خواتین کے ڈائری

راوی: سیدہ بی بی موسوی

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-6-24


میرا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ شوہر تو محاذ پر تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ خواتین شہید کلانتری اسپتال جاتی ہیں اور زخمیوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔ میں اس بات پر شدید غمگین تھی کہ میں وہاں نہیں جا پارہی تھی۔ ایک دن گلیوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ اسپتال کے لئے چادریں اور کمبل کی ضرورت ہے۔ میں گھر کی چار پانچ چادریں اٹھائیں اور ان کو دو کمبلوں میں رکھا  اور چادر اوڑھ کر چل پڑی۔ کمبلوں کو میں نے کندھے پر لادا ہوا تھا۔ میں نے کوئی آدھے گھنٹہ کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کیا  اور شہید کلانتری اسپتال جا پہنچی۔ وہاں پہنچ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں محاذ جنگ کے اگلے مورچہ پر پہنچ گئی ہوں۔ وہاں بہت سے خواتین و حضرات بسیجی  اور خاکی لباس میں ملبوس ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔وہاں سے اپنا دھیان ہٹانا میرے لئے کافی دشوار تھا۔ میرا من تھا کہ محاذ جنگ کے لئے کوئی کام ضرور کروں۔ خیر بادل ناخواستہ وہاں سے گھر کی راہ لی۔ گھر کے دروازہ پر پڑوس کی خاتون کو کھڑا پایا تو باتیں شروع ہوگئیں۔ ’’اس نے بتایا: ’’ میرا بہنوئی ڈاکٹر ہے۔ مشہد سے اس کو صحرائی اسپتالوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ وہ اکثر یہاں آتا رہتا ہے۔‘‘

اس نے بتایا کہ وہاں پر صاف چادروں اور کمبلوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ میں نے اس سے کہا: ’’جب وہ آ رہا ہو تو اس سے کہنا کہ اسپتال کے میلے کپڑے اور چادریں لیتا آئے میں دھو دوں گی۔‘‘ دو تین دن بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے جا کر دیکھاتو باہر ایک چھوٹا ٹرک کھڑا تھا ۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ٹرک سے فوجی تھیلے اتارے جارہے تھے ۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا : ’’ ایک دو دن میں واپس جاؤں گا تو یہ اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

میری آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں تھیں۔ میں نے کہا: ’’ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ ‘‘

میں نے وہ تھیلے اٹھا کر اپنے صحن میں لا رکھے۔ ہر تھیلے میں  فوجی پینٹ شرٹس تھیں۔ سب کی سب خون میں اٹی ہوئی تھیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ٹھنڈے  پانی سے یہ داغ آسانی سے نکل جاتے ہیں۔ میں نے ٹھنڈے پانی صابن اور بلیچ سے ان کو دھویا تاکہ ان پر دھبہ نہ لگے رہ جائیں۔ کچھ لباسوں میں کئی ایک سوراخ بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر میں بے ساختہ رو پڑتی تھی۔ صاف واضح تھا کہ گولیاں یا چھرے ان سوراخوں سے جوانوں کے جسم میں داخل ہوئے ہوں گے۔ مغرب تک میں نے سب ہی لباس دھو لئے اور ان کو سوکھنے کے لئے لٹکا دیا۔ اتنے کپڑے ایک ساتھ دھونے کی مجھے عادت نہیں تھی سو میری کلائیوں میں درد ہوگیا۔ اگلے دن میں نے سوراخ دار لباسوں کو رفو کیا۔ کپڑے سکھا کر میں نے دھلے ہوئے تھیلوں میں ڈالے اور ان کو لے کر ہمسائی کے گئی ان کا شکریہ ادا کیا ۔ میں نے کچھ بلیچ اور  صابن کی ٹکیاں بھی ڈاکٹر صاحب کو دیں۔ میں نے کہا: ’’ یقینا اس کی وہاں ضرورت ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے  مجھ سے وعدہ کیا کہ جب بھی وہ آئیں گے  گندے لباس لیتے آئیں گے۔ خدا کا شکر کہ ہر ہفتہ وہ میرے لئے زخمیوں اور ڈاکٹروں کے میلے لباس بھیج دیا کرتے تھے۔ محلے کی کچھ خواتین ایک دن میرے گھر آئیں۔ الگنی پر فوجیوں کے کپڑے لٹکے دیکھے تو استفسار کیا : ’’ سیدہ صاحبہ یہ فوجی لباس کہاں سے لے آئیں؟‘‘

