتھکنڈوں کے ہوتے ہوئے اس طرح کی ذہن سازی کرنا بہت مشکل کام تھا۔ ایک طرف اپنی مسلح کاروائیوں جیسی اہم معلومات کا انکو بتانا ناممکن تھا اور دوسری طرف ان کے سامنے اس طرح ظاہر کرنا تھا کہ اگر ہم ماضی میں انکی مخالفت کرتے رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ حکومت، معاشرے میں غربت کی وجہ ہے، تو اب ہماری رائے بدل چکی ہے۔ ساواکی افسروں  کے شکنجے میں رہتے ہوئے اور بعض دوستوں کے اعترافی بیانات کے ہوتے ہوئے، انکے ذہن میں ایسی تصویر بٹھانا بہت مشکل کام تھا لیکن کیونکہ ہم نے اس کی تیاری پہلے سے کی ہوئی تھی اس لیے دوستوں نے جیل میں یہ کھیل بخوبی کھیلا۔

تشدد کے دوران، وہ ہمیں تاروں کے علاوہ، گھونسے اور لاتوں سے بھی مارتے تھے۔ کبھی کبھار دو لوگ اکٹھا مارتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے ہمیں اہواز جیل کے قید تنہائی والے کمروں میں منتقل کر دیا لیکن چند روز بعد وہ ہمیں جیل سے دوبارہ ساواک کے عقوبت خانے لے آئے۔ اس کی وجہ کچھ جدید اطلاعات تھیں، جو انہوں نے حاصل کی تھیں۔ اہواز جیل کے یہ سیل، عمومی وارڈ کے باہر، جیل کے صحن میں تھے۔ جیل انتظامیہ اور گارڈز کے کمرے بھی اسی جگہ  تھے۔ ہمارے سیل، ان کے کمروں کے بالکل سامنے، انکی آنکھوں کے بالمقابل تھے۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ جن تین سیلوں میں مجھے، علی احمدی اور عبداللہ ساکیہ کو رکھا گیا تھا، وہ یا تو ان لوگوں کے لیے مخصوص تھے جو موت کی سزا کے منتظر ہوتے ہیں یا وہ لوگ، جو جیل میں چاقو زنی کرتے ہیں اور خطرناک قیدی ہوتے ہیں۔ اسی لیے، انہیں باقی قیدیوں سے الگ کر کے، کچھ عرصہ وہاں رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ سیل، جیل انتظامیہ کی آنکھوں کے بالکل سامنے تھے۔ اس لیے ان قیدیوں اور سیلوں کی تمام آمد و رفت کو باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا تھا تاکہ ان سے کوئی بیرونی رابطہ نہ ہو سکے۔ اس  کے ساتھ ساتھ، ان سیلوں کی بناوٹ میں یہ خاصیت بھی تھی کہ جب چاہا، ہمیں یہاں سے نکال کر فوراً ساواک کے پاس لے جا سکتے تھے۔ ہم نے سیل میں داخل ہوتے ہی آپس میں بات کرکے یہ طے کر لیا کہ تفتیش کے دوران کس نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔

منبع: رضایی میرقائد، محسن، تاریخ شفاهی جنگ ایران و عراق روایت محسن رضایی، ج 1، به کوشش حسین اردستانی، تهران، سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1394، ص 132 – 146.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 793


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