انقلاب کے بعد کی سرگرمیاں (۱۹۷۹ کی سردیاں)
ملا صالح قاری کے واقعات سے انتخاب
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری
2023-9-10
انقلاب کے عطر آگیں خوشبو سے مشام معطر تھے اور مجھے دن رات کی خبر نہ تھی بس اپنی سرگرمیوں میں تن دہی سے مشغول تھا۔
شیخ عیسی کے ہاتھ میں کاغذ قلم تھا اور میں ان کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے میری جانب دیکھا اور کہا: جانتے اس وقت تمہارا سب سے اہم کام کیا ہے؟ میں نے : نہیں حضور ۔۔ آپ ہی بتائیے۔۔
شیخ نے مسکرا کر کہا: تمہارا اہم کام یہ ہے کہ ریڈیو کے ذریعہ اس علاقہ کے لوگوں کو خوش کرو۔تم دوسرے برادران کے ہمراہ اس کام کے لئے نکل کھڑے ہو۔ جاؤ اور ریڈیو کا نظام سنبھالو اور اپنا کام شروع کرو۔
یہ ایک بہترین اور موثر پیش کش تھی۔
اگلے ہی دن میں شیخ عیسی کے بیٹے شیخ علی، اپنے دوست شیخ ابراہیم دیراوی اور علی فلاحیان[1] کے ہمراہ کچھ طالب علموں اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کی عمارت جا پہنچا۔ ہم اپنے ساتھ عربی زبان پر عبور رکھنے والے طالب علم بھی لے گئے سو ہم نے بہت جلد وہاں کے شعبہ عربی میں اپنے قدم جما لئے۔
اس نئی ذمہ داری میں ہمارا کام عربی پروگرامز کی تنظیم تھا جو زیادہ تر انقلاب کی خبروں، مذہبی پروگرامز اور علاقائی تھیٹر کے نغموں پر مشتمل ہوتے تھے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا کہ یہ ریڈیو سے نشر ہونے والے ہمارے پروگرامز عربی ممالک میں ایرانی انقلاب کا تعارف پیش کرنے میں بہت مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ اس باوجود بھی ہمارے نظر میں یہ پروگرامز کافی نہ تھے۔ بلکہ ایسے ثقافتی مرکز کی اشد ضرورت تھی جو عربی شہروں اور دیہاتوں کے با صلاحیت جوانوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اس کام کے لئے ہم نے ریڈیو ٹیلی ویژن کی عمارت کے پہلو میں ہی بورارہ جنوبی میں مرکز الثقافی کے نام سے ایک مرکز قائم کیا۔ اس کا م کو آگے بڑھانے کےلئے ہم نے حوزہ علمیہ قم کے عربی مدرسوں کو تعاون کی دعوت بھی دی۔
اشتہارات پھیلنے کے بعد آبادان کے ریڈیو اسٹیشن میں شہری اور دیہاتی جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس مرکز کی جانب رجوع کیا تاکہ ان کورسسز میں حصہ لے سکیں۔ میں نے انٹر اور اس کم تعلیم یافتہ جوانوں کو ترغیب دلائے کہ حوزوی علوم حاصل کریں ۔ اس کام کے لئے ہم نے قم کے اساتید کو پہلے ہی دعوت دے رکھی تھی اور ان کی رہائش اور تنخواہ کے لئے بھی سوچ بچار کر چکے تھے۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ ہی میں نے اپنے دوست علی فلاحیان کے ساتھ مل کر ’’انقلاب اسلامی کمیٹی‘‘ کی بنیاد بھی رکھی ۔ یہاں ہم غریب و نادار گھرانوں کا سراغ لگاتے تھے اور ان کی امداد کیا کرتے تھے۔ ان کے لئے امدادی سامان تہران سے آیا کرتا تھا۔
