ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح؛ پانچواں حصہ
ابھی اس کو چھوڑو جو کچھ گھر میں ہے وہ تم پر بہت سجتا ہے
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2019-11-20
ابھی اس کو چھوڑو جو کچھ گھر میں ہے وہ تم پر بہت سجتا ہے
اس کپڑے کی کوالٹی میری لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی مجھے تو بس اس بات کا اشتیاق تھا کہ میں ایک ایسی نئی چادر کی مالک ہوجاوں گی جو بالکل میرے ناپ کی ہے۔ اس کے لئے جس طرح بھی بن پڑا میں نے ماں جی کو راضی کیا۔
دو ہفتہ کا وقت لگا مگر میں ایک نئی چادر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ، میں اس کی حفاظت اپنی آنکھوں کی طرح کرتی تھی ۔ صبح صبح اس کو اوڑھ کر جاتی اور سارا دن یا تو میں انجمن جوانان میں مشغول ہوتی، یا کسی مارچ کا حصہ ہوتی یا پھر اسکول کے در و دیوار پر پوسٹر لگا رہی ہوتی۔ اگر بغیر کسی حیل و حجت کے گھر سے نکلنا ہوتا تو مجھے انتظار کرنا پڑتا تھا کہ گھر کے سب لوگ اپنے اپنے کاموں پر نکل جائیں میں کان لگائے بیٹھی ہوتی تھی کہ کب گھر کا آخری فرد بھی اپنے کام پر نکلے اور میں گھر سے باہر نکل سکوں۔ جیسے ہی گھر کا دروازہ بند ہونے کی آواز آتی میں جلدی سے اپنی چادر اور مقنعہ اٹھاتی کیونکہ اب گھر میں صرف میں اور ماں جی ہوتے اور ماں جی کو راضی کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ میرے والد ایک HTV ڈرائیور تھے اور اکثر اوقات بندر عباس کے راستوں میں ہوتے تھے۔
میں جب بھی نیا جوڑا زیب تن کرتی میری دوستیں بھانپ جاتیں کہ والد صاحب گھر آ گئے ہیں اور بندر عباس سے یہ لباس میرے لئے تحفہ میں لائے ہیں۔ میرے سارے بھائی ابھی کنوارے تھے اور ان میں ہر ایک میرے حق میں والد سے بڑھ کر پدری کرتا تھآ۔ اس سب کے باوجود میں اپنا کام انجام دیتی تھی اور کسی کی بات سے میرے کان پر جوں تک نہ رینگتی ۔
میرے روز و شب انقلاب تھے، تنظیمی اور ثقافتی کام۔ ہم نے اپنی مسجد میں انجمن اسلامی کی بنیاد رکھ دی تھی اور میں اس کے ثقافتی امور کی دیکھ بھال کرتی تھی۔امامت مجلہ جس کی ذمہ داری علی کے کاندھوں پر تھی ، اس کے لئے میں ہر ماہ، مختلف موضوعات پر ایک مقالہ لکھا کرتی تھی۔ درحقیقت یہی مجلہ میری اور علی کی جان پہچان کا سبب بنا۔ میں مدرسہ سے سیدھی مسجد کے کتاب خانہ چلی جاتی تھی۔
گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ سے گذر کر ، آفتاب کی تمازت سے سرخ شدہ گالوں کے ساتھ میں کتاب خانے میں گھومتی پھرتی اور ہر وہ کتاب جس کے بارے میں مجھے گمان ہوتا کہ میرے مقالے میں مدد گار ہوگی اٹھا لیتی۔ پسینہ سے میری کمر تک بھیگ جاتی ۔ میرا دل کرتا تھا کہ میں استراحت گاہ میں چلی جاوں اور پنکھے کے نیچے لیٹ کر سو جاوں، لیکن دیر ہوچکی ہوتی تھی ۔ کتابوں کو بیگ میں ٹھونس کر میں جلدی جلدی گھر کی طرف قدم بڑھانے لگتی۔ صحن کے دروازے کو بہت احتیاط سے کھولتی کہ کوئی آواز پیدا نہ ہو۔ دبے قدموں، کنارے کنارے گھر میں داخل ہوتی کہ مبادا کوئی چلانے نہ لگے کہ کونسا وقت ہے گھر پلٹنے کا مگر شومئِ قسمت کہ بھرے پرے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ہر روز میرے راستے میں آ کھڑا ہوتا اور میری کلائی مروڑ دیتا۔
مجھ پر جس قدر سخت گذر رہی تھی علی اپنے گھر میں اسی قدر آرام سے تھا۔ میں اور معصومہ[1] ایک ساتھ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ میں معصومہ کی باتوں سے ہی علی کی سرگرمیوں اور روزمرہ کی مصروفیات سے آگاہ ہوئی تھی۔مجھے کتنی حسرت تھی کہ میں بھی علی کی طرح انقلاب کا حصہ بنوں۔ بقولِ معصومہ علی کسی وقت گھر میں نہ ٹکتا اور گھر میں ہوتا بھی تو کوئی اس کی آواز تک نہ سنتا وہ بس سر نہوڑائے مطالعہ میں غرق رہتا تھا۔ امی کو جب بھی علی سے کوئِ کام ہوتا وہ اوڑھنی سر پر ڈال کر علی کی تلاش میں مسجد جا پہنچتیں یا انجمن کے دفتر میں اس کو ڈحونڈتیں۔مجھے مجلہ کے جلسات [2]یاد ہیں وہاں بھی علی ہمیشہ سر جھکائے بیٹھا رہتا کسی سے بات چیت نہ کرتا بس جلدی جلدی دوسروں کی تقاریر کو لکھتا رہتا تھا۔ معصومہ علی کی سرگرمیوں اور کارناموں پر اکثر کہتی تھی کہ مجھے تو شرم آتی ہے خود کو انقلابی کہتے ہوئے۔
علی نے اس ہال میں جس کا نام انقلاب سے قبل کاخِ جوانان تھا، تعلیمی کلاسوں کا اہتمام کیا ۔ بظاہر یہ کلاسیں خواتین کو ٹائپ رائٹر پر ٹائپنگ سکھانے کے لئے تھیں مگر علی فنی تعلیم سے زیادہ پردے اور اسکی ضرورت کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔ انقلاب اسلامی کے بعد بھی اس کے اسی طرح کے اصلاحی کام جاری رہے جن کی ایک مثال یہی مجلہ امامت ہے جس کی ذمہ داری اس پر تھی ۔ اس مجلہ کے لئے مطالب اکھٹے کرنے کے ساتھ ساتھ میری ذمہ داریوں میں مجلہ کے عہدہ داروں کی میٹینگز کے بیانات کو لکھنا بھی تھا۔ میری مصروفیت جیسے جیسے بڑھ رہی تھیں میرے گھر والوں کے اعتراضات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
[1] شہید رحیمی کی بہن
[2] میٹنگز
صارفین کی تعداد: 3307