دہشتگرد تنظیم کوملہ

لیلا حیدری باطنی

ترجمہ و تلخیص: یوشع ظفر حیاتی

2022-4-29


کوملہ کو ایک مسلح سیاسی تنظیم کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ اس تنظیم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کے کرد نشین علاقوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مسلح حملے شروع کردیئے اور عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں ایران کے خلاف عراقی فوجوں کی مدد کرنے لگی۔

کوملہ تنظیم کو ۱۹۶۸ میں کچھ کرد اسٹوڈنتس نے تشکیل دیا۔ اس تنظیم کے اراکین ہر قسم کے اقدامات انجام دینے سے پہلے ہی یا تو پکڑے گئے یا فرار کرگئے اور ۱۳۵۷ تک کسی قسم کی سرگرمیاں انجام نہیں دے پائے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس تنظیم کے اراکین کو جیل سے رہا کردیا گیا انہوں نے ۱۹۷۸ میں اپنی تنظیم کی پہلی کانفرنس میں اس تنظیم کے دوبارہ سرگرم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اس کا نام" اتحادیہ کشاورزان" یعنی کسانوں کی یونین رکھ دیا اور کچھ ہی عرصے بعد دو چھوٹے چھوٹے گروہ " زحمتکشان ایران" یعنی ایران کے زحمت کش افراد اور "شیرین بہارہ" اس نے ملحق ہوگئے۔ فواد مسظفی سلطانی کو پہلا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا اور ماکسسٹ۔ لینین ازم۔ آئیڈیالوجی اس تنظیم پر مسلط ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد اس تنظیم کا نام "کردستان ایران کے زحمت کشوں کی انقلابی تنظیم" یعنی کوملہ رکھ دیا گیا۔ ۱۵ فروری ۱۹۷۹ کو  کوملہ تنظیم نے اپنے وجود کا باقاعدہ اعلان کردیا اور اس دن کو "یوم کوملہ" کا نام دیا گیا۔ کوملہ کمیونسٹ اصولوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے انتہاپسند اور جارحانہ روش کی حامل تنظیم تھی اور کردستان میں موجود دیگر تمام تر گروہوں کے مقابلے میں جنگ طلب اور مبہم آئیڈیالوجی کی حامل تنظیم تھی۔

کوملہ نے کرد نشین علاقوں میں تمام سرکاری اداروں کی بندش کا مطالبہ کردیا اور سرکاری اور فوجی اداروں کے اخراج کے لئے باقاعدہ جھڑپیں اور جنگ شروع کردی۔ اس تنظیم نے "حسن نیت" کے عنوان سے شروع ہونے والے مذاکرات کو بھی بند گلی میں دھکیلنے کی بہت زیادہ کوششیں کیں اور مذاکرات کے دوران مسلح جھڑپوں کی رفتار بڑھا دی۔ کوملہ سے مذاکرات کا دروازہ بند ہوگیا اور شیخ عزالدین حسینی جو انقلاب سے پہلے تک ساواک کی پشت پناہی کی وجہ سے مہاباد کے امام جمعہ اور ادارہ اقاف کے سربراہ تھے اور کود کہا کرتے تھے کہ میں ساواک سے نہیں بلکہ ساواک مجھ سے تعاون کرتی ہے، کوملہ کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے اپنے انٹرویوز میں عبوری حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔

۱۳ فروری کو مھاباد کی بیرکوں پر ڈیموکریٹ پارٹی کے قبضے کے بعد، ۵ مارچ ۱۹۷۹ کو ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے ایرانی عوام کو اس کامیابی کی مبارکباد دی گئی۔ کوملہ نے کردستان کی خودمختاری کے ساتھ ساتھ، مغربی آذربائیجان، ایلام اور کرمانشاہ کی جدائی کا بھی مطالبہ کردیا اور مختلف علاقون میں محاذ آرائی کے بعد سقز شہر پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔

سن ۱۹۷۹ میں ہی کوملہ نے اپنی طاقت بڑھانے کے لئے مختلف نئی روشوں سے استفادہ کرنا شروع کردیا اور اشرف دہقان کی سربراہی میں بعض گوریلا حملوں کے آغاز کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد کو وسعت دی۔ کردستان میں جھڑپوں میں اضافے کے ساتھ ہی امام خمینی رح نے ۱۷ اگست ۱۹۷۹ کو ضد انقلاب سے آلودہ علاقوں کو پاک کرنے کا حکم دیا جس کے بعد کوملہ بانہ شہر میں منتقل ہوگئی اور سقز میں پانچ دن کی شدید جھڑپوں کے بعد کوملہ نے دیگر حکومت ٘خالف گروہوں کو پیغام دیا کہ وہ بھی براہ راست اس کے مسلح جتھوں میں شامل ہوجائیں۔ بیرکوں اور مقامی فوجی اڈوں پر حملے کر کے اسلحہ اور امیونیشن جمع کرنے کے بعد کوملہ نے اپنی افراد قوت میں اضافے اور انکی تریننگ کا عمل شروع کیا، فوج، سپاہ اور بسیج کے مراکز پر حملہ اور قتل و غارت گری شروع کردی۔ آئین کے لئے کئے جانے والے ریفرنڈم کا بائیکاٹ، ٹیلیفون کو خفیہ کنٹرول کرنا، عوام پر بے جا الزامات لگا کر ان سے تاوان حاصل کران اور اسلام مخالف پروپیگنڈا کوملہ کی دیگر سرگرمیاں تھیں۔ کوملہ نے ۱۹۷۹ میں ایک میگزین " شورش" کے نام سے بھی جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ کوملہ کی تاسیس کا ہدف اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے اور اس کا تختہ الٹنا ہے اور دھقانی کی مسلح جدوجہد کے ذریعے ایک مارکسسٹ حکومت کا قیام عمل میں لانا ہے۔

