ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، پہلا حصہ
قارئین سے گفتگو
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2019-7-12
بعض واقعات ذہن میں اس طرح نقش ہو جاتے ہیں کہ انہیں یاد رکھنا نہیں پڑتا بلکہ یاد رہ جاتے ہیں ایسے واقعات ذہن کے گوشوں منیں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور جب بھی ان سے کوئی ملتا جلتا واقعہ پیش آتا یہ واقعات عود کر آتے ہیں اور نگاہوں کے سامنے مجسم ہو جاتے ہیں ایسے ہی واقعات میں سے ایک زمہریری دن کا ہے۔
میں ایک ۱۲ سالہ شوخ و چنچل لڑکی تھی، ہر روز کی مانند اس بات کی منتظر تھی کہ کب اسکول وین مجھے گھر پہنچائے گی۔ گاڑی کے بوڑھے ڈرائیور نے ریڈیو کا بٹن گھمایا ، ایک کان کے پیچھے ہاتھ رکھ کر ریڈیو سے کچھ قریب ہو گیا جو اس بات کا اشارہ تھا خبروں کا خلاصہ ختم ہونے تک بچے آرام سے بیٹھیں ۔ بچوں کے دبے دبے قہقہوں کے درمیان رحیمی نامی ایک ایرانی کی شہادت نشر ہوئی جن کو پاکستان میں دہشت گردی کے ایک واقعہ میں راہی ملک بقا کر دیا گیا تھا۔
اس روز میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند سال بعد میں فہیمہ سادات نامی ایک لڑکی کی ہم جماعت بن جاوں گی جو اسی شہید کی بیٹی ہوگی۔ اسی طرح میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ سالوں بعد امام حسین علیہ السلام کی مجلس عزا میں ہماری پھر سے ملاقات ہوگی وہ بھی اس حال میں کہ فہیمہ سادات اپنے والد کی سرگذشت کو کتابی شکل دینے کی فکر میں ہوگی اور نا گہاں مجھے اپنے اس ارادے سے مطلع کرے گی۔ اس نے جب اپنے دل کی بات مجھے بتائی تو یکدم مجھے اس سرد دن کی یاد آ گئی اور میں خدا وندِمتعال کی حکمت پر بے اختیار مسکرا دی۔
تین ماہ بعد آبان ۱۳۹۲ [1]میں ، کئی بار کی ٹیلیفونی گفتگو کے بعد، پہلی بار شہید رحیمی کی بیوہ محترمہ مریم قاسمی زہد سے بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ وہی لب و لہجہ اور وہی تازگی اور جوش و ولولہ جو ٹیلی فون پر ہوا کرتا تھا ، روبرو بھی تھا۔وہ اتنے پختہ عزم و ارادہ کی مالک تھیں کہ بچوں کے دلوں سے خوف کا گذر تک نہ ہو۔ زندگی سے پر امید اور مہربانی سے سرشار ایسی روح جس نے تمام غم و اندوہ کومحو کر رکھا تھا، وہ غم و اندوہ جو شوہر کے شہادت سبب عارض تھااور جس نے جسم و جاں میں جڑیں پیوست کی ہوئی تھیں ۔ بقول ان کے یہ غم کے بادل صرف تنہائی کے لمحات میں ان کے خیالات کے افق پر چھا جایا کرتے تھے۔
میں ایک ایسی خاتون کے سامنے بیٹھی تھی جس کی جوانی کا بیشتر حصہ غریب الوطنی میں گذرا تھا اور سفر کا اختتام، ہمسفر زندگی کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ ہوا تھا۔ اور وہ پچھلے ۱۸ سال سے تن تنہا ماں اور باپ بن کر بچوں کی کفالت کے فرض سے عہدہ برآں ہو رہی تھیں ۔ ایک ایسی خاتون کہ جس کی تمام تر زندگی اب اس کے بچے تھے۔
تقریبا ایک گھنٹہ انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کی کہ و کیوں اپنے شوہر کی زندگی کے واقعات کو سپردِ تحریر کرنا چاہتی ہیں ۔ اسی ضمن مِیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کتنے ہی در ایسے ہیں جو ان کی اور ان کے بچوں کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی اس کتاب کی تالیف کے لئے کھل نہ سکے۔ ان کے مطابق اس کتاب کی تالیف سے انکا مقصد صرف اپنے شوہر کی مظلومانہ مجاہدانہ زندگی کی تصویر کشی کرنا اور شہید رحیمی کے چہرے سے گمنامی کی گرد کو صاف کرنا ہے، ہر چند شہید رحیمی کو اس کی ضرورت نہیں اور اس سے بے نیاز ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ لکھا جائے مگر ان کی یہ بے نیازی ہماری ذمہ داری کو ختم نہیں کرتی۔
