ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، اٹھارواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2022-6-19
جشن اور دیگر محافل کے لئے ہم سب خانہ فرہنگ کے نماز خانہ میں جمع ہوجاتےیوں میں دیگر ایرانی خواتین سے ملاقات کر پاتی۔ وہ لوگ جو خانہ فرہنگ اور سفارت خانہ کے مستقل ملازم تھے ان کی تنخواہ ڈالرز میں تھی اور علی کی تنخواہ روپوں میں اس لئے ہم میں اور ان میں شدید طبقاتی اختلاف تھا مگر یہ اختلاف کبھی اس بات کا سبب نہ بنا کہ ہم باقی لوگوں سے الگ تھلگ رہیں۔ خانہ فرہنگ میں آنے جانے والے ہر شخص کے ساتھ ہمارا رویہ مخلصانہ ہوا کرتا تھا اور خانہ فرہنگ کے آخری کونے میں میرا گھر سب کے لئے جانا پہچانا تھا سب وہاں آتے جاتے رہتے۔ ہماری مالی حالت کا دوسروں سے مختلف ہونے ہمارے لئے کبھی اہمیت کا حامل نہ رہا۔
میں نے اٹیچی اٹھا کر کمرے کے بیچوں بیچ رکھ دی۔ ہر سال گرمیوں کے آخر میں ہم سب ایک ساتھ ایران جایا کرتے تھے۔ بچے مارے خوشی کے اچھلتے کودتے اپنے کھلونے اٹیچی میں بھر رہے تھے۔ علی نے وعدہ کیا تھا کہ رات کو بچوں کو کچھ خریداری کے لئے باہر لے جائے گا اس خوشی میں ان کو قرار نہ تھا۔ میں نے پورے سال میں کچھ بچت کی تھی خصوصاً بچوں کے لباس وغیرہ کے لئے۔ ہر سفر سے پہلے ہم سیل سے بچوں کے لئے لباس خرید لیا کرتے تھےجس کے سبب ان کی حالت ویسی ہوجاتی تھی جو میں علی کے گھر والوں کو اور اپنے گھر والوں کو خطوط میں لکھا کرتی تھی۔ بقیہ ایرانی افراد اپنے گھر والوں کو گرمیوں کی چھٹی میں تین ماہ کے لئے ایران بھیج دیا کرتے تھے چونکہ مرد حضرات کو صرف ایک ماہ کی چھٹی ملتی تھی لہٰذا وہ ہندوستان میں رہتے اور آخری مہینہ میں جاکر اپنے گھر والوں کے ہمراہ ہندوستان واپس آجاتے ۔ میرا دل علی کو اکیلا چھوڑنے پر تیار نہ تھاسو میں شہریور[1] تک صبر کرتی تھی تاکہ ہم سب اکھٹے ایران جائیں اور ایک ساتھ واپس آئیں۔
جمشیدی صاحب جو علی کے گہرے دوست اور ایرانی سفارت خانے کے ملازم تھے اکثر ہم سے ملنے آتے تھے اور کہتے۔
-تم دونوں تو لیلیٰ مجنون ہوگئے ہو ایک ساتھ جاتے ہو ایک ساتھ آتے ہو۔
وہ علی کو سرزنش کرتے تھے کہ کیوں بیوی بچوں کو اس گرمی میں مار رکھا ہے انہیں جانے دو کچھ تازہ ہوا کھائیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ میں ہوں جو اکیلے جانے پر تیار نہیں ہوں۔
خانہ فرہنگ میں رہائش کے ایام میں ہی میں نے فہیمہ کا دودھ چھڑایا۔ وہ مجھ سے بہت مانوس تھی اس لئے بیمار پڑ گئی۔ اس کے گلے کے نیچے ایک غدود ابھر آیا۔ بعض بچوں کو دودھ چھڑانے کے بعد یہ عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ غدود کا منہ اندر کی طرف تھا اس لئے مواد اور پیپ باہر نہ رستے تھے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ صبر کرنا ہوگا تاکہ یہ پک جائے تو چیرا لگا کر اس کا مواد نکالا جائے۔ غدود روز بروز بڑھتا جاتا تھا اور اب تو فہیمہ سر بھی نہ بلا پاتی تھی۔ اس کی جراحی کے دن میں جراح کے کمرے میں نہ گئی مجھ میں اس کی طاقت ہی نہ تھی۔ علی ہی فہیمہ کو لے کر گیا اور کچھ ہی دیر بعد فہیمہ کی چیخوں سے راہداری گونجنے لگی۔
