جیل میں حصول علم

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2021-9-22


میں (فاطمہ حسینی) نے دسویں اور گیارہویں کلاس جیل میں ہی پڑھی۔ بہت زیادہ پریشانیوں میں پڑھ پائی ہوں۔ ایک دن سردیوں میں ہوا بہت ٹھنڈٰ تھی اور قصر جیل میں برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں، میرے ہاتھ باندھ کرمجھے ایک سپاہی کے ساتھ امتحان دینے کے لئے بھیجا گیا۔ جہاں بھیجا گیا وہاں مرد ھضرات کی تعداد زیادہ تھی اور خواتیں دوسری جگہ امتحان دے رہی تھیں۔ سپاہی کو اچانک خیال آیا کہ وہ میری ہتھکڑی کی چابیاں جیل میں ہی بھول آیا ہے اور اب میں کیسے لکھوں یہ سمجھ سے باہر تھا۔ سپاہی چابیاں لینے جیل واپس لوٹ گیا تاکہ میرے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں کھول سکے اور میں امتحان دے سکوں۔ اسی اثنا میں ایک اور قیدی جو چوری کے جرم میں گرفتار تھا اس نے اپنی گردن کے پاس سے سوئی نکالی جو شاید ہمیشہ ہی اس کے پاس رہتی تھی اور میری ہتھکڑیاں کھول دیں اور میں نے امتحان دینا شروع کردیا۔ جب وہ سپاہی چابی لے کر واپس لوٹا تب تک میں آدھا امتحان دے چکی تھی۔ واپس آتے ہوئے مجھے راستے میں بہت سارے گل داوودی نظر آئے جن پر برف جمی ہوئی تھی۔ میں نے نگہبان سے درخواست کی کہ مجھے کچھ پھول توڑنے دے لیکن اس نے کہا اس طرح دیر ہوجائے گی اور خود ہی جھک کر ایک گچھا پھولوں کا ایک ساتھ توڑ کر مجھے پکڑا دیا۔ میں پھولوں کا وہ گلدستہ اپنے ساتھ جیل میں لے آئی۔ شاید دوسرے قیدی یہ سوچ رہے ہوں کہ میں دیوانی ہوں لیکن جب اپنی ساتھی قیدیوں کو وہ پھول پیش کئے تو انہیں بہت زیادہ خوشحال دیکھ کر خوشی ہوئی۔

منبع: آن روزهای نامهربان (یاد از رنج‌هایی که برده‌ایم...)، فاطمه جلالوند، تهران، موزه عبرت ایران، 1385، ص 98 و 99.

میں (فاطمہ حسینی) نے دسویں اور گیارہویں کلاس جیل میں ہی پڑھی۔ بہت زیادہ پریشانیوں میں پڑھ پائی ہوں۔ ایک دن سردیوں میں ہوا بہت ٹھنڈٰ تھی اور قصر جیل میں برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں، میرے ہاتھ باندھ کرمجھے ایک سپاہی کے ساتھ امتحان دینے کے لئے بھیجا گیا۔ جہاں بھیجا گیا وہاں مرد ھضرات کی تعداد زیادہ تھی اور خواتیں دوسری جگہ امتحان دے رہی تھیں۔ سپاہی کو اچانک خیال آیا کہ وہ میری ہتھکڑی کی چابیاں جیل میں ہی بھول آیا ہے اور اب میں کیسے لکھوں یہ سمجھ سے باہر تھا۔ سپاہی چابیاں لینے جیل واپس لوٹ گیا تاکہ میرے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں کھول سکے اور میں امتحان دے سکوں۔ اسی اثنا میں ایک اور قیدی جو چوری کے جرم میں گرفتار تھا اس نے اپنی گردن کے پاس سے سوئی نکالی جو شاید ہمیشہ ہی اس کے پاس رہتی تھی اور میری ہتھکڑیاں کھول دیں اور میں نے امتحان دینا شروع کردیا۔ جب وہ سپاہی چابی لے کر واپس لوٹا تب تک میں آدھا امتحان دے چکی تھی۔ واپس آتے ہوئے مجھے راستے میں بہت سارے گل داوودی نظر آئے جن پر برف جمی ہوئی تھی۔ میں نے نگہبان سے درخواست کی کہ مجھے کچھ پھول توڑنے دے لیکن اس نے کہا اس طرح دیر ہوجائے گی اور خود ہی جھک کر ایک گچھا پھولوں کا ایک ساتھ توڑ کر مجھے پکڑا دیا۔ میں پھولوں کا وہ گلدستہ اپنے ساتھ جیل میں لے آئی۔ شاید دوسرے قیدی یہ سوچ رہے ہوں کہ میں دیوانی ہوں لیکن جب اپنی ساتھی قیدیوں کو وہ پھول پیش کئے تو انہیں بہت زیادہ خوشحال دیکھ کر خوشی ہوئی۔

منبع: آن روزهای نامهربان (یاد از رنج‌هایی که برده‌ایم...)، فاطمه جلالوند، تهران، موزه عبرت ایران، 1385، ص 98 و 99.

 



 
صارفین کی تعداد: 2096


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