ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، انیسواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2022-6-19
دہلی میں دوہی مساجد تھیں جہاں شیعوں کو اپنی رسومات ادا کرنے اور اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کی اجازت تھی۔ ایک جامع مسجد دہلی اور ایک مسجد فتح پور، باقی مساجد وہابیوں کے قبضہ میں تھیں جہاں شیعوں کا داخلہ تک ممنوع تھاچہ جائیکہ وہاں کوئی تبلیغی کام کیا جاسکے۔ اس وقت کی وہابیت آج کی جانی پہچانی وہابیت سے بہت مختلف تھی لہٰذا لوگوں کی اکثریت کا خیال یہی تھا کہ سنیوں کی مساجد ہیں اور اہل سنت ، شیعوں کو اپنی مسجد میں آنے نہیں دیتے۔ سو اس طرح یہ وہابی شیعوں اور اہل سنت کے درمیان فرقہ واریت کا بیج بو رہے تھے۔ زبان فارسی کا عام ہونا اور اس زبان کے ذریعے انقلاب اور شیعی عقائد اور آئیڈیا لوجی کا عام ہونا وہابیوں کے لئے ایک ڈراونا خواب تھا جس نے وہابیوں کی نیندیں اڑا دی تھیں اور وہ اس کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے اور اپنے بچاو کے لئے شیعوں اور اہل سنت کے درمیان خلیج کو بڑھانے کے در پے تھے۔ ان کی کوششیں بارآور تھیں کیونکہ ہندوستانی سنی ، شیعوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہوچکے تھے وہ سمجھتے تھے کہ شیعہ، صرف نام کے مسلمان ہیں اور ان کا اصل دین صرف مجلس و ماتم ہے اس طرح یہ لوگ اسلام کے دیگر احکام کے پابند نہیں ہیں، اسی لئے جب یہ اعلان ہوتا کہ قاریان قرآن کی ٹیم ایران سے آ رہی ہے سنی حیرت کے سمندر میں غوطہ لگانے لگتے[1]۔ علی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود قرآن کی محافل کو انتہائی پر شکوہ انداز میں منعقد کرواتا۔ اسی طرح ۲۲ بہمن انقلاب اسلامی کی سالگرہ اور غدیر کے دن مٹھائی تقسیم کرواتا تاکہ لوگ شیعوں کے درست عقائد سے آگاہ ہو سکیں اور ایران اور انقلاب اسلامی کا اثر ان کے دلوں پر ہو۔ خانہ فرہنگ ایران کے خلاف بھی پروپگنڈے کئے جاتے تھے جن کو رد کرنے اور حقائق کو واضح کرنے کی علی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ ایران اور شیعوں کے خلاف جو بھی غلط فہمیاں عوامی سطح پر پائی جاتی ہیں ان کو دور کیا جائے اور سنیوں کو شیعوں سے قریب کیا جائے۔
اس کے افکار و خیالات کا محور شیعہ سنی اتحاد اور اس قوت کو باہم جوڑنا تھا۔ وہ سنی جو خانہ فرہنگ ، مراسم عزاء میں شرکت کے لئے آتے تھے وہ علی کی توجہ کا خاص مرکز ہوتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنے کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتا تھا اور اس کا عقیدہ تھا کا اس کا یہ کام سنیوں کے دلوں پر اثر کرے گا۔اس کا کہنا تھا کہ یہ رویہ چاہے ایک شیعہ فرد کا ایک ہی سنی کے ساتھ کیوں نہ ہو زبان زدِ عام ہو جاتا ہے اور یہ محبت شیعوں کے اصل چہرے کو نمایاں کرنےمیں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ سنیوں کو شیعوں کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کی اس خوش روئی کے نتیجے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سنی اپنی ضروریات کے لئے خانہ فرہنگ کا رخ کرنے لگے یہاں تک کہ سنی خانہ فرہنگ سے مفاتیح الجنان کے نسخے خرید کر لے جانے لگے۔ اسے اپنے ان کاموں کی انجام دہی میں کسی قسم کا خوف و لالچ نہ تھی۔