اللہ۔۔۔ اللہ۔۔۔
اسکی فریادوں اور چلانے پر میرا کلیجہ منہ کو آیا جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کسی نے میرا جگر ہاتھوں میں دبا کر نچوڑ دیا ہے۔ فہیمہ چلا رہی تھی اور میں آنسو بہا رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ علی کا حال مجھ سے بھی زیادہ خراب ہے اور وہ فہیمہ کو گود میں لئے اندر ہی اندر تڑپ رہا ہوگا۔
ڈاکٹر کہتا تھا اگر بچی ماں کا بلا رہی ہے تو کوئی حرج نہیں بلا لیں ان کو بھی۔ علی نے بھی ڈاکٹر کو ترجمہ کر کے بتایا کہ فہیمہ ماں کو نہیں بلا رہی بلکہ خدا کو پکار رہی ہے۔ چیرا لگنے کے اگلے دن سے ایک نئی مشکل ہمارے انتظار میں تھی، فہیمہ کو روز پٹی تبدیل کروانے کے لئے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑتا تھا۔ زخم میں مرہم لگانے اور اس کو پر کرنے کی اذیت ایک طرف اور گھر میں روز اس کے زخم کی دھلائی الگ۔ دس دن تک روز فہیمہ کی پٹی بدلنی تھی۔ مہدی بے چارہ علی اور مجھ سے زیادہ تکلیف میں تھاوہ بہن کے رونے پر ہراساں ہو جاتا تھا۔ وہ اپنی بچکانہ حرکتوں کے ذریعے بہن کو محظوظ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا تھا تاکہ وہ اپنے مرہم کو ہاتھ نہ لگائے۔
اس سال جب ہم ایران آئے تو فہیمہ دوبارہ بیمار پڑ گئی۔ ہم اہواز میں اپنے رشتہ داروں کے آئے ہوئے تھے۔ تربوز کی ایک قاش فہیمہ کو بھی دے دی کہ خود کھا لے۔ اچانک اس کو پھندا لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیلی پڑ گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیسے چادر اوڑھی اور کیسے ڈاکٹر کے پہنچی۔ طبیب کا کہنا تھا۔
-اسکو جتنا جلدی ممکن ہو تہران لے جاو اور اسکی سانس کی نالیوں کی صفائی کرواو۔
ایک دن کے اندر ہم تہران پہنچ گئے میں بے حال تھی۔ جس وقت فہیمہ کو میری گود سے لے کر آپریشن ٹھیٹر میں لے جایا گیا ہے میں اپنے حواس میں نہ تھی۔ اس دوران سارے کام علی نے انجام دئیے۔ میں آپریشن تھیٹر کے دروازے سے لگی بیٹھی تھی اور علی مسلسل ٹہل رہا تھا اور وظائف پڑھنے میں مصروف تھا۔ فہیمہ کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی یہ بات ہمیں اور پریشان کئے دے رہی تھی۔ خاموشی کے عالم میں ، میں صرف گھڑی کی سوئیوں کو تک رہی تھی۔ اس کی سانس کی نالیوں کی صفائی کا کام ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ چلا مگر ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ ایک سال گذر گیا ہے۔اس واقعہ نے ایران کا یہ سفر تلخ کردیا۔
ایرانی بچوں کے زیادہ تر کھیل گھر کی چار دیواری میں محدود تھے ان کے پاس V.C.P ہوتے اور وہ ایرانی کارٹون دیکھتے تھے۔ مہدی اور فہیمہ بھی ، ایرانی بچوں کے کارٹونز کی کہانیاں سنانے کی وجہ سے، ان کارٹونز کے دیوانے ہو گئے تھے اور اب ان کی سب سے بڑی آرزو یہی ایرانی کارٹونز دیکھنا تھا اس شوق کی تسکین کے لئے علی نے اجازت دے تھی کہ جس وقت علی کے کام کا وقت ختم ہوجائے اور علی مصروف نہ ہو بچے اس کے آفس میں آ کر کارٹونز دیکھ سکتے ہیں۔ بچے علی کے آفس میں کارٹون دیکھتے تھے اور ایک دن کارٹون دیکھ کر کئی دن تک اسی کا تذکرہ کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے کھیل کود میں اپنے نام بھی انہی کارٹونز کے کرداروں کے نام پر رکھ لئے تھے۔
