تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – پانچویں قسط
مجتبیٰ الحسینی
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی
2019-9-18
۶۔ شیعوں کو جبری طور پر ایران روانہ کرنا
عراق کی بعثی حکومت نے سن ۱۹۸۰ء میں عراقی ہزاروں گھرانوں کو اس بہانے سے کہ اُن کی اصلیت ایرانی ہے اور وہ عراق میں ہونے والی متعدد تخریب کاریوں میں ملوث ہیں، ایران جلا وطن کردیا۔ یہ جلا وطنی جس قساوت قلبی اور درندگی کے ساتھ انجام پائی اُس کی مثال کم ملتی ہے۔ بہت سے بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اُن کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا۔ پھر خواتین، بوڑھے مردوں اور بچوں کو کچھ فوجی گاڑیوں پر بٹھا کر ایرانی سرحدوں کی طرف لے جایا گیا اور وہ ایران کے اندر پیدل جانے پر مجبور تھے۔ اُن کے جوان بھی جیلوں میں چلے گئے۔ اس طرح سے گھرانوں کے بعض افراد عراق میں اور کچھ دوسرے افراد ایران میں مقیم ہوگئے۔ اُس موقع پر عفلقی (الفباء) میگزین نے یہ موٹی ہیڈنگ لگائی: "ایرانیوں کی جلا وطنی پر انقلاب کا انسانی اقدام "! ان "عراقی باشندوں" کے آباء و اجداد دسیوں سال قبل عراق میں پیدا ہوئے تھے، وہ بھی اُن دنوں میں جب عراقی نامی کوئی حکومت نہیں تھے، بلکہ ایک ایسی سرزمین تھی جو کبھی صفویوں اور کبھی عثمانی کے زیر تسلط رہا کرتی تھی۔ اور آج یہ "ایرانی باشندے" عراقی تشخص اور شناختی کارڈ رکھتے ہیں، لیکن ان کے فرزندوں کو عراق کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ، یا یہ کہ ایران کے ساتھ لڑنے کیلئے جنگی محاذ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے کہ اُن میں سے بہت سے ایران میں عراقی اسیروں کے کیمپ میں اور اُن کے جلا وطن ہوجانے والے گھر کے دوسرے افراد ایران کے شہروں میں ہیں۔
اس کے مقابلے میں، بعثی حکومت نے اُن اصلی عراقی یہودیوں کو جنھوں نے چار سال پہلے نہ چاہتے ہوئے اپنے ملک کو ترک کیا تاکہ اسرائیل نامی حکومت بناکر فلسطین عوام کے جبڑوں پر فشار ڈال کر– کہ صدام اور اُس کی پارٹی نے اُن کی مظلومی پر مگرمچھ کے آنسو بہائے – حصہ دار بنیں، اُنھیں دوبارہ عراق آنے کی اجازت دی گئی۔ دوسری طرف سے ان یہودیوں کی زمینیں اور جائیدادیں آج تک عراق کے " غیر منقولہ جائیداد کے ادارے میں" محفوظ ہیں اور کسی کو ان کی خرید و فروش کا حق نہیں ہے۔ لیکن عراق میں شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی جائیدادیں بعثیوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہی ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ جرم اور اس طرح کے دوسرے جرائم دنیا والوں کی آنکھوں سے دور رہے ہیں اور انسان دوستی اور حقوق بشر کی حمایت کا نعرے لگانے والی تنظیمیں ان جرائم سے چشم پوشی کرتی ہیں۔ البتہ بین الاقوامی تنظیموں کی یہ خاموشی اور بے تفاوتی پر کوئی تعجب نہیں ہے، کیونکہ یہ جرائم اور جنایات براہ راست مغربی منصوبہ بندی اور اُن کے حکم سے ہوتی تھی اور ہوتی ہے جو ان تنظیموں کے سربراہ اور مالک ہیں اور اُن کا مقصد صرف عراقی شیعوں کو سرکوب کرنا اور ایران کیلئے اقتصادی اور اجتماعی مشکلات کھڑی کرنا ہے اور عراقی باشندوں کو ایران جلا وطن کرکے انھیں ڈرانا مقصود ہو کیونکہ وہ حکومت کے مقابلے میں کسی تحریک کو نہ چلائیں۔
۷۔ انقلاب اسلامی کے خلاف نفسیاتی اور پروپیگنڈہ کی جنگ