اسی سال سعودیہ عرب میں ایرانی زائرین کے قتل کا واقعہ رونما ہوا۔ ہندوستانی میڈیا نے اس خبر کو بہت سنسر کرکے نشر کیا ۔ علی ٹی وی کے آگے بیٹھا خبریں سن رہا تھا اور خون کے گھونٹ پی رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ یہ تصاویر اور خبریں اصل واقعہ کا ایک فی صد بھی نہیں ہیں۔اسی کسی صورت شکیب و قرار نہ تھا۔ اس سے جو بن پڑتا تھا وہ کرتا تھا راتوں کو ویڈیو پلیئر اور پردہ خانہ فرہنگ سے لے کر ان علاقوں کی جانب نکل جاتا جن کے بارے میں وہ پہلے ہی تحقیقات کر چکا تھا ۔ وہاں پہنچ کر پردہ لگا دیا جاتا پھر علی تقریر شروع کر دیتا جب اچھے خاصے لوگ اکھٹے ہو جاتے تو علی وہ فلمیں اور تصاویر پردہ پر چلا دیتا جن کو ہندوستانی میڈیا نے سنسر کر دیا تھا اور سعودیوں کی جانب سے ایرانیوں کے بہیمانہ قتل و غارت کی خبریں لوگوں تک پہنچاتا اور اس کے ساتھ شیعوں کی مظلومیت ، مشرکین سے برائت اور دیگر احکام لوگوں کو سناتا۔
دھندلکا ہوتا کہ وہ گھر پہنچتا اور ناشتہ کرکے سیدھا کام پر چلا جاتا ۔ اس کی بے خوابی کے سبب اندر کو دھنسی لال انکھیں دیکھ کر میں دل ہی دل میں روتی رہتی تھی:
-ایک دن یہ بے خوابی تمہیں لے ڈوبے گی۔
آخری لقمہ جلدی سے نگلتا اور غٹاغٹ چائے پی کر کھڑا ہوجاتا وہ اس بحث کو بڑھاوا نہ دیتا۔
مہدی آئینے کے سامنے کھڑا ہنس رہا تھا دانت گرنے کے سبب اس کا اپنا چہرہ اس کے لئے مضحکہ خیز بنا ہوا تھا۔ فہیمہ اس کے اردگرد گھوم گھوم کر ٹوٹے ہوئے دانتوں پر اس کو چڑا رہی تھی۔ ہندوستان کا اتنا طویل قیام اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود لگتا تھا کہ پلک جھپکنے میں گذر گیا۔ مہدی کی عمر اسکول جانے کی ہوچکی تھی ۔ اس کو دیکھا تو اس کی بیماری کے دن یاد آگئے وہی دن جو اس وقت کسی طور کاٹے نہ کٹتے تھے، یہ سوچ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ مہدی کے اسکول کا بستہ اس کی کتابیں کاپیاں کمرےمیں ایک کونے میں رکھے تھے۔ وہ روز کئی بار بستہ کندھے پر ڈال کر گھرمیں دوڑتا بھاگتا۔ دہلی میں کوئی ایرانی اسکول نہ تھا اور ہندوستانی اسکول میں داخلہ دلانے کا مطلب تھا کہ مہدی ہاتھوں سے نکل جائے گا اس فکر نے مجھے اور علی دونوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ اس مسئلہ کا فوری حل تو یہ تھا کہ میں مہدی کو خود گھر میں تعلیم دوں ۔ ایک طرف اس کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف تھا تو دوسری طرف وہ گھرمیں تعلیم حاصل کرنے کے سبب اپنے ہم عمروں کی صحبت سے محروم تھا۔ علی نے اس کے لئے اسکول کا تمام سامان خرید دیا تھا تاکہ اس کا پڑھائی کا شوق ماند نہ پڑ جائے۔ میں خود مہدی کو پڑھاتی تھی یا وہ طلاب جو خانہ فرہنگ میں آتے تھے وہ مہدی کے لئے استاد کے فرائض انجام دیتے تھے۔