ایک دن بچے کارٹون دیکھنے کو بے چین تھےمگر علی کے پاس کام کا بوجھ زیادہ تھا اس لئے وہ علی کے پاس دفتر میں نہ جاسکتے تھے۔ وہ ایک کونے میں بے سدھ سے پڑے تھے کہ علی آ گیا۔ بچوں کی حالت کو جو بھانپا تو کپڑے تبدیل کئے بغیر بچوں سے کہا کہ چلو تیار ہو جاو گھومنے چلتے ہیں۔ رات کافی گذر چکی تھی لہٰذا ہم نے صرف شہر گردی کی اور واپسی کا ارادہ کرلیا مگر یہ گھومنا پھرنا بھی بچوں کے لئے کسی بڑی تفریح سے کم نہ تھا۔ واپسی پر علی نے ایک رکشہ لیا رکشے والے کو پیٹرول ڈالوانا تھا لہٰذا وہ ہمیں پیٹرول پمپ لے گیا۔ رات کا آخری پہر تھا شہر سنسان پڑا تھا پیٹرول پمپ پر رکشے کے علاوہ دو گاڑیاں اور تھیں۔ نا جانے کہاں سے چند مسلح افراد پیٹرول پمپ میں در آئے اور چیخ پکار شروع کردی۔ وہ پمپ کو لوٹنا چاہتے تھے۔ بچے سہم گئے میں نے ان کو خود سے لپٹا لیاوہ مارے خوف کے ٹھنڈے پڑے جاتے تھے اور حلق سے آواز نہ نکلتی تھی۔ ایک ڈاکو ہمارے پاس آیا اور رکشے کی چابی لے لی نہ تاکہ ہم لوگ فرار نہ کر سکیں۔ اس کا چہرہ بڑا ہی ہیبت ناک تھا، سیاہ رنگ اس پر بڑی بڑی مونچھیں اس کو اور بھی ڈراونا بنا رہی تھیں۔صرف اسکی آنکھیں کی سفیدی ہی رات کی تاریکی میں واضح تھی جس سے وہ ہماری طرف گھور رہا تھا۔ اس نے اسلحے کا رخ ہماری طرف کیا ہوا تھا بچے سمٹ کر میرے اندر گھسے جارے تھے تاکہ میں ان کی سپر بن جاوں، وہ وحشت زدہ اس شخص کی جانب دیکھے جاتے تھے۔ علی نے اس کہا کہ ہم ہندوستانی نہیں ہیں تاکہ وہ اسلحے کا رخ ہماری طرف سے ہٹا لے اس نے کہا۔
-مت ڈرو ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں۔
اس کی یہ غصیلی آواز اور اسلحے کا ہماری جانب تاننا ہی ہماری جان نکالنے کو کافی تھا۔کوئی پندرہ منت یہ اضطرابی کیفیت جاری رہی اور وہ پیٹرول پمپ لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ڈرائیور نے انجن کے تاروں کو جوڑا تاکہ رکشہ اسٹارٹ کرے ۔ خطرہ ٹل چکا تھا مگر بچے تمام راستے مجھ سے لپٹے رہےمجھ میں بھی ان کو خود سے الگ کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔
علی ہمیں پریشان کرنا نہیں چاہتا تھا اس لئے بہت سے مسائل کا ہم سے ذکر ہی نہ کرتا تھاوہ خود ہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ رات کی کسی پہر جب گھر پلٹتا تو بچوں کو اور مجھے دیکھ کر اپنی تھکن دور کر لیتا تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ بہت تھکا ہوا ہوتا ہے کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے مالی تنگدستی تو اپنی جگہ ہے ہی۔ مگر علی کبھی ان موضوعات پر بات نہ کرتا۔
