ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، سولہواں حصہ
مریم یہ چوہے ہیں
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2021-3-1
ہمارے اس نئے گھر کا صحن کچا تھا۔ حمام اور بیت الخلا صحن میں ہی تھےایک چھوٹی سی بالکونی تھی جس میں نلکا لگا ہوا تھاوہ بھی ٹپکتا تھا۔ چولھا اور فریج رکھنے سے ہمارا باورچی خانہ بن گیا۔ آگے پیچھے دو کمرے تھے، پیچھے والے کمرے کو ہم نے کچھ لکڑی کے تخت رکھ کر اس پر گداڈال کر بیڈ روم بنا لیا تھا۔ تکیوں پر سفید غلاف چڑھا دیئے تھے جن پر بڑے بڑے لال پھول کڑھے ہوئے تھے یہ ہمارا چار افراد کا بیڈ روم تھا۔ کپڑے رکھنے کی الماری نہ تھی اس لئے کپڑے ٹوٹے پھوٹے اٹیچی کیسوں میں بھر کر بیڈ کے نیچے رکھ دیئے تھے جب بھی ضرورت ہوتی اٹیچیوں کو کھینچ کر باہر نکالنا پڑتا تھا۔ اگلے کمرے کو ہم نے بیٹھک کی شکل دے دی تھی اس بیٹھک کے لئے ہمارے پاس صرف ایک کارپٹ تھاجس سے بمشکل اس کمرے کا فرش ڈھانپ دیا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں چند لکڑیاں ٹھونک کر ہم نے اس کو کتابوں کی الماری اور شوکیس بنا لیا تھا۔ برتن اور کپڑے صحن کے ایک کونے میں لگے نلکے سے دھونے ہوتے تھے۔ گرمیوں میں ہندوستان کا آسمان آگ برساتا تھااور ہمارے پاس اس گرمی سے نبرد آزما ہونے کے لئے صرف ایک برقی پنکھا تھامیں اور علی تو کسی طرح برداشت کر لیتے تھے مگر بچے گرمی سے بے حال ہوجاتے تھے۔ وہ پسینے میں شرابور جھلسے ہوئے چہرے لئے گرمی میں پنکھے کے اردگرد گھومتے رہتے تھے تاکہ ٹھنڈک حاصل کر سکیں۔ میرا دل ان کے لئے بہت کڑھتا تھا۔ بچوں کو لو لگنے کا خطرہ الگ تھا خصوصاً فہیمہ کو کیونکہ وہ بہت حساس تھی اس کا جسم پسینے سے سرخ ہوجاتا تھا اور کھجلی شروع ہوجاتی تھی۔ مہدی کی بیماری کے دن گذارنے کے بعد اب ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ دن واپس پلٹ نہ آئیں۔ اس گھر کی سب سے دلچسپ چیز یہاں کی چھپکلیاں اور چوہے تھے۔ گراونڈ فلور پر ہونے کی وجہ سے یہاں خدا کی اس مخلوق کی بہتات تھی پچھلے گھر میں بھی میرا چھپکلیوں سے واسطہ رہا تھا مگر یہاں تو خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔
ہم نے جب تازہ تازہ سامان اس گھر میں ڈالا تھا تو کچر کچر کی آوازیں آتی تھیں ایک دن علی کے ساتھ کام کرنے والی کچھ خواتین ہمارے گھر آئیں تو میں نے ان سے کہا کہ پتا نہیں کیسے جھینگر ہیں ہر وقت کچر کچر کرتے رہتے ہیں ان میں سے ایک نے مجھے تعجب سے دیکھا
-مریم یہ چوہے ہیں۔
ابھی اس کے منہ سے چوہے کا لفظ پوری طرح ادا بھی نہ ہوا تھا کہ ایک موٹا تازہ چوہا سونے کے کمرے سے ٹہلتا ہوا بیٹھک میں در آیا اور ادھر ادھر سیر کرنا شروع کردی۔ ہماری چیخیں نکل گئیں اوار جس کو جس طرف جگہ ملی بھاگ کھڑی ہوئی۔ چوہا بے چارا ہماری ادھم چوکڑی سے سہم گیا اور دوبارہ گدے کے نیچے جاکر چھپ گیا۔
میں نے مہدی کو دوڑایا کہ بابا کو بلا کر لائے ایک گھنٹہ بعد علی چوہے دان کے ساتھ گھر آیا ۔ ابھی رات نہ ہوئی تھی کہ کھٹاک کی آواز کے ساتھ چوہے کی آواز بھی بلند ہوئی علی کو پھر بلا بھیجا وہ آیا اور چوہے دان اٹھا کر لے گیاوہ چوہوں کو مارتا نہیں تھا بلکہ باہر چھوڑ آتا تھا۔ چوہوں کا راستہ روکنے کے لئے ہم نے گھر کے دروازے پر جالی لگا دی تھی جس کی وجہ سے وہ اب گھر میں داخل نہ ہوپاتے تھے اور بس صحن میں ہی کھیل کود کرتے تھے۔ چھپکلیاں چوہوں سے بھی زیادہ بد تر تھیں بڑی بڑی اور عجیب و غریب شکلوں اور رنگوں والی۔ بچوں کو اب چھپکلیوں کی عادت ہوگئی تھی وہ ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ محظوظ ہوتے تھے وہ ان کے بڑے بڑے جسم دیکھ کر ان کے پیچھے دوڑتے اور ان کے ساتھ کھیلتے مگر مجھے فکر ہوتی تھی کہ کہیں کھانے پینے میں نہ گر پڑیں ، برتنوں میں نہ چلی جائیں۔ اکثر میں بڑی محنت سے حمام میں برتن دھو کر رکھتی تو کیا دیکھتی ہوں چند منٹ بعد ایک موٹی سے چھپکلی بڑے اطمینان کے ساتھ ان پر ٹہل رہی ہے ناچار برتن دوبارہ دھونے پڑتے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ گھر کے اند داخل ہوتے ہی سر پر کچھ وزن سا محسوس ہوتا اور جونہی چھپکلی کے ہاتھ پاوں رینگتے ہوئے محسوس ہوتے خون خشک ہوجاتا۔ چھپکلیاں اکثر ہمارے سروں پر گر پڑتی تھیں بعض اوقات وہ اتنی بری ہوتی تھیں کہ باہر کام کرنے والوں کو بلانا پرتا کہ ان کو آکر نکالیں ۔ مزدور بے چارے بھی علی کے حکم پر ان کو مارنے سے گریز کرتے اور کسی طرح زندہ پکڑ کر باہر چھوڑ آتے۔ اس گھر کے ان جانوروں کے ساتھ تو روز ہی ایک داستان تھی۔
صارفین کی تعداد: 3228