مہدی کاپی پر جھکا وہ مشقیں کر رہا تھا جومیں نے اس کو دی تھیں ۔ میرا دل اس بچے کے لئے کڑھنے لگاکیوں کہ وہ بچوں کے کھیلنے کودنے کی آوازیں سن رہا تھا مگر اس کو مشقیں کرنا تھیں لہٰذا سر جھکائے مصروف کار تھا ۔ جیسے بھی ہو اس کو پہلی کلاس گھر میں ہی پڑھنی تھی اور سفارت خانہ کے سالانہ امتحان میں شرکت کرنی تھی۔
خانہ فرہنگ کے بالکل آخری کونے میں کچھ کمرے ہندوستانی مزدوروں کے لئے مخصوص تھے جو ہمارے ہمسائے اور ہمارے بچوں کے کھیل کود کے ساتھی تھے ، لیکن ہمارا اور ان کا ثقافتی اختلاف میری پریشانی کا سبب تھا۔ میرا دل اس بات کے لئے راضی نہ تھا کہ سارے کاموں کے درمیان اور غریب الوطنی کے باعث بچوں کی اچھی تربیت سے ہاتھ دھو بیٹھوں اور بچے کسی دوسری ثقافت کو اپنانے کے نتیجے میں اپنی ثقافت اور اخلاقی اقدار سے محروم ہوجائیں۔ ہندوستانی خاندان عموماً کثیر العیال ہوتے تھے اور سات آٹھ بچوں کے ساتھ دو کمروں میں گذارا کرتے تھے۔
فہیمہ ، مہدی اب بڑے ہو چلے تھے اور میں ان میں ہندوستانی رسم و رواج کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روز افزوں محسوس کر رہی تھی ۔ بچوں کی تربیت ، ان کی عمر کے حساب سے کرنا وہ بھی اجنبی دیار میں ، ناکوں چنے چبانے کے مترادف ہوتا ہے۔ مجھے یہ منظور نہ تھا کہ جس کے طرح کے روابط مہدی اور فہیمہ کے ساتھ کھیلنے والے دوسرے بچے اور بچیوں کے درمیان ہیں ، میرے بچوں میں سرائیت کر جائیں۔ علی بھی بچوں کی نت نئی حرکات سے بے خبر نہ تھا۔ میں ایران واپس جانا چاہتی تھی مگر فی الحال یہ ممکن نہ تھاکیونکہ علی خانہ فرہنگ کا ملازم تھا اس کی اپنی ذمہ داریاں تھیں جن کو ادھورا چھوڑ کر جانا کسی طوردرست تھا نہ ہی ممکن ، ناچار ایک گھر کرایہ پر لیا ۔ ہندوستان میں ایک فوجی علاقہ بنام ڈیفنس کالونی تھا جہاں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی رہا کرتے تھے ۔ یہ علاقہ اپنی ساخت ، نگھبانوں اور پولیس کے گشت کی وجہ سے دوسروں علاقوں کی نسبت پرامن اور محفوظ تھا اس لئے زیادہ تر ایرانی اور سفارت خانے کے ملازمین یہیں رہائش پذیر تھے اسی لئے ہم نے بھی اسی علاقے کو چنا۔
مال برداری[2] کے دن ہمارے پاس کوئی اچھا سامان لے جانے کو نہ تھا یہاں تک کہ ایک کارآمد فریج تک نہ تھا ۔ وہ احباب جو سامان ڈھونے آئے تھے وہ بھی حیران تھے کہ ہم کیسے یہاں رہ لئے وہ کہتے تھے کہ ہم تو ایک دن بھی اس کھنڈر میں نہ رہ سکیں میں نے مسکرا کر کہا:
-مگر ہم چار سال یہاں رہے ہیں۔