مہدی اور فہیمہ آدھ سوئے رات کے کھانے کے منتظر ہوتے، میں پتیلی کے ڈھکن میں چاول ڈالتی تو دار چینی اور زیرہ کی بو دماغ مہکا دیتی۔ میرا کھانا پکانے کا انداز بھی ہندوستانی ہو چلا تھا۔ دار چینی کو چاولوں سے الگ کرکے مہدی کو آواز دیتی کہ دسترخوان چن دے۔ دسترخوان کا بچھنا ہوتا کہ علی کی صورت نمودار ہوجاتی۔ بچے باپ کو دیکھتے تو ایسا لگتا کہ ان کو تمام دنیا مل گئی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے جو بجھے بجھے سے ایک کونے میں پڑے کھانے کا انتظار کر رہے تھے ان میں بجلی بھر جاتی ۔ علی گھر میں دوڑ لگانے لگتا اور بچے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے۔ جب تک میں کھانا رکابیوں میں نکال نہ دیتی یہ کھیل جاری رہتا ۔ علی شرارتوں میں بچوں سے زیادہ تھا بچوں کو بیٹھے دو منٹ نہ ہوتے کہ وہ پھر کوئی ایسی حرکت کر دیتا کہ بچے پھر کھیل میں مشغول ہو جاتے۔
سب ہانپتے کانپتے دسترخوان پر آ بیٹھتے۔یہ وقت ہوتا تھا جب میں علی سے سکون سے بات کر سکوں۔
-آج پھر دیر سے آئے ہو۔۔ ان سب کاموں کے ساتھ تم پڑھائی کیسے کرو گے؟؟
وہ لقمہ اٹھاتا
-میں پڑھائی کر رہا ہوں تم مطمئن رہو۔
اس کے جواب سے مجھے اندازہ ہوجاتا تھا کہ وہ پڑھائی وڑھائی کچھ نہیں کر رہا
-ہم تمہاری پڑھائی کے لئے ہی ایران سے ہندوستان آئے تھے۔ کم از کم جتنا کام کرتے ہو اس حساب سے تعلیم کو بھی کو وقت دو۔
وہ اطمینان کے ساتھ جگ اٹھاتا اور گلاس بھرتا
-میں Ph.D کر رہا ہوں۔
ایک وقت کو مجھے یقین ہوا کہ اس نے ڈاکٹریٹ میں داخلہ لے لیا ہے اور میں ہی اس سے بے خبر ہوں۔ نوالہ جلدی جلدی چبایا کہ اس سے پوچھوں کہ اس نے یہ خبر مجھ سے کیوں چھپا رکھی اتنے میں علی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
-میں Ph. D کے پہلے سال میں بیچلرز کر رہا ہوں۔
میری ہنسی چھوٹ گئی اور نوالہ میرے حلق میں چلا گیا ۔ اس نے جلدی سے پانی مجھے دیا ۔ کھانستے میں اس پر نظر پڑی تو ہنسی اور بڑھ گئی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے مجھے قانع کر دیا۔ ہنسی بات نہ کرنے دیتی تھی۔۔۔ وہ سچ ہی تو کہتا تھا کیونکہ چار سال ہوگئے تھے اور وہ ابھی تک پہلے سال میں ہی زیر تعلیم تھا بقول اس کے اس نے ڈاکٹریٹ کا پہلا سال شروع کردیا تھا۔
میں صرف علی کو ہی تلقین نہ کرتی تھی بلکہ دوسری خواتین کو بھی کہتی تھی اپنے شوہروں کو تعلیم کا شوق دلائیں۔ میری نظر میں انقلاب ِ اسلامی کو مذہبی ماہرین کی اشد ضرورت تھی اس لئے مذہبی لوگوں کو کاموں میں اتنا مشغول نہیں ہونا چاہئے کہ وہ پڑھ نہ سکیں۔ میری دلیل یہ تھی کہ یہ غیر مذہبی لوگ کل کلاں کو پڑھ لکھ کر ایران واپس جاکر تمام امور پر قابض ہو جائیں گے اور انقلابی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اس وقت انقلابیوں کے پاس کچھ نہ ہوگا اوار وہ انزوا کا شکار ہوجائیں گے۔ میری نظر میں یہ مسئلہ بہت اہمیت کا حامل تھا اور میں اس کو انقلاب کے لئے ایک خسارہ سمجھتی تھی۔
اسی گھر میں ، میں پھر حاملہ ہوگئی اور اس بار سید محمد کی آمد تھی۔ یہ دن بہت سخت تھے میں اس حاملگی میں بڑی ِ مشکل سے نلکے کے نیچے بیٹھ کر کپڑے اور برتن دھوتی تھی یہ کام میرے اور بچے دونوں کے لئے ضرر رساں تھا۔ علی نے نل کے نیچے ایک چبوترا بنوا دیا تھا تاکہ زیادہ دیر بیٹھنے سے مجھے یا بچہ کو نقصان نہ پہنچے۔
