نیرہ سادات احتشام رضوی کی ڈائری سے

تدوین:  فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2022-2-7


ہژیر کے قتل کے بعدجناب نواب صاحب پر دوبارہ کڑی نظر رکھی جانے لگی۔ میں ان دنوں قم میں تھی۔ جیسے ہی شہری پولیس کو اطلاع ملی کہ میں جناب واحدی صاحب کے گھر میں ہوں انہوں نے اس گھر کا محاصرہ کر لیا۔اس زمانے میں واحدی صاحب بھی قم میں ہی تھے۔  واحدی صاحب کے گھر کا محاصرہ کر لینے کے بعد دو افراد نے گھر کا دروازہ بجایا اور صحن میں گھس آئے اور واحدی صاحب جو بیٹھک میں موجود تھے ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ واحدی صاحب نے  آکر مجھ سے کہا: ’’بی بی یہ پولیس والے ہیں آئے ہیں کہ مجھے گرفتار کر کے لے جائیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اپنی عبا قبا اور  عمامہ ان دو افراد کے پاس رکھ دیا۔ واحدی صاحب ان کے ساتھ بالکل معمول کے مطابق برتاؤ کر رہے تھے۔ انہوں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ میں چائے وغیرہ لے کر آتا ہوں اور اس بہانہ  بیٹھک سے باہر نکل گئے۔ گھر کے اگلے اور پچھلے حصہ میں صحن تھے اور ان کا گھر کئی کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں دوانی صاحب اقامت پذیر تھے جنہوں نے ابھی چند دن پہلے ہی شادی کی تھی۔ واحدی صاحب گھر کے اندرونی صحن میں آئے اور اپنی والدہ سے کہا کہ میں دوانی صاحب والی طرف سے بھیس بدل کر یعنی عبا  قبا اور عمامہ بدل کر  فرار کر رہا ہوں ۔ ہر چند کہ گھر پوری طرح محاصرہ میں تھا مگر واحدی صاحب فرار کر نے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ دو پولیس والے جو مہمانوں کے بھیس میں آئے تھے  کچھ دیر انہوں نے پوچھا کہ واحدی صاحب کہاں گئے؟ تو دوانی صاحب نے کہا : وہ آپ لوگوں کے لئے کباب لینے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں کباب نہیں چاہئیں۔

اسی وقت ایک پولیس آفیسر اپنے کارندوں کے ہمراہ پہنچ گیا اور جب اس نے بھانپا کہ یہ لوگ واحدی صاحب کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے  تو اس نے ان دونوں کو گالیاں بکنی شروع کر دیں اور کہا: ’’ تم نے واحدی سے کیا رشوت لی ہے کہ اسے یوں فرار ہونے دیا؟‘‘ پولیس افسر نے دو کارندوں کو وہیں گھر میں چھوڑ دیا اور چلے گئے۔ کچھ مدت بعد واحدی صاحب نے  پولیس کو طنزیہ خط لکھا  اور اس میں اس  افسر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ نہ تو نگہبان ہے نہ ہی پولیس کا ہیڈ ۔ اس ماجرے کے بعد واحدی صاحب  کا گھر مسلسل کڑی نگرامیں رہنے لگا۔ کبھی بغیر اطلاع کے پولیس گھر میں در آتی تھی اور پوچھ گچھ شروع کر دیتی تھی۔ اب اس گھر میں میں، واحدی صاحب کی  والدہ اور ایک خاتون جن کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی ، رہتے تھے۔ کیا کہوں ایسا لگتا تھا کہ میں اس گھر میں قیدی ہوں ایجنسی والے آتے تھے اور مجھ سے طرح  طرح کے سوالات کرتے تھے۔ وہ مجھے اتنا تنگ کرتے تھے کہ ایک میں نے پولیس کے ہیڈ سے کہا:

’’گنہ کرد در بلخ آھنگری

بہ شوستر زدند گردن مسگری‘‘[1]

’’تم لوگ اگر نواب کو گرفتار کرنا چاہتے ہو تو مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو؟ اگر ہمت ہے تو جاؤ اس  جنگجو بہادر کو ڈھونڈو اور پکڑ لو۔  تم لوگ ہر وقت میرے لئے زحمتوں کا باعث بنتے ہو۔‘‘ پولیس ہیڈ نے کہا کہ بس ٹھیک ہے اب میں تمہیں گرفتار کرکے تھانے لے جاؤں گا اور حوالات میں ڈال کر یہ ثابت کروں گا کہ میں نواب کو گرفتار کر سکتا ہوں یا نہیں۔

اس کا یہ ultimatum  (دھمکی) میرے لئے پریشانی کا سبب تھا۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس نے واقعی مجھے گرفتار کر لیا تو نواب جیسا غیرت مند اپنی عزت و ناموس کی خاطر خود کو ظاہر کر دے گا اور چھپ نہیں سکے گا۔ یعنی میں اس بات کا سبب بنوں گی کہ نواب صاحب گرفتار ہوجائیں۔ یہ فکریں مجھے کھائے جا رہی تھیں۔  وہ رات میں نے صبح تک نماز اور دعا میں گذاری۔ جناب زہراؐ سے توسل کیا اور حضرت عباس علیہ السلام کے حضور فریاد کی۔ خدا سے بس یہی دعا کرتی رہی کہ پولیس والوں کا منصوبہ تبدیل ہوجائے اور وہ مجھے گرفتار نہ کر سکیں۔

صبح دم  پولیس ہیڈ  جو ایک ظالم اور شقی انسان تھا واحدی صاحب کے گھر آیا۔ اس نے اس قدر شراب پی رکھی تھی کہ اس کی آنکھیں خون کے پیالے بنی ہوئی تھیں اور اس چہرہ سوجھا ہوا تھا۔ آتے ہی کہنے لگا: ’’واحدی نے مجھے خط لکھا ہے اور اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے اب اس گھر میں قدم رکھا تو وہ مجھے قتل کر دے گا۔ اس لئے اب میں دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔  میں سمجھتی ہوں  کہ میں نے جو رات بھر آئمہ سے توسل کیا تھا یہ سب اسی کا نتیجہ تھا۔ [2]

 


[1] ۔۔ بلخ میں کسی لوہار نے کوئی گناہ کیا تو اس کے بدلے میں شوستر میں ایک قلعی کرنے والے کی گردن مار دی گئی۔

[2] طاہری، حجت اللہ، خاطرات نیرہ السادات احتشام رضوی، شہید نواب صفوی کی زوجہ، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی صفحہ 68



 
صارفین کی تعداد: 1513


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