حیدر پور صاحب سفارت خانے کے ملازم تھے اور علی کے اچھے دوستوں میں تھے انہیں سفارت کے ملازمین کے لئے کچھ برقی سامان درآمد کرنے کی اجازت تھی انہوں نے ہم سے بھی دریافت کیا کہ کچھ چاہئے تو بتا دیں ہم آپ کے لئے منگوا دیتے ہیں میں نے بھی فریج کا تقاضہ کر دیا کہ یہی ہماری سب سے بڑی ضرورت تھی ۔ فریج آ گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ ایک چیز اور منگوا سکتی ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب اپنے پیسوں سے خرید کر دے رہے تھے یا اس کے پیچھے کوئی اور تھا بہر حال میں نے ایک قیمہ پیسنے کی مشین طلب کر لی۔ اس سے پہلے جب بھی گوشت خریدتے تھے دودستوں کے گھر جاکر پیسنے کی شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ اب میرے اپنے پاس مشین تھی جس کے سبب اس شرمندگی سے نجات مل گئی تھی اب جب بھی میں گوشت پیستی دل، حیدرپور صاحب کو ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیا کرتا۔
ہمارے نئے مالک مکان کے سر پر ہر وقت عمامے نما ایک ٹوپی[3] ہوتی تھی۔ یہ نیا گھر کافی وسیع تھا اور اس میں بھی پچھلے گھر کی طرح ایک سرسبز صحن تھا، ہم دوسری منزل پر تھے جہاں ایک بڑا سا ٹیرس تھا جس سے گھر کے سامنے پارک نظر آتا تھا شام کے وقت بچے باغ میں کھیلنے چلے جاتے اور میں ٹیرس سے ان کو دیکھتی رہتی۔ گھر بڑا تھا اور اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک عدد چھوٹا ائیر کنڈیشن تھا اس لئے یہاں بھی ہمیں سخت گرمی سے پنجہ آزمائی کرنی تھی۔ اس گھر کی جملہ خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ ہم علی کے دوستوں کے ہمسائے ہوگئے تھے۔ جمشیدی صاحب کا گھر ہمارے گھر سے پیدل کی مسافت پر تھا جب علی کام کے سلسلے میں باہر ہوتا میں بچوں کو لئے ان کے گھر چلی جاتی اور رات گئے تک ہم ان کے مہمان ہوتے۔ مہدی اور جمشیدی صاحب میں بہت گاڑھی چھنتی تھی جس کی وجہ سے وقت بہت اچھا گذر جاتا تھا۔ ایک سال کا عرصہ لگا کہ ہم اپنی بچتوں کے نتیجے میں ایک عدد ایمبیسیڈر[4] خریدنے کے قابل ہو گئے یہ ایک کار تھی جو ایرانی پیکان کی طرح تھی اور ہندوستان میں اکثر لوگوں کے پاس یہی گاڑی تھی لیکن اس قدر قدیمی اور بوسیدہ حالت میں کم تھیں جیسی ہمارے پاس تھی۔ بڑی مشکل سے چلتی تھی اور زیادہ تر خراب ہی رہتی تھی لیکن تین بچوں کے ساتھ ، نہ ہونے سے ہونا بہتر تھا، ہمارا گذارا ہو رہا تھا بالخصوص علی کے لئے، جو اب اپنے دفتر سے کافی فاصلے پر آگیا تھا ، بہت کار آمد تھی۔
علی کی خندہ پیشانی اور خوش روئی کی وجہ سے اب ہماری دوستی علی کے ساتھیوں کے علاوہ سفارتخانے والوں سے، مدرسے والوں اور ٹی وی ریڈیو والوں سے بھی ہوگئی تھی اور ان لوگوں کے گھر بھی آنا جانا ہوتا تھا ۔ یہ الگ بات کہ ان کے گھر سجے سنورے ، لگژری تھے اور ان کے برتن چینی کے ہوا کرتے تھے اورہمارا گھر انتہائی سادہ تھا ہماری بیٹھک میں صرف ایک قالین بچھا ہوا تھا اور برتنوں میں ہمارے پاس میلامائن کا ایک سیٹ تھا جو ہم ایران سے لے آئے تھے۔ کل آٹھ سال ہم ہندوستان میں رہے مگر اپنے لئے اسٹیل کے برتنوں کا ایک صرف ایک سیٹ بنا سکے۔ وہ بھی ایسے کہ ہندوستان میں بھی ایران کی طرح ، کچھ لوگوں کا مشغلہ نانِ خشکی خریدنے کا تھا یعنی ٹین ڈبے بھوسی ٹکڑے اور کاٹھ کباڑ کی خرید و فروخت۔ یہ لوگ پرانے لباس کے بدلے اسٹیل کے برتن دے دیا کرتے تھے سو میں بھی ہر بار بچوں کے کپڑوں کے پرانے اور چھوٹے ہونے کے بعدان کو اسٹیل کی کسی چیز سے بدل لیا کرتی تھی ، ہمارے پاس کبھی بھی چینی کے برتن نہ رہے، نا ہمارے ساز و سامان میں تھے نہ ہی ہم ایران سے لا سکے تھے، اور اب ایران سے ہندوستان آنے کے بعد تو ہم میں ان کو خریدنے کی طاقت ہی نہ تھی۔ لیکن ہماری یہ سادہ زیستی کبھی بھی ہمارے اور دوسروں کے روابط میں حائل نہ ہوئی۔ شاید غربت و فقیری کی یہ خاصیت ہے کہ میل ملاپ ہی آپ کے لئے سب سے بڑی تفریح بن جاتا ہے۔ ہمارے دوست کہتے تھے:
-ہم جمعرات ، جمعہ کے انتظار میں رہتے ہیں تاکہ رحیمی صاحب کے گھر سب مل بیٹھیں۔
ہم بھی ان لوگوں کی آمد کے منتظر رہتے تھے کیونکہ مہمان خدا کی رحمت ہوتا ہے اور دوسرے بچے اس سب سے بہت محظوظ ہوتے تھے۔
باورچی خانے کا ماحول دھویں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے پتیلی کا ڈھکن الٹا تو مرغی کے سالن کی مرچ مصالحوں والی خوشبو میری ناک میں چڑھ گئی ۔ پسینے کے قطرے میری کانوں کے پیچھے سے ہوتے ہوئےگردن کی طرف سرک رہے تھے اور میری پیٹھ پسینے سے بھیگی ہوئی تھی۔ ائیر کنڈیشن کے فوائد یعنی ٹھنڈی ہوا وغیرہ میں سے صرف اس کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ دھویں اور گرمی نے باورچی خانے کی دیواریں تک بھگو دیں تھیں اسی اثنا میں ایک مہمان خاتون باورچی خانے میں آ گئی۔
-مریم تم کب نہانے گئیں؟
میں ہنس پڑی ۔ میں پسینہ میں اس قدر شرابور تھی کہ وہ سمجھیں میں ابھی نہا کر آئی ہوں۔
محترمہ شجاع خانی اور اور حاجیان صاحب کی بیگم اکثر ہمارے گھر آیا کرتیں تھیں۔ انہی سب مہمان داریوں کے ساتھ ہفتہ وار قرآنی محافل زیادہ تر ہمارے گھر منعقد ہوتی تھیں۔ کیونکہ یہاں سب کو آسانی تھی اور میں بھی بہت زیادہ پرشکوہ محافل کے حق میں نہیں تھی۔
محترمہ شجاع خانی گاو تکیہ سے ٹیک لگائے ، لمبے سے کوٹ سے اپنی ٹانگوں تک کو ڈھکے بیٹھی تھیں۔ اسکارف کا کلیپ مضبوطی سے گردن کے نیچے لگایا ہوا تھا۔ انہوں نے صلوات بھیجی اور تقریر شروع کردی۔ ہر محفل میں ان کا یہی انداز ہوتا تھا۔ وہ گھنٹہ بھر سے زیادہ ہمارے لئے اسلام، احکام، اور قرآن کی باتیں بیان کرتیں۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان محافل میں بچے ہمارا بھرپور ساتھ دیتے تھے وہ ہمارے ساتھ ہوتے مگر ایک کونے میں چپ چاپ کھیلتے رہتے۔
محترمہ شجاع خانی اور محترمہ حاجیان صاحبہ سے فہیمہ کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی ان خواتین کی سادہ زیستی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے بچے کبھی بھی طبقاتی اختلاف کی بو تک نہ پا سکے اور یوں یہ وقت ان کے لئے بہت اچھا گذرا۔ ان ملاقاتوں اور مہمان داریوں کی ایک اور اچھائی یہ بھی تھی کہ علی کے نہ ہونے کا احساس بہت کم ہوتا تھا۔