اس وقت خانہ فرہنگ کے رئیس [2] محترم شاہنگیان صاحب ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنی زوجہ کے ساتھ اکثر ہمارے مہمان ہوا کرتے تھے۔ میری حالت دیکھ کر انہوں نے ہمیں ایک ایئر کنڈیشن تحفے میں دے دیا۔ ہر بار جب بھی اس ایئر کنڈیشن کو کھولتی تو دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی تھیں۔ہندوستان کی چلچلاتی گرمی اور میری حالت کے پیش نظر یہ ایئر کنڈیشن ایک نعمتِ عظمیٰ تھی۔
حاملگی کے سخت ایام گذر گئے تھے میں اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ بچے کے بچنے کی امید بھی باقی نہ تھی میرا کام صرف قرآن پڑھنا اور دعائیں مانگنا رہ گیا تھا۔ خدا کا شکر کہ دعائیں رنگ لائیں اور سید محمد صحیح سالم ۲۳ تیر ماہ ۱۳۶۶ [3]کو دنیا میں تشریف لے آئے۔محمد کے ہاتھ پیروں کے ناخن رنگین تھے سب سمجھتے تھے کہ ہم نے مہندی لگائی ہے۔ جو کوئی بھی اس بچے کو دیکھتا کہتا
-یہ بچہ محمدی ہے حیف ہے اگر اس کا نام محمد کے علاوہ کچھ اور رکھا جائے۔
اسی لئے ہم نے اس کا نام محمد رکھا۔آج بھی بیس سال بعد بھی اگر ہم ہندوستان جاتے ہیں تو پرانے آشنا محمد کے بارے میں ضرور پوچھتےہیں۔
محمد کے قدم ہمارے لئے مبارک ثابت ہوئے اور علی، خانہ فرہنگ کے نیم مستقل ملازمین کی فہرست میں شامل ہو گیا۔اس کا کام اور بھی بڑھ گیا اب اسے ہر مناسبت کے اعتبار سے پروگرام تشکیل دینا ہوتے تھے۔ مثلا ۲۲ بہمن[4] کا جشن یا خواتین کے دن کا جشن وغیرہ۔اس زمانے کے وسائل کے اعتبار سے جو پروگرامز منعقد ہوتے تھے وہ کسی معجزہ سے کم نہ تھے۔ہال اور صحن لوگوں سے بھر جاتے جن میں اکثریت ہندوستانیوں کی ہوا کرتی تھی۔جب بھی اس طرح کے پروگرامز کا موسم آتا علی آدھی رات کے بعد ہی گھر لوٹتا تھا۔ پروگرامز ترتیب دینا اور ان کی نظامت کرنا علی کی ہی ذمہ داری تھی۔ وہ کرسیاں لگانے سے تزئین و آرائش اور خریداری تک کے تمام کام خود کرتا تھا اس کے بعد گھر آکر کپڑے تبدیل کرتا اور ناظم کا روپ دھار لیتا تھا۔ بعض اوقات سفارت خانہ بھی اپنی تقریبات کی ذمہ داری علی کے سپرد کردیتا تھا۔بچے بھی ان جشن کی تقریبات میں اپنے لئے تفریح کا سامان ڈھونڈھ لیتے۔وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان پروگرامز کا ناظم ان کا باپ ہے۔ میں ذرا غافل ہوتی تو محمد پھدکتا ہوا باپ کے پاس اسٹیج پر جا پہنچتا اور اپنی اس معصومانہ حرکت کے طفیل لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا۔ علی بھی آنکھ کے اشارے سے کہتا کہ میں محمد کو اٹھا لے جاوں۔ دوسرے بچے بھی جشن سے خوب خوب محظوظ ہوتے تھے۔ علی بھی ہر محفل میں بچوں کی تفریح کے لئے خصوصی انتظام کرتا تھا تاکہ محفل بچوں کے لئے بھی دلچسپ رہے اور اس بہانے بچے بھی ان انقلابی اور اسلامی محفلوں سے آگاہ رہنے کے ساتھ مختلف مقابلوں میں شرکت کریں۔ وہ تمام لوگوں کو بچوں کے ہمراہ آنے کی تاکید کیا کرتا تھا۔ علی کی ان کاوشوں کا ثمر ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں ایران میں نظر آتا تھا جب ہم یہ دیکھتے کہ ہمارے بچے اس کے باوجود کہ ایران سے دور رہتے ہیں ، ایرانی بچوں سے زیادہ انقلاب سے مانوس ہیں اور مذہبی اقدار کے دوسرے بچوں سے زیادہ پابند ہیں۔