جو نظم و نسق اور سلیقہ مندی مِں نے ان کی زندگی میں دیکھی بعینہ ان کی بول چال میں بھی اس کا مشاہدہ کیا۔ ہر ملاقات میں جس موضوع کے بیان کا ارادہ ہوتا اسے پہلے سے لکھ لیتی تھیں ۔ واقعات ایسے نپے تلے انداز میں بیان کرتی تھیں مجھے ان سے سوال کرنے کی یا اختصار کی درخواست یا پھر بعد میں کانٹ چھانٹ کی بہت کم ہی ضرورت پڑتی تھی ۔ انداز بیان اس قدر دل نشین ہوتا تھا کہ وہ کہتی جاتی تھیں اور میں واقعہ کے اختتام کے انتظار میں تمام قصہ سنتی چلی جاتی اور یہ ہمت بھی نہ ہوتی کہ ان کو درمیان میں روک کر ان سے اپنے سوالات کر سکوں۔ بعض اوقات تو اس قدر محو ہوجاتی اور قصوں میں ایسا کھو جاتی کہ مجھے احساس بھی نہ ہوتا کہ کب چائے میرے ہاتھوں میں ہی ٹھنڈی ہو گئی یعنی مریم اوار علی مجھے اپنے قصوں کی وادی میں کھینچ کر لے جاتے اور میں ان کے ہمراہ سفر کرنے لگتی۔
محترمہ مریم قاسمی زہد نے مجھے وہ خطوط بھی سنائے جو پاکستانیوں نے ان کے شوہر کی شہادت کے چند ماہ بعد تک انہیں تحریر کئے تھے۔ ان خطوط میں بین السطور یہ محسوس ہوا کہ شہید رحیمی جن کو پاکستانیوں داعی وحدت کا لقب دیا تھا ، کی شہادت کا داغ پاکستانیوں کے دلوں میں تازہ ہے اور کوئی حرف ہمدردی اور تسلی و تشفی اس زخم کا درمان نہیں کر سکتا۔ شہید رحیمی کے کارناموں کے بارے میں ان خطوط میں کچھ اس طرح کی باتیں درج تھیں جن کو پڑھ کر احساس ہوا کہ کوئی بھی دوسرا شخص شہید رحیمی کی خالی جگہ کو پر نہیں کر سکتا اور خانہ فرہنگ کا چراغ ملتان میں اب کوئی روشن نہیں کر سکتا۔ وہ خانہ فرہنگ [ثقافتی مرکز] جہاں شہید نے اپنے زندگی کے سنہرے دن گذارے۔ بقولِ محترمہ قاسمی زہد، اس خانہ فرہنگ کے برقی قمقمے عموماً رات سے صبح تک ٹمٹماتے رہتے تھے اور اس کے دروازے شیعہ اور سنی ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ یہ خانہ فرہنگ اردو زبان کے ایک اخبار کے ایسے دفتر کی شکل اختیار کر چکا تھا جس نے ملتان کے وہابیوں کی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔
انقلاب ایران کے بعد دنیا بھر کے وہابی ، بالخصوص پاکستان جیسے ممالک کے وہابی اپنے وجود کے بارے میں بے حد حساس ہو گئے تھے اور وہ اس فکر میں تھے کہ مبادا انقلاب ایران پاکستان میں بھی برپا ہوجائے ۔ اس کے سڈِّ باب کے لئے انہوں نے فارسی زبان کو پاکستان کی درسی کتابوں سے نکال دیا تھا۔ شہید رحیمی کے تمام کام وہاں کے وہابیوں نے زیر نظر رکھے ہوئے تھے اور ان وہابیوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ خطہ کے شیعوں اور ان کے زعماء کے مقابلے پر تھے یہانتک کہ انہوں نے شیعہ مذہب کے مقابلے پر سپاہِ صحابہ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ۔ بقول پاکستانی عوام یہ ایسی جماعت تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر محرم میں بے گناہ شیعوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے یہ ایسی جماعت تھی جس کا منشور یہ تھا کہ ایران و پاکستان کے تمام تر روابط ختم ہوجانے چاہئیں اس جماعت نے اپنی بقاء کا راستہ شہید رحیمی کے بہتے لہو میں تلاش کیا۔
اس کتاب کی تدوین کے دوران بارہا یہ خیال میرے ذہن سے گذرا کہ سچ ہی کہا جاتا ہے " آپ کس کے ہاتھوں قتل ہوئے"۔ شہید رحیمی کو ان لوگوں نے قتل کیا جو خود کو مسلمان اور شیعوں کو کافر گردانتے ہیں ، اس لوگوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا جو شہید رحیمی کو ان کے اصلاحی کاموں سے روکنے کے لئے ان کے اہل٫ خانہ کے قتل کی دھمکی تک دے چکے تھے۔ آج جب ان کے قاتل سرتا پا مظلوم شیعوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تو شہید رحیمی کی حقانیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ اس شہید کا صرف پاکستان تک محدود رہ جانا اور اس کے ہدف کا لوگوں پر واضح نہ ہونا خود شہید ، اس کی مظلومیت اور دوسرے شیعوں کے حق میں ظلم ہوگا کیونکہ خود شہید نے فرمایا تھا کہ ان کی مظلومیت روز بہ روز روشن ہوگی۔
محترمہ قاسمی زہد سے پہلی ملاقات کے تقریباً ایک سال بعد ماہ آبان ۱۳۹۳[2] میں آخر کار ۵۰ منٹ پر مشتمل ایک اور انٹرویو کے بعد میں کتاب کی پروف ریڈنگ کے مرحلے میں پہنچی ۳ بار پروف ریڈنگ اور تصحیح کے مسودہ کو ایک بار پھر سے پڑھا اور ایک سال کی مسلسل تگ و دو کے بعد ۱۶۰[3] صفحات پر مشتمل نسخہ تیار ہوا ۔ داستان کے لوازمات میں سے میں صرف خاکہ نگاری اور محاکات پر توجہ دی تاکہ محترمہ قاسمی زہد کا اصل بیان کہیں گم نہ ہو جائے۔
