محرم میں فیضیہ کی روایت

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-3-13


میں ۱۹٦۴کے محرم میں آشتیان گیا اور فیض آباد نامی ایک گاؤں میں ظاہری طور پر تبلیغ کے کام میں اور اندورنی طورپر ظالم سے جنگ کرنے میں مشغول ہوگیا۔

جب میں گاؤں پہنچا۔  <<سپاہ دانش>>کے دو فرد جو تبریز کے رہنے والے تھے اور اسی گاؤں میں رہتے تھے۔  میں نے انہیں اچھا اور دین دار پایا میں نے انہیں جذب کرنے کی کوشش کی۔  خوش قسمتی سے یہ توفیق مجھے حاصل ہوگئی اور دوستانہ ارتباط کے بعد انہیں میں تحریک کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر لیا اور امام خُمینی کا گرویدہ بنا لیا۔  عاشور سے چند دن پہلے مجھے آشتیان سے فون کیا گیا کہ شہر کے حالات خراب ہورہے ہیں میں خود کو جلدازجلد آشتیان پہنچاؤں۔  میں سے عاشور کے بعد آشتیان کو ترک کیا؛  لیکن نکلنے سے پہلے ان دونوں جوانوں سے ملا اور طے پایا کہ وہ مجھ سے ملتے رہیں گے تاکہ میں امام خُمینی کے پیغامات ان تک پہنچا سکوں اور وہ اسکے مطابق عمل کرتے رہیں۔  اس باوجود کہ وہ <<سپاہ دانش>> میں تھے،  امام خُمینی کے مقلد بھی ہوگئے وہ خواہشمند تھے کہ امام خُمینی کی راہ پر چلیں گے۔

جس مدت میں،  میں فیض آباد آتا جاتا تھا،  وہاں کے رہنے والوں کی مدد سے عمومی حمام بنانے کا اقدام کیا،  جب بننے کا عمل تمام ہوا تو میں نے ان دونوں میں ایک سے کہ جسکا نام جلیل تھا،  بات کی کہ اور کہا کہ اس کے لئے پتھر کی  ایک تختی تراشو اور اس پر لکھو کہ یہ کام امام خُمینی کی مرجعیت کے زمانے میں ہوا ہے۔  وہ اس بات سے ڈر گئے اور کہا کہ اس کا امکان نہیں۔  میں نے کہا:  "پتھر کو مٹی سے چھپادیں گے اور جب حالات ٹھیک ہوجائیں  گے تو اسے آشکار کردیں گے۔

ہم نے یہ کام انجام دیا۔  ایک مدت کے بعد جب اسکی مٹی جھڑ گئی تو وہ آشکار ہوگیا ہمارے بعض دوست جب اس گاؤں میں آتے ان دنوں جوانوں سے مزاح کرتے اور کہتے:  "پتھر پے یہ کیا لکھ دیا؟!  حکام بالا کو اسکی خبر کیوں نہیں دی؟"

سپاہ دانش گاؤں میں تدریس کے علاوہ انٹلیجنس کے لئے جاسوسی کا کام بھی کرتے تھے اور گاؤں کی خبریں حکام بالا کودیا کرتے تھے وہ کہا کرت وہ کہا کرتے تھے:  " جناب یہاں ایسی کوئی بات نہیں"  دوسری بات یہ کہ جناب میرزا ابوالقاسم دانش کہ جو آشتیان میں رہ کرتے تھے اور سپاہ دانش کے افسر تھے وہ زیادہ لڑائی جگھڑے والے انسان نا تھے،  مجھ سے انھوں نے کہا تھا:  "تم آپنا تبلیغی کام کرومگر سیاسی مسائل کو ناچھڑو"  میں انہیں کہا:  "میں امام خُمینی کا  مقلد ہوں میں انکی تحریک کی طرفداری کرونگا"  جناب دانش جو کہ بوڑھاپے سے بھی گذر چکے تھے،  وہ میری بات سے کچھ خاص موافق نہیں ہوئے۔

خوشبختانہ جوانان سپاہ دانش،  امام خُمینی کی تحریک میں اتنے جذب ہوچکے تھے کہ اب خود سے تحریک کا کام کیا کرتے تھے اور رژیم پر تنقید کیا کرتے تھے۔  شاہ کے خلاف کام کرتے تھے۔  آپ جانتے ہیں کہ جوان کو اگر محبت ہوجائے تو  وہ انسان کا اطاعت گذار ہوجاتاہے،  مجھے ان دونوں پر اتنا  اعتماد ہو چکا تھا کہ میں نے اپنے  سارے افکار ان کے سپرد کردئیے۔  فیض آباد گاؤں کے بچوں کے مدرسے اور خصوصی محافل میں<<فیضیہ>>کی روایت بیان کرتا اور اپنی تقریروں اب ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے چھپایا جاسکے۔  ساواکیوں کے دام میں اب کبھی کبھی آجاتا۔

 

منبع: امامی، جواد، خاطرات آیت‌الله مسعودی خمینی، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1381، ص 260 - 261.

 



 
صارفین کی تعداد: 1508


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