یہ ذمہ داری وزارت نشر و اشاعت کو سونپی گئی جو ملک کے تمام تبلیغاتی میڈیا جیسے نشریات، ریڈیو – ٹیلی ویژن، مطبوعات، تھیٹر اور سینماؤں پر نظر رکھتی ہے۔ عراق میں تبلیغاتی اور سیاسی منظر نامےے پر بعث پارٹی کی آواز کے علاوہ کوئی اور آواز کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ خود صدام نے خاص توجہ کرتے ہوئے اس وزارت کیلئے ایک بہت بڑا بجٹ مختص کیا تاکہ اس طریقے سے حکومت کے سیاسی اہداف کو پہلے سے ہی عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ یہ بات کہنے کے قابل ہے کہ اس وزارت نے عمومی افکار کو فریب دینے کیلئے اہم کردار ادا کیا اور لکھاریوں، خبر نگاروں، فنکاروں اور شعراء کی ایک بڑی ٹیم بنائی اور انھوں نے بھی بہت زیادہ پیسے لیکر اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو حکومت کے اہداف کیلئے جمع کرلیا۔ ان نوکروں کی کارکردگی کا محور صدام کی تعریف اور اس عنوان سے تعارف کروانا تھا کہ یہی وہ شخصیت ہے جو رہبری کیلئے شائستہ، شجاعت اور وطن پرستی کا نمونہ ہے کہ عراق اُس کے بغیر اپنی زندگی کی سانسیں جاری نہیں رکھ سکتا۔ وزات نشرو اشاعت کی نمایاں ترین کارکردگیوں کی نیچے خلاصتاً وضاحت دی جاسکتی ہے:
الف۔ نغمے اور ترانے
ملکی اور غیر ملکی شعراء اور گلوکاروں کی مشارکت سے صدام کی تعریف و تمجید میں ترانے اور نغمے تالیف ہوئے۔ کچھ لوگوں نے صدام کی تعریف میں غزلیں گائیں اور کچھ لوگوں نے اُسے الوہیت کے مقام تک پہنچا دیا! یہاں تک کہ ریڈیو کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ صدام سے مربوط تمام نغمے اور ترانے نشر کرسکے۔
ب۔ صدام کی زندگی کے بارے میں فلم بنانا
صدام کی زندگی سے متعلق اُس کے پیدائش سے لیکر اُس کے قدرت حاصل کرنے تک ایک فلم بنائی گئی۔ یہ فلم ایک بعثی فرد جس کا نام "تحسین معلہ" تھا، کے اسکرپٹ کی بنیاد پر بنائی گئی جسے "روزھای طولانی" کا نام دیا گیا، جو بیہودہ مادی وسائل اور تبلیغاتی میڈیا چینل کے تعاون سے بھرپور تھی اور اسے عراق کے تمام سینماؤں میں دکھایا گیا۔ پارٹی کی طرف سے جو دستور صادر ہوا اُس کی بنیاد پر بعثیوں کیلئے واجب تھا کہ وہ اس فلم کو دیکھنے کیلئے سینماؤں میں جائیں۔ اسی طرح "قادسیہ" کے عنوان سے ایک اورفلم بنائی گئی۔ اس فلم میں قادسیہ کی جنگ جس میں صدر اسلام کے مسلمانوں نے، سرزمین فارس کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا ، دکھایا گیا ہے، لیکن اس میں واقعات کو اس طرح دکھلایا گیا ہے کہ جیسے جنگ عربوں اور ایرانیوں کے درمیان ہوئی ہو اور عربوں نے اپنے دشمن کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرلی ہو۔ یہ تاریخی تبدیلی عرب مورخین کی طرف سے اور صدام کی درخواست پر انجام پائی اور تبلیغاتی چینلز نے اس طرح کی فلمیں بناکر کہ جس پر عراق کے ملینز دینار خرچ ہوتے تھے، اس بات کی کوشش کی کہ ملت عراق کے قومی احساسات کو ابھارا جائے۔ ان فلموں کو بنانے کا اصلی مقصد صدام کی تعریف و تمجید کرنا تھا کہ اُس نے ایک عرب رہبر کے عنوان سے عربوں کی ایرانیوں کی نسبت نسل پرستی کی حس کو زندہ کردیا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔
صارفین کی تعداد: 3658
گذشتہ مطالب
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز
- امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری
- مراجع کرام کا قم سے نجف پیغام بھیجنے کا طریقہ
- نوجوان دوشیزہ نشان عبرت بن گئی
- اس آدمی کا پیچھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