یہ کتاب سات فصلوں پر مشتمل ہے تیسری فصل میں ہندوستان میں گذارے گئے سالوں کا تذکرہ ہے اس میں شہید کے کام کرنے کی جگہ اور ان کی رہائش میں فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے محترمہ قاسمی زہد اپنے شوہر کے کاموں کی تمام جزئیات سے آگاہ نہیں تھیں لہذا شہید کے دوسرے ساتھیوں سے ان واقعات کی صحت کے ضمن میں مدد لی گئی ۔
ہندوستان سے متعلق واقعات کو جمع کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا اور اس سلسلے میں تصاویر ، دستاویزات اور دوسری تحریروں سے مدد لی گئی اس کے باوجود کچھ جزئیات بہر حال تحریر میں نہ آ سکیں۔
جن دنوں میں اس مسودہ کو آخری شکل دے رہی تھی اور پاکستان سے مربوط صفحات کی ورق گردانی میں مصروف تھی اور محترمہ قاسمی زہد سے مسلسل رابطہ میں تھی تو بارہا مجھے رہبر معظم انقلاب کا یہ فرمان یاد آتا رہا " آج جس کو ہم داعش کے نام سے جانتے ہیں یہ تکفیری شجرہِ خبیثہ کی ایک شاخ ہے تمام شجرہِ خبیثہ نہیں۔[4]
میں یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ یہ منحوس درخت ان چند صفحات میں واضح طور پر نظر آجائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس نامشروع درخت کا بیج بونے والوں کو ان صفحات میں دیکھا جا سکے گا۔ یہ کتاب ایک ناچیز کوشش ہے وہابیت اور اسرائیل کے چہرے سے نقاب الٹنے کی جنہوں نے سید محمد علی رحیمی اور ان جیسے دیگر بے گناہوں کا خون بہا کر اپنے عجز کا ثبوت دیا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ شہید اور انکے ساتھی جن کا خون انقلابِ اسلامی کے استحکام کی راہ میں بہا ہے، وہ ہم سے راضی ہونگےاور جنت الماویٰ سے ہمیں دیکھ اور سن رہے ہونگے۔ انقلاب کے مفاہیم، اسلام کی تعلیمات بہار کے گلوں کی میک ہیں جنہیں پریشان ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، یہ بو تو بہر صورت پھیلے گی اور ہر جگہ پہنچے گی۔ یہ نسیم روح پرور اور جلا بخش تمام عالم کا احاطہ کرے گی اب کوئی شور و غوغہ کرے یا داد و فریاد۔[5]
آخر میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی جنہوں نے مقصد کے حصول میں میری مدد کی اور وہ بار جو میرے کاندھوں پر تھا اس کو اتارنے کا مجھے حوصلہ دیا بالخصوص شہید رحیمی کے اہل خانہ اور انکی زوجہ کی شکر گذار ہوں جن کی انتھک محنت اس کتاب میں شامل ہے۔ اسی طرح محترم ڈاکٹر عباس فاموری، محترمہ فروغ رمضانی اور اپنے گھر والوں کی بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے اس راہ میں مجھے تھکنے نہیں دیا بلکہ ہر قدم پر میری ہمت بندھائی۔
یہ ایک سال جو میں شہید رحیمی اور ان کے خاندان کے ساتھ گذارا اس میں بخوبی یہ جان لیا کہ شہید کے بارے میں لکھنے اور پڑھنے میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا مجھ میں اور خود شہید رحیمی میں۔
میری دعا ہے کہ جو کچھ بھی میں ضبط تحریر میں لا سکی ہوں اس کو خدا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور شہید رحیمی اور ان کا خاندان اس کاوش سے راضی ہو تاکہ میرے نامہ میں یہ عمل زرین حرفوں سے درج ہو۔
خیر اندیش و طالب دعا
زینب عرفانیان
زمستان ۱۳۹۳[6]
[1] ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۳
[2] اکتوبر نومبر ۲۰۱۴
[3] یہ تعداد مصنفہ کے اصل مسودہ اور ان کے قول کے مطابق ہے تراجم اوار مختلف نسخوں میں یہ تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے۔
[4] رہبر معظم، ابین الاقوامی کانفرنس ، تکفیری اور افراطی تنظمیں علمائے اسلام کی نظر میں ۴/۹۔۱۳۹۳
[5] رہبر معظم، بسیج کے اعلیٰ اراکین سے ملاقات، ۶/۹/۱۳۹۳
[6] ۲۱۰۴ کی سردیاں
سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
صارفین کی تعداد: 5749