بعض اوقات جب بچے ہندوستانی ٹی وی چینلز دیکھ رہے ہوتے تھے اور کوئی گانا شروع ہوجاتا تو مہدی ٹی وی بند کرکے اس کے آگے کھڑا ہوجاتا ۔ فہیمہ، مہدی کو کہتی کہ آگے سے ہٹو اور ٹی وی دیکھنے دو تو مہدی دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کہتا۔
-گانا ختم ہوجائے اس کے بعد ٹی وی کھل جائے گا۔
علی جس طرح سے محافل کا انعقاد کرتا تھا سب ہی اس کی تعریفیں کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں ، علی ہمیشہ کی طرح ٹک کر نہ بیٹھتا تھا اور مسلسل آنا جانا کررہا تھاتاکہ کاموں کا جائزہ لے سکے اور کسی کمی بیشی کا فوراً ازالہ کیا جاسکے، محترم نور محمدان جو خانہ فرہنگ کے رئیس نے مجھے لوگوں کے درمیان دیکھ لیا۔
-اگر رحیمی صاحب یہاں نہ ہوتے تو مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیسے۔
سچ ہی کہتے تھے کیونکہ جو بھی علی کو دیکھتا اس کے جوش و ولولے سے اندازہ کرلیتا کہ یہ تمام پروگرامز اس نے خود تشکیل و ترتیب دیا ہے۔ اس کے خیالات[5]بہت نپے تلے ہوتے تھے وہ محافل کے لئے تکراری چیزوں کو خارج کردیا کرتا تھا اور نت نئے آئیڈیاز کی تلاش میں ہوتا جیسے تھیٹر کے اجراء کے لئے ریڈیو ٹیلی ویژن سے آئی ہوئی ایک جوڑی کی مدد لی جو تھیٹر میں متخصص[6] تھی ۔ اسی طرح دہ فجر[7] میں انقلاب کے عنوان سے ایک تھیٹر کا انتظام کیا اس تھیٹر کے لئے اس جوڑی نے کیا ہی شاندار اسکرپٹ لکھا اداکار بھی خانہ فرہنگ ملازمین تھے۔ دہِ فجر کے دس دنوں میں ہر روز پہلے سے زیادہ رش ہوتا تھا اور لوگ بہت ذوق و شوق سے تھیٹر دیکھنے آتے تھے۔ مرد اداکار تو تھیٹر ختم ہونے کے بعد بھی گھنٹوں تک اپنا میک اپ نہ اتارتے ، مکروہ چہرے والے امریکیوں کے کردار سے لیکر بڑی بڑی مونچھوں والے ساواکی اور جنگجو و انقلابی ،قیدیو ں اور زخمیوں کی صورت میں خون آلود چہروں کے ساتھ خانہ فرہنگ کی راہداریوں میں گھومتے رہتے اور ہنسی مذاق کرتےاور گپیں لڑاتے رہتے اور ان کی آوازیں خانہ فرہنگ میں گونجتی رہتیں وہ یادگار تصاویر اتارتے تاکہ سرمایہ رہیں۔
خانہ فرہنگ کا کام ختم ہوتے ہی علی اندرون شہر کاموں پر نکل جاتا۔ اس کی اس سخت کوشی پر میں کہا کرتی ۔
-ایک دن انہی کاموں میں چل بسو گے۔
وہ مسکرا کر صرف اپنا سر ہلا دیتا جیسے اس کو آرام کرنے اور سستانے کا مطلب ہی معلوم نہ ہو۔ سب کا کہنا تھا کہ رحیمی صاحب تھکن سے منزہ و مبرا ہیں مگر میں جانتی تھی علی کتنا تھکا ہوا ہے۔ ادارہ سے آتا تو کھڑے کھڑے بس ایک کپ چائے پی کر پھر کام پر نکل جاتا تھا۔
کبھی کبھی ادارہ تبلیغات والے تہران سے علی کو کچھ پیسے بھجوا دیتے کہ جہاں رحیمی صاحب مناسب جانیں خرچ کر دیں یا بے بضاعت شیعہ خاندانوں کی ضروریات ان سے پوری کردیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ براہ راست اس کام کا حکم کون دیتا تھا مگر علی کی گفتگو میں تسخیری صاحب اور نواب صاحب کے نام زیادہ تر سنے میں آئےیہ دونوں علی کے لئے بہت محترم تھے اور علی ہمیشہ ان کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔
دہلی کے مضافات میں ایک گاوں امروہہ نام کا تھا یہ شیعہ سادات کی ایک بستی ہے اور یہاں کے لوگ اس وقت کافی کسمپرسی کے عالم میں بسر کر رہے تھے بعض اوقات تو لوگوں کے پاس رات کے کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا تھا۔ علی کے کاموں میں سے ایک کام اس علاقہ کی خبر گیری بھی تھا۔ جب ہم ہندوستان آئے تھے اس وقت تو ہمارے اپنے حالات ایسے نہ تھے کہ کسی کی مدد کر سکتےمگر پھر بھی اگر اتنا بھی ممکن ہوتا کہ کسی کے لئے ایک وقت کا کھانا ہی مہیا کیا جاسکے تو علی اس بھی دریغ نہ کرتا ۔ علی کہتا تھا
-ہے تو بہت کم مگر میرا ضمیر مطمئن رہے گا کہ جو کام میں کر سکتا تھا میں نے اس سے صرفِ نظر نہیں کیا۔
علی نے ان لوگوں کے لئے ایک راہ بنائی تھی تاکہ ان کی پریشانیاں کم ہوسکیں۔ خانہ فرہنگ کے وظائف متعین ہو چکے تھے مگر علی کے اس کام کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی سو علی ادارہ کی جانب سے دی جانی والی رقم ان لوگوں پر ہی خرچ کرتا تھا۔
وہ اکثر امروہہ کا سفر مظفر نگر کے ایک مولوی صاحب کے ساتھ کرتا تھا۔ جب بھی اسے کاموں سے فرصت ملتی تو وہ خانہ فرہنگ کے طلاب کو لئے امروہہ چلا جاتا ۔ وہ خانہ فرہنگ کے اوقاتِ کار کے معاملے میں بہت حساس تھا اور اس پر راضی نہ تھا کہ خانہ فرہنگ کے اوقاتِ کار میں کمی کرے لہٰذا وہ خانہ فرہنگ کے دفتری اوقات کے بعد امروہہ جاتا اور رات دیر گئے واپس آتا یا پھر تعطیلات میں جب اس کے پاس بچوں کے ساتھ گذارنے کے لئے وقت ہوتا تھا تو وہ یہ وقت قربان کر کے امروہہ چلا جاتا تھا تاکہ لوگوں کی ضروریات سے بھی آگاہ ہوسکے اور ان کے لئے تبلیغی پروگرامز بھی تشکیل دے سکے۔
ایک اور شیعہ آبادی کا گاوں مظفر نگر بھی ہے جو دہلی سے کوئی ۱۵۰ کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔انقلاب کے اوائل میں ایک کویتی شیعہ نے وہاں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ مدرسہ چھوٹا سا تھا اور وسائل سے فاقد۔ مگر یہ بھی بہت تھا کیونکہ اس وقت یہ مدرسہ شیعوں کی ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ مدرسہ مولوی رضا صاحب کی زیر نگرانی ایران کی چھتری کے نیچے کام کر رہا تھا یہی وجہ تھی کہ علی اور دیگر لوگ اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ خانہ فرہنگ کے کام نمٹا کر علی دوسرے لوگوں کو لے کر مظفر نگر چلا جاتا۔
مجھے علی کے کاموں کے بارے میں بتانے والا کوئی نہ تھا لیکن علی کی گفتگو اور اس کے ساتھیوں کی بات چیت سے میں بھانپ گئی تھی کہ لوگ انتہائی خطرناک سفر کرکے مظفر نگر تک پہنچتے ہیں۔ ہندوستان کے گرم موسم میں ۱۵۰ کلومیٹر کا سفر وہ بھی ایک بوسیدہ سی بس میں جس کے لئے شاید ایک میٹر چلنا بھی دشوار تھاوہ بھی ہندوستان کے پر خطر علاقوں میں اس پر مستزاد وہ غذا اور رقوم جو علی اور دیگر اپنے ہمراہ لے جاتے تھےیہ سفر معجزوں سے کم نہ تھے کیونکہ ہندوستان کے لٹیروں کے لئے یہ دولت اچھا خاصہ شکار تھی۔ مدرسہ پہنچنے پر ان کا اصل کام شروع ہوجاتا تھا۔ مجھے ان کے کام کی جزئیات معلوم نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ ان کا سارا ہم و غم شیعوں کے امور کی دیکھ بھال اور اصلاح تھا۔بعد میں علی کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ صبح سے رات تک مدرسہ میں کام کرتے، جلسہ وغیرہ منعقد کرتے اور دوسرے کاموں کی منصوبہ بندیاں کرتے اور جب سونے کا ارادہ کرتے تو ایک تنگ کمرے میں انواع و اقسام کے کیڑے مکوڑوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی چٹائی پر شورمچاتے ہوئے پنکھے کے نیچے لیٹ کر رات کو صبح سے ملحق کر دیتے۔[8]
