ہم یہی تو چاہ رہے تھے!

تلخیص و ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-5-7


۱۹۷۸ کے گرمیوں کے دن تھے، ایران کے معروف خطیب شیخ احمد کافی مشہد میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کرگئے تھے، اس زمانے میں آیت اللہ العظمی خوانساری مرحوم خوانسار میں تھے، اور ہم ان سے بہت زیادہ مانوس تھے۔ ہم نے انہیں تجویز دی کہ ایک مجلس ترحیم کا اہتمام کیا جائے اور ان کی مدد سے مسجد آقا اسد اللہ خوانسار میں علاقے کے جید علمائے کرام کی موجودگی میں مجلس ترحیم کا اہتمام کیا گیا، آیت اللہ العظمی خوانساری کی ہدایات کے مطابق طے پایا کہ ان کے ایک شاگرد اس مجلس سے خطاب کے لئے قم سے مدعو کئے جائیں گے اور ہم نے ایک دوست کی ذمہ داری لگائی کہ وہ خطیب کو قم سے خوانسار لے آئیں۔ مجلس دوپہر دو بجے شروع ہوئی۔

ہم نے طے کیا کہ جب خطیب منبر پر جائیں گے اور اپنی تقریر میں امام خمینی رح کا نام لیں گے تو ہم امام خمینی رح پر درود بھجتے ہوئے مجلس سے باہر نکلیں گے اور مرگ بر شاہ کے نعرے لگائیں گے۔ خوانسار کے اطراف کے علاقوں مثلا گلپائگان، خمین اور فریدن سے بھی ہمارے دوست اس مجلس میں شریک ہوئے تھے۔ اور ظاہر ہے ساواک بھی متوجہ ہوچکی تھی اسی لئے مسجد اور اسکے اطراف کی سڑکوں پر بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی۔ شہر کے بعض معتمدین نے جب صورتحال دیکھی اور مجلس میں غیر مقامی افراد انہیں نطر آئے تو انہوں نے ڈر کے مارے یا مصلحت کی بنیاد پر قم سے تشریف لائے ہوئے مقرر کی تقریر ہی پروگرام سے نکال دی۔ آیت اللہ العظمی خوانساری بھی ابتدا میں ہی اعتراض کرتے ہوئے مجلس سے باہر نکل آئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لہذا ہمارے خطیب کو موقع نہیں دیا گیا اور کوئی اور خطیب منبر پر بیٹھ گیا اور ہم اس اقدام پر بہت زیادہ نالاں ہوئے۔ لیکن دوسرے خطیب نے اپنی تقریر کے آکر میں کہا: "لیکن مجھے کہا گیا ہے کہ بعض مراجع تقلید کا ذکر یہاں سے کروں، لیکن چونکہ تقدم اور تاخر کا مسئلہ پیش نہ آجائے اور کسی کی بے احترامی نہ ہو اس لئے میں کسی بھی مرجع تقلید کا نام نہیں لوں گا۔۔۔'

مقرر کی اس بات نے ہمیں طیش دلا دیا، اسی لئے ہمارے ایک دوست نے جس کی آواز بہت زیادہ اونچی تھی چلا کر کہا " عالم تشیع کے عظیم مرجع تقلید حضرت آیت اللہ خمینی کی صحت و سلامتی کے لئے بلند صلوات" کہ جس کی وجہ سے مجلس میں ایسا لگا جیسے بجلی سی دوڑ گئی ہو  اور امام خمینی رح کے لئے صلوات اور درود کی آواز سے مسجد گونج اٹھی، مجلس درہم برہم ہوگئی اور نوجوان مسجد سے باہر نکل گئے، بہت سارے عام افراد جو صرف مجلس ترحیم میں شرکت کرنے کے لئے آئے تھے وہ پریشانی کے عالم میں وہاں سے فرار کرگئے، لیکن مظاہرین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل گئی اور "درود بر خمینی" اور "مرگ بر شاہ" کے نعرے لگانے لگی۔ ساواک کے اہلکار جو پہلے ہی سے تیار تھے انہوں نے ہوائی فائرنگ شروع کردی اور شہر کی فضا گولیوں کی ترتراہٹ سے گونج اٹھی۔ "ملی بینک" اور عدالت کے شیشیے ٹوٹ گئے اور تقریبا ستر کے قریب افراد گرفتار کرلئے گئے۔ ہم مغرب کے بعد آیت اللہ خوانساری سے ملاقات کے لئے گئے، جو ناراض ہو کر مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تھے، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو وہ بہت خوش تھے اور ہمارے لئے دعا کرتے ہوئے فرمانے لگے: " جب مظاہروں اور گولیوں کے چلنے کی آواز سنی تو خوشی محسوس ہوئی ہم یہی چاہ رہے تھے"۔

 



 
صارفین کی تعداد: 2047


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منجمد گوشت

ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