میں نے جواب دیا: ’’یہ جنگجوؤں کے لباس ہیں۔‘‘

ان میں سے ایک نے کہا: ’’تمہیں تمہارے جد کی قسم ہے اب جب کبھی بھی کپڑے دھونا مجھے مد د کے لئے ضرور بلانا۔‘‘

میں اس کی حالت کو جان گئی تھی۔ بالکل میرے جیسی حالت تھی۔  میں نے اس سے کہا: ’’فکر نہ کرو میں بلا لوں گی۔‘‘

سردیوں کے ایام تھے کہ میرے شوہر محمد کریم جنگ سے واپس آئے۔ ان کے ساتھ کچھ بیگز اور تھیلے تھے۔ میں نے پوچھا: ’’ یہ کیا ہے؟ محاذ جنگ کی مٹی لائے ہو کیا؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’ جوان بارش میں مورچہ بنا رہے تھے ان کے لباس مٹی سے اٹ گئے۔ اکثر کے لباس میں اٹھا لایا ہوں دھونے کو مگر مجھے تم سے اس وقت شرم آرہی کہ ہوا ٹھنڈی ہے  کہیں ایسا نہ ہو۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے سر جھکا لیا۔ میں نے ان کو اس بات  کا موقع نہیں دیا کہ وہ  اپنی بات پوری کر سکیں اور درمیان میں کہہ دیا: ’’ ان لباسوں کو دھونا تو میرے لئے مایہ افتخار ہے۔ کیا اس سے بہتر کوئی کام ہو سکتا ہے؟‘‘

اسی رات میں نے ان کپڑوں کو کئی بار پانی سے دھویا  اور پھر صرف کے پانی میں ڈبو کر رکھ  دیئے۔ صبح سویرے میں نے ان لباسوں  کو دھو کر ایسا کر دیا جیسے ابھی ابھی خریدے ہوں۔

میری چاہت تو یہی تھی کہ شہید ہوجاؤں مگر نہ ہوسکی۔ صدام کے پاس توپ ٹینک اور اسلحہ تھا اور ہمارے پاس انقلاب اور اپنے رہبر کا عشق تھا۔ اسی لئے ہم جذبہ کے ساتھ کام کرتے تھے اور کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اس وقت میرے تین بچے تھے۔ جنگ کے دوران بھی میں حاملہ ہوگئی تھی۔ صدام کمینے کی جانب سے ہر وقت گولہ بارود برستا رہتا تھا۔  میں ایک بار بھی شہر سے باہر نہیں گئی تھی۔ میرے گھر  کا دروازہ ہر مجاہد کے لئے کھلا تھا۔ میں ان جوانوں کی میزبانی اور ان کے لباس دھونے سے خوشی پاتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد میرا بیٹا محمد بھی محاذ پر چلا گیا۔ محمد [1] اس بات پر ہمیشہ میرے ہاتھ چوم کر میرا شکریہ ادا کیا کرتا تھا کہ میں مجاہدوں کے لباس دھوتی ہوں۔  وپ کہتا تھا: ’’ یہ ہاتھ شہیدوں کے خدمت گذار ہیں پس ان کو چومنا میری عاقبت بخیر کرے گا۔‘‘

۲۰ مارچ ۱۹۸۸ یعنی ایرانی سال کا آخری دن تھا جب محمد غربی علاقہ میں شہید ہوا۔ اس کا جسد خاکی اسی علاقہ میں رہ گیا جب اس کا بیگ مجھے ملا  تو اس میں اس کا لباس بھی تھا۔ اب ہمیں اپنے بیٹے کے پلٹنے کی کوئی امید نہ تھی۔ ہم نے اس کے اسی لباس کو دفن کردیا تاکہ اس کی کوئی یادگار بنی  رہے۔    میں نے محبت سے اس کے سنگ مزار کو چوما  میں اس کی رہین منت ہوگئی تھی کہ اس نے مجھے اب شہید کی ماں بنا دیا تھا۔ [2]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

[1] محمد سگوند ۲۰ مارچ ۱۹۸۸ کو سر پل ذہاب پر شہید ہوا مگر آج تک وہ جاوداں ہے۔

[2] حوالہ: میر عالی: فاطمہ سادات، حوض خون، اندیمشک کی خواتین کی روایات، مجاہدین کے کپڑے دھونے کے واقعات، ناشر: راہ باز، سال ۲۰۲۰، صفحہ ۳۸۹



 
صارفین کی تعداد: 608


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