ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، بارہواں حصہ
ہندوستان دہلی میں گذارے ہوئے آٹھ سال
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2020-6-13
فہیمہ میری گود میں تھی اور مہدی کھڑکی سے باہر تک رہا تھا۔ دہلی کے ہوائی اڈے سے خانہ فرہنگ تک میں نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ گرم لو میرے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ فہیمہ کے بال پسینہ میں بھیگے اس کے سر سے چپکے پڑے تھے۔ اس شہر کی ہر چیز مہدی کے لئے ایک سوال تھی۔ اس ٹرافک سے جو ایک گائے کے سڑک عبور کرنے کے انتظار میں رکی ہوئی تھی سے لے کرلوگوں کی وضع قطع اور لباس تک ہر چیز۔ میں سر گاڑی کی سیٹ سے لگائے تھی سفید گلابی پھول جگہ جگہ تھےجو مجھے علی کی امی کے شمع دانوں کی یاد دلا رہے تھے۔ مہدی سوال پر سوال داغے جااتا تھااور علی بہت اطمینان سے اس کو جواب دے رہا تھامیں اس شہر اور اس کے لوگوں کی فکر میں غرق تھی جن کے ساتھ اب مجھے زندگی گذارنی تھی۔
ادارہ تبلیغات کا ایک خط ہمارے پاس تھا جس میں درج تھا کہ علی تعلیم کے سلسلے میں دہلی آیا ہے۔خانہ فرہنگ اوار وزارت اسلامی میں باہمی توافق کے سبب ہمیں خانہ فرہنگ دہلی میں ہی عارضی رہائش میسر آگئی۔ یہاں دو کمرے انجمن اسلامی کی دفتر کے تھے جو طالب علموں کے زیر استعمال تھے۔ ایک کمرہ خواتین کا اور ایک مردوں کا۔ علی اور دوسرے چند طالب علم مردوں کے کمرے میں بیٹھے تھے میں اور بچے خواتین کے کمرے میں۔ یعنی ابھی ہم نے دہلی میں قدم جمائے نہ تھے کہ علی ہم سے دور ہوگیا۔ خانہ فرہنگ کے ارد گرد باغچہ بنے ہوئے تھے میری نظر بچتے ہی مہدی باغچہ میں جا گھسا کچھ اور بچے پہلے ہی وہاں کھیل کود میں مصروف تھے۔ اتنی جلدی مہدی کو خوشگوار جگہ مل جانے پر میں خوش تھی۔
آفس کی عمارت اور علی کا دفتر خانہ فرہنگ کے داخلی دروازے کے قریب تھااوار ہماری رہائش گاہ صحن کے آخری حصہ میں ، نماز خانہ سے متصل تھی۔سارا دن میں علی پر دو تین بار ہی نظر پڑ پاتی وہ بھی کام میں مصروف یہاں وہاں آتے جاتے۔ مجھے تو اب اس کے بغیر رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی لیکن بچے اس کے بغیر ایک چھوٹے سے کمرے میں گھٹ کر رہ گئے تھے۔ میں ذرا غافل ہوتی تو مہدی دوڑ کر اپنے باپ کے پاس جا پہنچتا ۔ یہاں اس کی اس حرکت پر کسی کوئی اعتراض نہ تھا مگر دوسروں کے کاموں میں مخل ہونا نا چاہتی تھی۔ فہیمہ نے تازہ تازہ گھٹنیوں چلنا شروع کیا تھا اس لئے میری نظریں ہر وقت اس پر ہوتی تھیں۔
شروع میں جب علی خانہ فرہنگ کے ملازموں کی فہرست میں نہ تھا اور انجمن اسلامی کے لئے کام کرتا تھا تنخواہ نہ لیتا تھا۔ ہمارے خرچ کے لئے بس وہی رقم ہمارے پاس تھی جو گھر کا ساز و سامان بیچ کر ہم نے حاصل کی تھی اسے تنخواہ کی کوئی فکر بھی نہ تھی اس کا سارا ہم و غم انقلاب ِ اسلامی کی ترویج و تبلیغ تھااور اس وقت وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مصروف تھا۔ صبح صبح، سب پہلا شخص جو ہشاش بشاش دفتر پہنچ جاتا وہ علی تھا۔ اس کے کام کرنے کی دھن اور اس کی فکر کچھ ایسی تھی کہ بعض لوگ یہ گمان کر رہے تھے وہ کوئی مبلغ ہے جس کو ادارہ تبلیغات نے یہاں مامور کر دیا ہے۔
صارفین کی تعداد: 3255