وہ جب اس سفر سے آتا تو تھکن اس کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی۔ تھکا ماندہ خاک آلود، نیند کے مارے سرخ انگارہ آنکھیں ۔ میں اگر اس کو صرف ایک دن آرام کرنے کا کہتی حتیٰ اصرار و التماس بھی کرتی تب بھی وہ نہ مانتا بس ناشتہ کیا اوراپنے کاموں پر خانہ فرہنگ ۔
ایک مرتبہ ادارہ تبلیغات نے کچھ رقم علی کو بھیجی۔ علی نے ہمیشہ کی طرح فقراء اور انقلابی پروگرامز میں رقم خرچ کی اور بچ رہنے والی رقم واپس تہران بھجوا دی۔ تہران والوں نے علی کو لکھ بھیجا کہ رحیمی صاحب یہ رقم ہم نے آپکو بھیجی تھی آپ کے اور آپ کے اہل و عیال کے لئے۔ اپنی تمام تر تنگدستی کے باوجود علی نے لکھا۔
-نہیں۔ مجھے اپنے لئے کوئی پیسہ درکار نہیں ۔ بچ جانے والی رقم اگر آپ واپس لینا چاہیں تو ٹھیک ورنہ میں اس کو بھی تبلیغی کاموں پر خرچ کر دوں گا۔ خانہ فرہنگ سے ملنے والی تنخواہ میرے اخراجات کے لئے کافی ہے۔
مگر یہی سب کام بعد میں علی کے لئے درد سر بن گئے اور لوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں '' رحیمی صاحب کیوں ایک وقت میں دو دو اداروں کے لئے کام کر رہے ہیں؟''۔۔۔۔ اس وقت خانہ فرہنگ وزارت مذہبی امور کے زیرنگرانی تھا جب کہ ادارہ تبلیغات ایک مستقل ادارہ تھا۔ہر چند علی نے ادارہ تبلیغات سے اپنے کاموں کی کوئی اجرت وصول نہ کی تھی اور اسی طرح کبھی بھی خانہ فرہنگ کے اوقات میں ادارہ کے امور انجام نہ دئیے تھے اور ادارہ کی جانب سے آنے والی رقم میں سے ایک پیشہ بھی اپنی ضروریات پر خرچ نہ کیا تھا ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں اداروں[9] کا ہدف یکساں تھا مگر یہ بات ہو ہی گئی اور یہ جھگڑا نہ جانے کب تک چلتا رہا۔ ان باتوں نے مجھے انتہائی پریشان کر رکھا تھا مگر علی، ایسا لگتا تھا کہ علی کو ان باتوں کی کوئی پروا ہی نہ ہو، وہ جس کام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا کر گذرتا اور کسی کی کسی بات کو دل سے نہ لگاتا۔اس کا کام ہی ایسا تھا کہ اگر وہ ان جزی باتوں پر کان دھرتا تو بس آفس کے کاموں میں الجھ کر رہ جاتا ۔ اس کی جملہ ذمہ داریوں میں ثقافتی امور کی نگرانی اور فارسی زبان کی ترویج بھی شامل تھی۔ تقریباً ۷۵% کام اس کو خانہ فرہنگ سے باہر انجام دینے ہوتے تھےمثلا قاریانِ قرآن اور تواشیح کے گروہوں کو مساجد میں لانا علی کی ہی ذمہ داری تھی۔
[1] ستمبر
[2] dean
[3] ۱۴ جولائی ۱۹۸۷
[4] انقلاب اسلامی کی سالگرہ
[5] ideas
[6] specialist
[7] امام خمینی کے جلا وطنی ختم کر کے ایران آنے سے انقلاب اسلامی تک کے دس دنوں کو ایرانی ہر سال دہ فجر کا عنوان دیکر مناتے ہیں اور ان دنوں میں انقلاب اور امام خمینی کے حوالے سے محافل اور جشن منعقد کئے جاتے ہیں۔
[8] یہ مدرسہ اب بحی اسد رضا صاحب کی زیر نگرانی جاری ہے مدرسہ امام حسین علیہ السلام کے نام سے۔
[9] خانہ فرہنگ اور ادارہ تبلیغات
صارفین کی تعداد: 2967