بھوک ہڑتال کا نتیجہ - ۲

تحریر: محمدی قبادی
ترجمہ: صائب جعفری

2023-6-13


ہماری ہڑتال کو غیر معینہ مدت کے لیے سمجھ لیا گیا اور چونکہ بعض ہڑتالیوں کی جسمانی حالت بہت خراب ہوگئی تھی، اس لیے آہستہ آہستہ یہ خبر باہر بھی پھیل گئی اور خراسان اور تہران کے افسران بالا، حالات کو دیکھنے کے لیے مشہد کی وکیل آباد جیل پہنچ گئے۔ حتیٰ شاہی پوچھ گچھ کے ادارے کے افراد بھی آئے اور کچھ ہڑتالیوں سے معلومات لیں۔ میرا خیال ہے کہ ساواک [شاہی حکومت کا خفیہ تحقیقاتی ادارہ] کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ سارا الزام پولیس اور اس کے کارندوں پر تھوپ دے، لیکن دوسری طرف، وہ خود بھی اس میں ملوث تھے۔ ہماری ہڑتال آہستہ آہستہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننے لگی تھی۔ افسران کے نامناسب رویے پر سوال اٹھنے لگے تھے۔ عام قیدیوں تک بھی اس معاملے کی خبریں پہنچ گئیں، اور ان سب سے مہم تر یہ کہ ملاقاتوں کے دوران، قیدیوں کے اہل خانہ بھی ،سیاسی قیدیوں کی، اس ہڑتال کے بارے میں مطلع ہو گئے۔

ہماری ہڑتال کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مجموعی طور پر مختلف عوامل نے اپنا کردار ادا کیا۔ انیسویں روز، جیل حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ آپ کے جو مطالبات ہیں بیان کریں، ہم پورا کریں گے۔ ہم نے، اپنے پاس موجود دستاویزات، شواہد اور معلومات کی بنیاد پر، جیل کے محافظوں کے برے اور توہین آمیز رویے سے لے کر کھانے کی مقدار اور معیار تک، اپنے مطالبات کا اظہار کیا اور جیل حکام نے اسے قبول بھی کر لیا، اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم کل سے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دیں گے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ہماری جسمانی حالت اور کمزوری کے پیش نظر، پہلے چند روز کھانا ہماری کوٹھریوں میں لایا جائے گا اور پھر چند روز بعد ہم کھانے کے لیے، کھانے کے ہال جانا شروع کریں گے۔ پہلے دن ہم نے ہلکی پھلکی غذا کھائی۔ مجھے یاد نہیں، شاید چند بسکٹ اور تھوڑی سی گرم چائے، لیکن اگلے دن جیل میں بہترین اور اعلیٰ قسم کا کھانا دیا گیا۔ البتہ ہم نے ایک دوسرے کو نصیحت کی تھی کہ ایک دم زیادہ کھانا نہ کھائیں۔ کیونکہ قیدیوں میں ایک دو ڈاکٹر بھی تھے اور انہوں نے ضروری مشورے دئیے تھے لیکن چند لوگوں نے کھاتے ہوئے اپنی حالت کا خیال نہیں رکھا اور بے ہوش ہو گئے۔ بالآخر،عمومی طور پر جیل کے حالات اور بالخصوص کھانے کی کیفیت، بدل چکی تھی۔

کھانا لانے کے لیے باورچی خانے جانے والے دوستوں نے بتایا کہ عام قیدی بھی ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے اور ہمیں مبارکباد دیتے رہے۔

البتہ میں خوراک کی مقدار اور معیار کے بارے میں ایک بات کہنا چاہوں گا۔ حالات میں اگرچہ بہتری ہوئی تھی لیکن بظاہر سیاسی قیدیوں کے لیے حالات زیادہ سازگار تھے اور دوسرے تمام قیدیوں نے اس بہتری سے اس حد تک فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ اسی طرح، ہڑتال کے دوران، تمام قیدیوں نے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ جن میں محمد علی پرتوی بھی شامل تھے، کیونکہ انہیں گولی لگی تھی اور ان کے دوستوں کے بقول  وہ زخمی تھے، اس لیے انہوں نے ہڑتال میں حصہ نہیں لیا اور ان کے دوست چپکے سے ایک بالٹی میں کھانا چھپا کر ان کے لیے لے جاتے تھے، لیکن عمومی طور پر حالات چند روز کے لیے بہتر ہو گئے تھے یہاں تک کہ پتہ چلا کہ یہ سب کچھ عارضی اور اس لیے تھا کہ ہمارے اعصاب جواب دے جائیں۔

دو تین ہفتے گزر گئے اور جیل کے حالات رفتہ رفتہ پرانے معمول پر آ گئے۔ کھانے کی مقدار اور معیار کم ہو گیا اور ہم نے سنا کہ وکیل آباد جیل کے افسران نے ایک قیدی کو خوب مارا ہے، اس قیدی نے خود آ کر ہمیں اطلاع بھی دی۔ ایک یا دو دن بعد، ایک اور قیدی  کے ساتھ یہ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ جب ہم نے دیکھا کہ یہ رویہ دہرایا جا رہا ہے تو ہم نے ردعمل میں اٹارنی جنرل یا کسی دوسرے ایک افسر کو ایک تفصیلی خط لکھا، جس میں اس واقعے کے بیان کے علاوہ، جیل کے محافظوں کے غیر انسانی رویے اور جیل حکام کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ وعدہ کرنے کے باوجود وہی حرکتیں دوبارہ کر رہے ہیں؛ ہم نے اس پٹیشن پر دستخط کیے اور دوسری ہڑتال کے لیے تیار ہو گئے۔

 

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 308 - 314.

 



 
صارفین کی تعداد: 662


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