مرکز کے باہر ٹرک کھڑا تھا جو تہران سے سامان لایا تھا اور اب یہاں اتار رہا تھا۔ پرجوش نوجوان ٹرک سے ڈبے اتار کر مرکز میں رکھ رہے تھے۔ میں اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش تھا اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا جس نے مجھے یہ موقع دیا تھا کہ میں انقلاب اسلامی کے اہداف پورا کرنے کے لئے کچھ کام کر سکوں۔
یوں تو ایک مدت سے امدادی سامان ’’کنگرلو برادران‘‘ جو ’’فجر اسلامی‘‘ گروپ کے فعال اراکین تھے، کی جانب سے تہران سے مسلسل آرہا تھا اور اس کو یہاں ثقافتی مراکز اور نادار خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ مگر امیر اور غریب کے طبقاتی فاصلے اتنے زیادہ تھے کہ یہ امدادی سامان ان فاصلوں کو پر نہیں کر پا رہا تھا سو اس کے لئے کسی بنیادی کام کی اشد ضرورت تھی بس یہی سوچ کر میں نے علی فلاحیان نے مل کر انقلاب اسلامی کمیٹی بنائی اور ایک ٹیم یتیموں اور ناداروں کا سراغ لگانے کے لئے متعین کی ۔ اس کام نے وہاں کے جوانوں میں خوشی اور جذبے کی نئی روح پھونک دی۔
جب شام کے سائے گہرے ہوتے اور اندھیرا فقیروں کی بستیوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا تو لوگ بے فکری سے اپنے گھروں کو جایا کرتے تھے کیوں کہ اب ساواک کے کارندوں کا خوف نہیں تھا۔ اس وقت مہربانی کا ہاتھ غریبوں کے دروازوں پر دستک دیتا تھا اور کھانے پینے کے کارٹنز بڑی محبت کے ساتھ امداد کے منتظر خاندانوں تک پہنچا دئیے جاتے تھے۔
امداد رسانی کے مرکز سے لوگ روز ہی رجوع کیا کرتے تھے اس کا امدادی مرکز کمرہ ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا۔ ہر کوئی اپنے کسی کام لئے یا اپنی کسی درخواست کے لئے آیا ہوتا تھا۔ میں اور علی اور میرے دوسرے ساتھی لوگوں کی ضروریات کو اہم و مہم میں تقسیم کرکے ان کی مدد کیا کرتے تھے اس امداد میں گھر کی تعمیر، مزدور اور شادی کے لئے امداد بھی شامل تھی۔
یہ کام اس وقت تک یونہی جاری رہا جب تک امام خمینیؒ کے حکم پر ’’بنیاد مسکن اسلامی‘‘[2] کا اجرا نہیں ہوگیا۔ اس اسکیم کے اجرا سے ہمارا کام دفتری اعتبار منظم ہو گیا۔[3]
[1] علی فلاحیان میرے دوستوں میں سے تھا۔ ہم انقلاب سے پہلے اور بعد ایک ساتھ ہی رہے۔ جنگ کے زمانہ میں بھی ہم دونوں ایک دوسرے سے رابطہ میں رہے۔ اس کے بعد سپاہ انقلاب اسلامی کی تشکیل ہوئی تو میری اور اس کی پوسٹنگ علیحدہ علیحدہ مقام پر ہوئی۔
[2] اسلامی گھر اسکیم
[3] غبیشی، مرضیہ، ملا صالح، سرگذشت ملا صالح (ملا صالح کی آپ بیتی) مترجم اسرای ایرانی، ص ۹، انتشارات شہید کاظمی قم۔ ۲۰۱۶
صارفین کی تعداد: 1280








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
ان امریکیوں کو سزا، جنہیں ناموس سمجھ میں نہیں آتی
انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھیوں نے غیرملکی مشیروں پر حملے کے لیے بہتر جگہوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے مجھ سے ان جگہوں کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس طرح ہم نے اگلی راتوں میں خوانسالار جیسی جگہوں کا جائزہ لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