ہمارے انہی دوستوں میں ، جن سے ہمارا میل ملاپ تھا، ایک طالب علم جوڑا بھی تھا ان کی ایک بیٹی جو اسکول جایا کرتی تھی۔ امتحانات کے موقع پر وہ اپنی بیٹی کو دہلی لے آتے تاکہ وہ اپنے امتحانات دے سکے۔ چونکہ دونوں خود طالبِ علم تھے اور ان کے اپنے امتحانات ہوتے تھے لہٰذا ان کے لئے ممکن نہ تھا کہ بیٹی کے امتحانات نمٹنے تک دہلی میں قیام کریں۔ وہ پریشان تھے کہ کریں تو کیا کریں؟ بہت مشوروں اور حیل حجت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی بیٹی کے لئے سب سے اچھی اور محفوظ جگہ رحیمی صاحب کا گھر ہے سو وہ بچی ہمارے گھر آ گئی اس کی ماں نے جب مجھے دیکھا تو مذاق میں کہنے لگی :
-ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اپنے بیٹی کو آپ کے سپرد کر دیں اور آپ کے پاس قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
وہ ایک ماہ تک ہمارے پاس رہی یہاں تک کہ اس کے امتحانات مکمل ہوگئے ، وہ مہدی سے کوئی سال بھر چھوٹی ہوگی۔ اس کی ماں کو مہدی بہت پسند تھا اور وہ کہتی تھی کہ مہدی میرا داماد ہے۔ ایک بار مہدی کو شدید بخار تھا اس نے کہا:
مہدی تم جب بھی رشتہ لے کر آنا بخار کی حالت میں آنا مجھے تمہاری بخار زدہ آنکھیں بڑا لبھاتی ہیں۔
ہمارے بچے مالک مکان کے پوتوے پوتیوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور میری دوستی مالک مکان کی جوان سال بیٹی سے ہو گئی تھی اس لئے اس سے اکثر گفت و شنید رہتی تھی اور وہ عموماً شام کے وقت ہمارے گھر آجایا کرتی تھی۔ میں اس کے اسلام، حجاب، ایران اور اپنے خصوصی پردے اور لباس کے بارے میں کئے سوالات کے جواب دیا کرتی تھی۔ وہ مجھے گھر سے باہر چادر میں ملبوس دیکھا کرتی تھی تو سمجھتی تھی کہ میں گھرکے اندر بھی چادر اوڑھتی ہوں۔ ایک دن اس نے مجھے گھر میں بغیر چادر کے دیکھا تو حیران رہ گئی۔ ہر چند ہندوستان میں مسلمان کثیر تعداد میں تھےلیکن ان کا حجاب ہمارے حجاب سے بہت مختلف تھا اور ان کا گھر کا لباس اور گھر سے باہر جانے کا پردہ یکساں تھا اسی لئے اس خاتون کے لئے میرا گھریلو لباس بالکل ایک نیا انداز تھا۔ علی بھی مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ ہندووں سے مراسم استوار کروں اور ان کے سوالات کے جواب دوں ۔ اس عقیدہ کا یہی تھا اسی لئے اس کی تاکید بھی کرتا تھا کہ ہر سوال و جواب اور ہر بات چیت کا اپنا ایک خاص اثر ہوتا ہے ہم یہاں لوگوں کو شیعت کی طرف مائل کرنے پر مامور ہیں تو جتنا ہم لوگوں میں گھلیں ملیں گے اتنا ہی انقلاب کی خدمت کریں گے۔
