شہید محمد جواد تندگویان کی اہلیہ

بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2

انتخاب: فریبا الماسی
ترجمہ: سید ضمیر رضوی

2025-2-18


انجینیئر تندگویان اہواز سے تہران منتقل ہوگئے۔ انہیں وزارت کا عہدہ سنبھالنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ اس دوران ان کے اخلاق اور کردار میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کے کمرے کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا تھا اور وہ اپنے فرائض پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے انجام دیتے تھے۔ ان نئے حالات میں وہ اپنے گھر والوں پر سختی کرتے تھے۔ وہ سختی سے اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کے گھر کا کوئی فرد یا کوئی عزیز، بیت المال کو ذاتی طور پر استعمال نہ کرے اور عوام کے پیسے کو ضائع نہ کرے۔ وہ دفتر کی گاڑی کو اپنے نجی کاموں کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کے لیے اس نئے ماڈل کی گاڑی کو استعمال کرنا دشوار تھا اور اکثر وہ اپنی ذاتی پیکان(گاڑی) سے ہی آفس جاتے تھے۔ کبھی کبھار جب ان کا ڈرائیور انہیں لینے آتا تھا اور ان کی کوئی ضروری میٹنگ ہوتی تھی اور ڈرائیور گاڑی آہستہ چلا رہا ہوتا تھا تو وہ اس سے کہتے تھے:

         ’’مجھے گاڑی چلانے دو، کیونکہ میں اپنی میٹنگ میں وقت پر پہنچنا چاہتا ہوں۔‘‘

ان دنوں جنگی حالات کی وجہ سے محمد جواد نے ادارے میں ایک مرکز قائم کرلیا تھا اور وہ راتوں کو اس مرکز میں ہی رکتے تھے۔ وہ دوسروں کی چھٹی منظور کرتے تھے لیکن خود کم ہی چھٹی لے کر آتے تھے۔ نتیجتاً مجھے کہنا پڑے گا کہ زندگی کی زیادہ تر ذمہ داریاں میرے کندھوں پر آگئیں تھیں اور میرے بچے راتوں کو بھی اپنے والد کو نہیں دیکھتے تھے، البتہ اب انہیں ان حالات کی عادت ہوچکی تھی۔ جن راتوں کو وہ گھر آتے تھے تو معمولاً بچے سو چکے ہوتے تھے۔

حالات دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے تھے اور انجینیئر تندگویان، حالات کی سنگینی کو بخوبی سمجھ پا رہے تھے، لیکن ان حالات میں بھی وہ اپنی زوجہ کے لیے فکرمند تھے، کیونکہ ان کی جوان زوجہ لگاتار تین مرتبہ حاملہ ہوچکی تھیں اور بچے پیدا کر چکی تھیں اور اسی لیے ان کا ماننا تھا کہ ان کی زوجہ کو اپنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، جب انجینیئر تندگویان کو جنوب جانا تھا تو جانے سے پہلے انہوں نے اپنی زوجہ سے کہا تھا:

                    ’’میں نے منت مانی کہ اب مزید ہمارے بچے نہیں ہوں گے!‘‘

جب ان کی زوجہ نے حیرت سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب میں کہا:

’’چونکہ بچے یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے آپ کمزور ہوگئی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال آپ کے لیے مشکل ہے۔ اب سے میں منت مانتا ہوں اور جب میں جنوب سے واپس آؤں گا تو بھیڑ کی قربانی کروں گا۔‘‘

 اس دن اس مختصر سی گفتگو کے بعد انجینیئر تندگویان نے بہت عام انداز میں اپنی بیوی اور بچوں کو الوداع کہا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ حال ہی میں انہیں وزارت کی اپنی پہلی تنخواہ ملی تھی، انہوں نے کسی سے کچھ کہے بغیر اسے اپنے کپڑوں کی جیب میں رکھ دیا تھا تاکہ وہ گھر میں ہی رہے، اور اس میں سے انہوں نے اپنے لیے صرف تین سو تومان نکال لیے تھے۔ گویا انہیں اپنے اس سفر کے طولانی ہونے کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم تھا۔ گویا وہ جانتے تھے کہ ان کی طویل غیر موجودگی کے دوران اہل خانہ کو ان پیسوں کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن، محمد جواد کے دوست، علی اصغر لوح نے ان کے گھر پر فون کیا اور ان کی زوجہ سے پوچھا:

                             ’’مسز تندگویان، آپ نے خبر سنی؟‘‘

مسز تندگویان کو بغیر کسی تمہید کے اس قسم کا سوال سن کر بہت تعجب ہوا، انہوں نے پوچھا:

                                        ’’کیسی خبر؟‘‘

انہوں نے بتایا: ’’انجینیئر تندگویان کو گرفتار کرلیا گیا ہے!‘‘

’’انجینیئر تندگویان کی گرفتاری کی خبر مجھے، علی اصغر لوح صاحب نے فون پر دی۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے جانے سے پہلے، ہم سب نے ان سے کہا تھا کہ اس بار وہ اس پوسٹنگ پر نہ جائیں۔ ہمارے اردگرد کے بہت سے لوگوں ۔دوستوں اور جاننے والوں۔ نے ان سے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ اس بار انہیں گرفتار کرلیا جائے، لیکن جواد نے کسی کی نہیں سنی۔

آخر میں انہوں نے اپنا کام کیا۔ وہ چلے گئے اور جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہی ہوا۔ اس حادثے کے بعد ہم پریشان تھے اور ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پہلے ہم نے کوشش کی کہ شاید ان کی کوئی خبر مل جائے۔ شاید کوئی ایسا مل جائے جو کسی طرح انہیں دشمن کے چنگل سے نکال لائے۔ سادات صاحب سے خبر ملی کہ سرحد پر موجود فورسز نے ڈاکٹر چمران سے رابطہ کرکے ان سے مدد مانگی تھی۔ ڈاکٹر چمران نے بھی فوراً اپنی فورسز کو اکٹھا کرکے انہیں روانہ کردیا تاکہ اس سے پہلے کہ وہ محمد جواد کو سرحد پار لے جائیں، انہیں چھڑایا جاسکے، لیکن جب ڈاکٹر چمران کی فورسز سرحد پر پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ بدقسمتی سے جواد کو عراق منتقل کردیا گیا تھا اور اس طرح سے وہ لوگ بھی ان کے لیے کچھ نہیں کر پائے۔‘‘

جب محمد جواد کے گھر والوں تک ان کی کوئی خبر نہ پہنچی تو وہ مزید پریشان ہوگئے۔ وہ دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ شاید وہ ان کے لیے کچھ کرسکیں اور جواد کے دوست، سادات صاحب بھی ان کی مدد کر رہے تھے۔ وہ ایرانی اور غیرملکی حکام کو خطوط لکھتے تھے اور اس معاملے کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے صلیب احمر سے بھی مدد طلب کی۔۔۔

’’ہم نے صلیب احمر سے بھی مدد طلب کی کہ شاید وہ قید میں محمد جواد سے ملاقات کرسکیں اور ان کی کوئی قانونی خبر ہمیں دے سکیں۔ سادات صاحب خطوط تیار کرتے تھے اور میں، بوشہری صاحبہ اور یحیوی صاحبہ ان پر دستخط کرتے تھے اور حکام کو بھیجتے تھے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے کچھ میٹنگز بھی ہوئیں جن میں ہم بھی موجود تھے اور ہم نے اپنے مطالبات پیش کیے، لیکن ان میٹنگز کے نتائج زیادہ مطلوبہ اور تسلی بخش نہیں تھے۔ اس سب کے باوجود، ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا تھا۔ ہم مایوس نہیں ہوئے۔ سن 1986(1365) میں، ہم صلیب احمر اور انسانی حقوق کے سربراہان سے ملاقات کے لیے جنیوا گئے۔ یہاں تک کہ ہم آسٹریا کے وزیر اعظم سے بھی ملنے گئے اور اس ملک کے حکام سے مدد کی درخواست کی۔ ان تمام سربراہان نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور تعاون کی یقین دہانی کرائی، لیکن پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔۔۔

انجینیئر تندگویان کی گرفتاری کے پہلے ہی سال ان کی بیٹی سمیہ ہدیٰ پیدا ہوئی۔ وہ بہت دلکش اور پیاری لڑکی تھی، اور اس کی والدہ بھی اس کا ویسے ہی خیال رکھتی تھیں۔ جب سمیہ ہدیٰ کچھ ماہ کی تھی تو وہ لوگ روس کے سفارت خانے کے سامنے ایک گھر میں رہتے تھے۔ ایک تین منزلہ گھر کہ جس کی ہر منزل پر تین رہائشی اپارٹمنٹ تھے۔ ایک دن، صبح سویرے ان کے گھر کے سامنے کھڑی بلیزر(گاڑی) دھماکے سے اڑ گئی۔ منافقین نے گاڑی میں ٹی این ٹی(دھماکہ خیز مواد) نصب کردیا تھا۔ اس وقت تندگویان، یحیوی صاحب اور آیت اللہٰی صاحب کے گھر والے اسی گھر میں رہتے تھے۔ گھر میں آگ لگ گئی اور گھر کا سامان ایک ایک کرکے جل کر پھٹنے لگا۔ مسز تندگویان جو بچوں کو دھماکے کے خطرے سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، انہوں نے مجبوراً سمیہ ہدیٰ کو کھڑکی سے باہر ایک پڑوسی کی گود میں پھینک دیا، مریم اور ہاجر کو گود میں لیا اور تیزی سے گھر سے باہر کی طرف بھاگیں۔ اس دن مہدی اپنی دادی کے گھر پر تھا۔ در حقیقت جب سے ہدیٰ پیدا ہوئی تھی تو بچوں کی دادی نے اپنی بہو سے کہا تھا:

