گرفتاریوں کا آغاز

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-6-23


حاج آقائے مصطفی خمینی رح کی شہادت کے بعد ہم نے کھلے عام اعلانات کے پمفلٹ بانٹنے شروع کردیئے، کہ دستخطی مہم چلانے اور ان پمفلٹس کو چھاپنے اور بانٹنے کی وجہ سے ساواک کے کارندے ہمارے پیچھے لگ گئے۔ در حقیقت ابھی حاج آقائے مصطفی خمینی رح کی شہادت اور انکی مجلس ترحیم کو کچھ زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ سواک نے گرفتاریاں شروع کردیں۔ جن افراد نے حکومت کے خلاف دستخطی مہم میں حصہ لیا تھا وہ ایک ایک کر کے جیل یا پھر علاقہ بدر کردیئے گئے۔ دستخط کرنے والوں میں سے ایک میں یعنی سید تقی دُرچہ ای تھا۔ اسلئے ساواک کے کارندے دوبارہ میرے پیچھے لگ گئے۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ عرصے کے لئے روپوش ہوگیا۔ ساواک کے کارندے دستخط کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان افراد کو بھی ڈھونڈ رہے تھے جنہوں نے اس مہم کے شروع کرنے اور پمفلٹس کے چھاپنے اور انہیں تقسیم کرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا کیا تھا۔

اس زمانے میں تحرکی ساتھیوں کی ایک بڑی مشکل دستخط کرنے والوں کی گرفتاری تھی۔ چونکہ اس وجہ سے وہ ہمیشہ ہی وحشت اور گھبراہٹ کا شکار تھے کہ جیل میں کہیں ان کا نام بھی کسی نے نہ لے لیا گیا ہو۔ میں بھی انہی گھبرائے ہوئے پریشان لوگوں میں سے ایک تھا۔ انہی دنوں ساواک کے کارندے میرے بھائی سید حسین دُرچہ ای کے گھر پہنچ گئے لیکن چونکہ انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو نہیں دیکھا ہوا تھا اور ان کے پاس تنہا نشانی یہ تھی کہ میں اور دُرچہ ای اس محلے میں پیش نماز ہے اور یہیں رہتا ہے، میرے دھوکے میں میرے بھائی کو اٹھا کر لے گئے۔ ساواک کے کارندے دو گاڑیوں میں سوار آئے تھے اور انکے استفسار پر بھائی نے یہ سوچ کر کہ شاید جامعہ روحانیت کے کھلے خط اور دیگر پمفلٹس پر دستخظ کرنے کی وجہ سے ان سے باز پرس کرنے آئے ہیں اپنا تعارف کروا دیا۔ حالانکہ بھائی نے چند ایک پمفلتس پر ہی دستخط کئے تھے جبکہ میں نے بلا استثنا تمام پمفلتس پر دستخط کئے تھے اور دوسروں سے دستخط لینے میں بھی سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے بھائی سے کہا کہ کپڑے پہن کر آجائے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ کہاں اور کس لئے لے کر جارہے ہیں تو ان کے سوال کے جواب میں کہا سیکیورٹی ایجنسی نے آپ کو بلایا ہےآپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ میرے بھائی نے دوبارہ سوال کیا کہ کس لئے لے کر جارہے ہیں تو جواب دیا گیا کہ وہاں پہنچ کر آپ کو تفصیل سے بتائیں گے۔

گاڑی میں ایک اہلکار نے جب بھائی سے انکا نام پوچھا تو انہوں نے جواب دیا سید محمد حسین۔ اہلکار ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور سوال کیا: "تمہارا نام سید تقی نہیں ہے؟" بھائی نے جواب دیا نہیں میں سید محمد حسین ہوں سید تقی کا بھائی۔ اہلکاروں کا یقین نہیں آیا انہوں نے بھائی سے شناختی کارڈ طلب کیا اور اسے واپس گھر لے آئے۔ انہوں نے شناختی کارڈ دیکھ کر بھائی کو دوبارہ گاڑی میں بٹھایا اور پچاس میتر کے فاصلے پر جا کر بھائی سے کہا: "اگر اجازت ہو تو ہم آُ کے گھر سے ایک فون کال اپنے ادارے کرلیں؟ پھر گھر میں داخل ہو کر اپنے ادارے فون کیا۔ انہوں نے کہا: " ہم نے جس شخص کو گرفتار کیا ہے وہ محمد حسین درچہ ای ہے یعنی سید تقی درچہ ای کا بھائی ہے"۔ جو شخص ٹیلیفون کی دوسری جانب تھا اسے سید تقی درچہ ای چاہئیت تھا اس لئے بھائی کو چھوڑ دیا گیا۔ اہلکاروں نے بھائی سے میرے گھر کا پتہ مانگا تو انہوں نے بہانہ بنا دیا کہ اس کا گھر گلیوں کے اندر ہے ایسے نہیں ملے گا۔ جب وہ چلے گئے تو بھائی نے فونکرنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے بچے کو جو میرے گھر بھیجا۔ میں تازہ ہی مدرسے سے گھر پہنچا تھا اور اپنے کپڑے بدل رہا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی اور میں بھاگتا ہوا گھر پہنچا۔ بھتیجے کو دیکھا اس نے مجھے پوری کہانی سنائی تو میں نے گھر میں مزید رکنا مناسب نہیں سمجھا۔

میں گلیوں کوچوں سے ہوتا ہوا سیدھا سید محمد باقر موسوی کے گھر پہنچا جو ہمارے شہر کے اور رے شہر میں مسجد جواد الائمہ کے پیش نماز تھے۔ میں انکے گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے ارد گرد پر بہت دھیان رکھے ہوئے تھا تاکہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی موسوی صاحب سے کہا کہ ساواک کے اہلکار میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دل گرمی سے میرا استقبال کیا اور میں چند دن ان کے گھر پر ہی مقیم رہا۔ انہوں نے ایک کمرہ مجھے دے رکھا تھا جہاں میں رات دن مطالعہ کیا کرتا تھا اور بعض اوقات ٹیلیفون کے ذریعے یا انکے بچوں کے ذریعے یا بعض اوقات وہ خود ہی میرے لئے خبریں اور اخبارات جمع کر کے لے آتے تھے۔

کچھ دنوں بعد میں نے وہاں مزید رکنا مناسب نہیں سمجھا، چونکہ میرے سارے کام ہی ادھورے رہ گئے تھے، دوستوں کے مشورے سے طے پایا کہ ایک دوست کے ساتھ تہران سے نکل جاؤں۔ رات کو اپنی گاڑی میں قم کی جانب سفر شروع کیا، قم میں کچھ عرصہ آزادانہ طور پر روحانی لباس میں رفت و آمد کرتا رہا۔ پہلے پہل تو کافی وحشت اور اضطراب رہتا تھا کہ کہیں میرا پیچھا نہ کررہے ہوں اور میرے خفیہ ٹھکانے سے باخبر نہ ہوجائیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد جب کچھ معاملات ٹھنڈے ہوئے تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا۔

 

منبع: در وادی عشق (خاطرات حجت‌الاسلام و المسلمین سیدتقی موسوی ‌درچه‌ای)، تدوین عبدالرحیم اباذری، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، چاپ و نشر عروج، 1389، ص 365 – 368.

 



 
صارفین کی تعداد: 1369


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