میں کھانے کے برتن دھو کر ، چائے کو دم دے کر اس کے انتظار میں تھی بچے ٹی وی کے سامنے لیٹے لیٹے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئے تھے۔میں نے بچوں کو چادر اڑھائی اور چینل بدلنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ پردے پر ایران عراق جنگ کی تصاویر نظر آنے لگیں میزبان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرار داد ۵۹۸ کو امام خمینی کی جانب سے زہر کے پیالے کا نام دے کر قبول کئے جانے کے بارے میں بتایا۔ میں سوگوار ہوگئی اتنی جلدی ۔۔۔ آخر کیسے؟ا مام خمینی کی زہر کے پیالے کی تعبیر اس قرداد کے لئے میرا دماغ گھما رہی تھی۔ میں نے مالک مکان کے گھر سے علی کو فون کرنے کا ارادہ کیا مگر پیر جم سے گئے اور ان پر میرا اختیار نہ رہا ، میں چکرا رہی تھی۔ زہر کا پیالہ ، کیوں، آخر یہ تعبیر ، کیوں؟ عجب سا احساس تھا جنگ بندی کی خوشی بھی تھی مگر دل غمگین بھی تھا کیوں کہ امام خمینی کا بیان ان کے غمگین ہونے کا واضح ثبوت تھا۔ علی جب رات کو گھر آیا تو اس کی حالت بھی غیر تھی ۔ امام خمینی کا جنگ بندی کی قرداد کو زہر کا پیالہ کہنا خاص معنی رکھتا تھا جو فی الحال ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا اور دماغ چکرا رہا تھا۔ اس دن کے بعد سے ایک عرصہ تک ہمارے دن رات صرف ایران عراق جنگ کی خبروں کی تحقیق میں گذرنے لگے تاکہ ہم ابہام کو دور کر کے حقیقت کو سمجھ سکیں۔
اسی گھر میں علی نے ایک V.C.P خریدا۔ کیونکہ بچوں کا مشغلہ صرف ہندوستانی کارٹون دیکھنا رہ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی ثقافت اور رسم و رواج سے دور ہوتے جارہے تھے۔ اس لئے وی سی پی اور ایرانی فلمیں خریدنے کا خیال آیا۔ بعض اوقات تو بے چارے بچے ایک ہی فلم کئی کئی دن دیکھتے تھے اور اب تو ان کے کارٹونز مجھے حفظ ہو گئے تھے۔ وہ صبح اٹھتے ہی ناشتہ کرنے بجائے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور دوپہر تک اسی میں جتے رہتے۔ اس دن بھی وہ حسبِ معمول ٹی وی دیکھ رہے تھے ، مالک مکان کی بیٹی نے دستک دی اور کہا علی کا فون آیا ہے۔ میں اس کے پیچھے پیچھے نیچے آئی دل میں ہول اٹھ رہے تھے اور دماغ میں سو قسم کے خیالات امڈے چلے آتے تھے کیونکہ آج سے پہلے علی نے کبھی فون نہ کیا تھا۔ ہزاروں وسواس دامن گیر ہوئے ، میں خود کو کوئی بھی بری خبر سننے کے لئے تیار کررہی تھی ۔
فون اٹھایا تو دوسری طرف علی تھا جس کی صرف رونے کی آواز آرہی تھی میں جتنا بھی پوچھتی کہ بولو کیا ہوا؟ کچھ تو بتاو؟ وہ اتنا زیادہ دھاڑیں مار کر رونے لگتا۔ میں ٹکٹی باندھے فون کے کریڈل کو تک رہی تھی اور اس کے رونے سے میری بھی حالت بگڑ رہی تھی۔ مالک مکان بھی میری اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر بھانپ گئے تھے کہ کوئی بہت ہی بری خبر ہے۔ علی نے رونے کے دوران ٹوٹے ٹوٹے لفظوں میں امام خمینی کی وفات کی خبر دی ۔ میں سکتے میں آ گئی اور دل سے آواز آئی اے کاش اس کے علاوہ کوئی بھی خبر بد ہوتی مگر امام خمینی کی رحلت کی خبر نہ ہوتی۔ میں فون پر بات جاری نہ رکھ سکی اور سیڑھیوں کی جانب چل دی۔ دل کو شدید دھچکا لگا تھا۔ مالک مکان کی بیٹی مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی مگر میری زبان بھی میری پیروں کی طرح منوں وزنی ہو گئی تھی میں اس کو کوئی توضیح نہ دے سکی ۔ لڑکھڑاتی ہوئی سیڑھیوں تک آئی ۔ لگتا تھا پیروں میں جان نہیں ہے چند سیڑھیاں تھیں مگر میں ہر سیڑھی پر بیٹھی پھر دیوار پکڑ کر اٹھی اور بہت ہی مشکل سے خود کو بالائی منزل تک پہنچایا ۔ ایسا لگتا تھا میرا وجود ختم ہوگیا ہے۔ اوپر جاکر ٹی وی کا چینل بدلا ۔ ٹی وی پر امام خمینی کی تصاویر نشر ہورہی تھیں آنسو وں نے ٹی وی کے پردے کو دھندلا دیا تھا کچھ صاف نظر نہ آتا تھا ۔ میزبان کہہ رہا تھا کہ امام خمینی ایرانی قوم کے لئے ایک باپ کی حیثیت رکھتے تھے یہ سننا تھا کہ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ مالک مکان کی بیٹی نے بھی اسی وقت خبریں دیکھیں اور میرے پاس پرسہ کو دوڑی آئی۔ رونے سے گلا ایسا رندھا کہ نہ میں درست طریقہ سے بات کر پائی نہ ہی اس کی تعزیت پر اس کا شکریہ ادا کر پائی۔
اس دن بھی علی بہت دیر سے گھر آیا اس کا حال بھی تباہ تھا۔ خوں رنگ آنکھیں، چاک گریبان اور چہرے پر مردنی لئے ایک کونے میں بیٹھ کر خود میں گم ہوگیا۔ غریب الوطنی میں کسی عزیز کا داغِ مفارقت بہت ہی برا ہوتا ہے، آپ خود کو انتہائی اکیلا محسوس کرنے لگتے ہیں اور تنہائی روح میں اتر آتی ہے اور کوئی چیز آپ کو تسکین فراہم نہیں کر پاتی اس وقت میری اور علی کی یہی کیفیت تھی ۔ ہمارے لئے امام خمینی کی رحلت کے داغ سے بڑا کو ئی داغ نہ تھا ہم ہر روز خانہ فرہنگ میں ایصال ثواب کی مجلس منعقد کرتے تھے مگر دل کو قرار نہ تھا خانہ فرہنگ کو سیاہ ملبوس پہنا دیا تھا اور روز مجلس کے ساتھ ، امام خمینی کی مختلف تقاریر بھی نشر کی جاتی تھیں۔
ہمارا دل ایران بھاگ جانے کو چاہتا تھا۔ جیسے بھی ممکن ہوا ہم نے ایران کے سفر کی منصوبہ بندی کی اور امام خمینی کے چالیسویں کے اگلے روز ایران پہنچ گئے۔ آدھی رات کا وقت تھا بچوں کو ان کے دادا کے گھر سوتا چھوڑ کر میں اور علی ، امام خمینی کی قبر کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہاں اس وقت بھی کافی افراد موجود تھے ہر کوئی اندوہ میں ڈوبا کسی کونے میں بیٹھا آنسو بہائے جاتا تھا ۔ یہ وقت تھا جب ہمیں یقین آیا کی واقعی اب امام خمینی ہمارے درمیان نہیں رہے، ہمارے دلوں کا زخم پھر سے ہرا ہو گیا۔ ہماری حالت اس شخص کی سی تھی کہ اس کو مدتوں بعد مراد ملی ہو مگر اس کے حصے میں خسارہ آیا ہو ایسے ہی آج ہمیں امام خمینی سے ملنے کا موقع ملا مگر کس حال میں۔ صبح کی اذان تک ہم بھی ایک کونے میں بیٹھے روتے رہے۔
[1] بالکل ایسے ہی جیسے امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر شامی کہتے تھے کہ علی علیہ السلام مسجد میں کیا کر رہے تھے؟
[2] shifting
[3] پگڑی
[4] ایک کار کا نام
صارفین کی تعداد: 1883