’’تم لوگ اکیلے ہو، بہتر ہوگا کہ مہدی ہمارے پاس رہے تاکہ تم بچوں کا خیال رکھ سکو۔‘‘

خوش قسمتی سے اس حادثے میں کسی کو کچھ نہیں ہوا اور سبھی لوگ، دھماکے میں محفوظ رہے۔

اب جنگ ختم ہوچکی تھی اور قیدیوں کی رہائی کا وقت آچکا تھا۔ مسز تندگویان چونکہ انجینیئر تندگویان کے اخلاق و عادات سے بخوبی واقف تھیں، اسی لیے وہ اندازہ لگا سکتی تھیں کہ محمد جواد اتنی جلدی واپس نہیں آئیں گے۔ جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ نہیں آئیں گے۔

’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے۔ اب ہم انتظار کرتے کرتے تھک چکے تھے۔ صلیب احمر کی فورسز نے بھی انہیں نہیں دیکھا تھا اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان کے وطن لوٹنے کی باری کب آئے گی۔ آنے والے قیدی بتا رہے تھے: ’’ہم نے انجینیئر تندگویان کو سن 1986(1365) تک کلینک اور چہل قدمی میں دیکھا تھا۔۔۔‘‘ تو ہمیں بھی امید تھی کہ وہ زندہ ہیں اور ایک دن وہ گھر لوٹ آئیں گے۔۔۔

انجینیئر تندگویان کے گھر والے اسی طرح پرامید تھے۔ اس بات کی امید میں کہ ان چند سالوں کے بعد وہ زندہ بچ گئے ہوں گے اور گھر لوٹ کر آسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ انجینیئر بوشہری اور انجینیئر یحیوی بھی رہا ہوگئے۔ مسز تندگویان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اسی لیے انہیں ان دو افراد کی رہائی کی خبر نہیں دی گئی۔ سب کو اس بات کی فکر تھی کہ اگر مسز تندگویان نے یہ دیکھا کہ محمد جواد، ان دونوں کے ساتھ نہیں ہیں، تو ان کی حالت مزید خراب ہوجائے گی۔

سن 1991(1370) میں خبر آئی کہ عراقی حکام کا کہنا ہے کہ انجینیئر تندگویان زندہ نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے خودکشی کرلی ہے اب وہ کہہ رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ مسز تندگویان نے اعتراض کیا اور کہا:

’’یعنی حکومت کو اس واقعے کے حقایق جاننے اور درست شواہد اکٹھا کرنے کے لیے کوئی وفد عراق نہیں بھیجنا چاہیے؟‘‘

 آخرکار، صلیب احمر، فرانزک ڈاکٹر، وزارت خارجہ، صلیب احمر اور قیدی تحفظ کمیشن کے نمائندوں، اور انجینیئر تندگویان کی زوجہ کے والد اور بھائی پر مشتمل ایک وفد عراق گیا۔

اس بار، انجینیئر تندگویان کی زوجہ نے اپنے شوہر کا جسد خاکی ایران لائے جانے کے بعد بہشت زہرا(قبرستان) میں ان کا چہرہ دیکھا۔ اب ان کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا۔ وہ محمد جواد سے پوچھنا چاہتی تھیں:

’’مجھے بتاؤ، ان بچوں کا کیا ہوگا؟‘‘

لیکن گویا اس سوال کا جواب، محمد جواد کی جانی پہچانی آواز میں بار بار ان کے ذہن میں گھوم رہا تھا۔ جیسے محمد جواد اپنے اسی حسب معمول  مہربانی والے لہجے میں آہستہ سے، ایک باپ کی طرح کہہ رہے تھے:

’’بیٹیوں کا خیال رکھنا، بس اتنا ہی!‘‘

والدہ، ایک تنہائی اور دکھوں سے لبریز قلب کے ساتھ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، کیونکہ ماں کی ممتا جو ان کی آگے بڑھنے میں مدد کر رہی تھی، کے علاوہ انہیں یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ بچے وہ قیمتی امانتیں ہیں کہ جنہیں ان کے شوہر نے انہیں سونپا ہے۔ وہ انمول نشانیاں، جن کا والد کی غیر موجودگی میں، انہیں بہت اچھے سے خیال رکھنا تھا۔ اب جب بھی مسز تندگویان اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھتی تھیں، تو ان کا دل ہلکا ہوجاتا تھا۔۔۔[3]



 
صارفین کی تعداد: 55


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

زبانی تاریخ کا مستقبل کیا ہوگا؟

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لوگوں کے تجربات کے مطالعے کا عمومی لگاو اور آج کل کے حالات سے گزشتہ واقعات کے تعلق سے آگاہی کی خواہش اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کا اہمیت حاصل کرلینا، اسی طرح سے زبانی تاریخ کی ایک تحقیقاتی ذریعے کی حیثیت سے محفوظ رکھے گا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