کوملہ نے حتی مریوان میں پیش آںے والے ۱۴ جولائی ۱۹۷۹ کے حادثے، عوام کو فوج کے حملوں سے ڈرا کر شہر خالی کروانے اور انہیں قسی القلب ہونے کا الزام دینے سمیت شیر خوار بچوں کے لاشوں سے مورچے بنانے جیسے قبیح اقدامات بھی انجام دیئے۔

سن ۱۹۸۱ میں عبداللہ مھتدی کو کوملہ کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مسلح جدجہد پر تاکید کی۔ اس سال کوملہ نے اپنے زیر اثر علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کا قتل کرنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی چیک پوستوں پر قبضے اور اسلحہ اور ایمیونیشن خفیہ ٹھکانوں میں چھپانے، کمین گاہیں بنانے، مائین بچھانے، دھماکہ خیز آئی ڈیز لگانے، شخصیات کو اغوا کرنے، دہشتگردی، سرکاری افراد کو یرغمال بنانے، یرغمالیوں کو قتل کرنے سمیت دیگر مذموم سرگرمیاں انجام دے کر علاقے میں نا امنی کو فروغ دیا۔

ادھر اسلامی جمہوریہ ایران کے مجاہدین کو کوملہ کے خلاف مسلسل کامیابیاں مل رہی تھیں، مختلف شہر کوملہ عناصر سے پاک کئے جارہے تھے اور سرحدوں کی بندش کے بعد کوملہ نے اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کرکے گوریلا حملے شروع کردیئے۔ سن ۱۹۸۱ میں کوملہ کے خلاف مشہور و معروف عباس کردآبادی آپریشن انجام دیا گیا۔

سن ۱۹۸۱ میں سید الشہداء گیریژن کی تشکیل کے بعد کردستان میں نسبتا امن قائم ہوگیا اور کوملہ عراق فرار کرگئے۔ کوملہ نے ۱۹۸۳ میں ایک بار پھر موصلاتی ٹاورز کو تباہ کرنے، بم دھماکے، آئی ڈیز لگانے، اور شخصیات کی تارگٹ کلنگ کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کیا۔ سیدالشہداء گیریژن نے سارال اور خورخورہ جیسے علاقوں کو کوملہ عنصر سے پاک کرنے کے لئے کامیاب آپریشن کیا لیکن افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے دیہاتوں میں اپنے بیرکس بنانے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے کوملہ عناصر واپس پلٹ آئے۔

ان دنوں کوملہ اور ڈیموکریٹک پارٹی میں اتحاد کے بعد دوبارہ اختلافات شروع ہوگئے جس کا نتیجہ قتل و غارت گری پر ختم ہوا۔

کوملہ نے عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کردستان کے شہر حلبچہ پر عراقی بمباری میں اس کی مدد کی اور عملی طور پر عراق کی حمایت کا اظہار کیا۔ جس کے بعد عراقی حکومت نے کوملہ کی بے پناہ مالی اور اسلحہ جاتی مدد کرنا شروع کردی جس کی وجہ سے کوملہ نے ایک بار پھر ایران میں اپنی دہشتگردانہ سرگرمیاں تیز کردیں۔ عراقی حکومت کوملہ کی مدد کررہی تھی جس کے بدلے کوملہ اسلامی جمہوریہ ایران سے اطلاعات جمع کرکے عراق کے حوالے کررہے تھے۔

سن ۱۹۹۱ میں کوملہ تحریک مزید کمزور ہو کر دو حصوں میں بٹ گئی جس کے بعد اصلی ترین عراق یورپ اور عراق فرار کر گئے۔ لیکن عراق میں انکی سرگرمیوں کی وجہ سے فروردین ۱۳۹۰ میں سلیمانیہ کے عوام نے انکے خلاف مظاہرے کئے اور انہیں عراق سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کردیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 2176


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
ریڈ کراس اور سید علی اکبر ابو ترابی کا واقعہ

بیرک نمبر 13

معمول کے مطابق قیدی صفیں بنا کر اپنی اپنی بیرکس کی کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے. ہماری گنتی بھی کلینک میں ہوئی. فوجی کیمپ سے نکل کر اپنے ہیڈ کوارٹر چلے گئے. اچانک کیمپ پر ایک خوفناک خاموشی چھا گئی. تھوڑی دیر بعد عراقی لوٹ آئے.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