قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھے
مجھے گرفتار کر کے اسی افسر کے پاس لے گئے اور اس کے حکم پر مجھ پر تشدد کیا۔ وہ مجھے لٹا کر میری ٹانگوں پر کوڑے برساتے اور پھر اس لیے کہ میری ٹانگوں پر سوجن نہ آئے، مجھے بھاگنے کو کہتے؛ زمین بھی ریتلی تھی، میں ٹانگوں کے اس درد کے ساتھ بہت مشکل سے بھاگ پاتا،
نوریاب واپسی اور والدہ کی تمنا کا پورا ہونا
اکتوبر 1976 کے آغاز میں، میں عارضی طور پر نوریاب میں ٹھہر گیا۔ سب سے پہلے، میرے دماغ میں دو چیزیں چل رہی تھیں دو انتخاب؛ خدمت(ملازمت) کی جگہ اور زوجہ کا انتخاب۔ پہلے انتخاب میں، میں تردد کا شکار تھا کہ اپنے آبائی گاؤں نوریاب میں ہی رک جاؤں اور نماز جماعت اور نماز جمعہ پڑھا کر لوگوں اور اپنے گاؤں والوں کی خدمت کروں یا کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔
نوریاب میں کوئی مستقل، امام مسجد نہیں تھا۔ جناب خلیفہ محمد
وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے کہ یہ جوان جو نئے نئے جیل میں آئے ہوتے تھے وہ ان کے قابو میں اور زیر تسلط آ جاتے۔ لیکن اگر ان جوانوں کو ہم سے رابطہ کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے اور بعض مسائل پر ہم سے ہماری رائے جاننے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے
’’جب میں دوسری بار گھر لوٹا تو حامد بڑا ہوچکا تھا اور بیٹھنے لگا تھا۔ تیسری بار وہ گھٹنیوں چلنا سیکھ رہا تھا۔ آخری بار جب میں جنوب اور سنندج سے واپس آیا تو حامد باآسانی گھٹنیوں چل رہا تھا۔ جب میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھ سے دور بھاگ گیا۔
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے
افسران، جیل کے محافظوں، اور کیمپ کے اہلکاروں نے جو چاہا وہ ان قیدیوں کے ساتھ سلوک کیا اوریہ لوگ کسی اصول، قانون یا بین الاقوامی ضابطے کے پابند نہیں تھے۔
اور کتاب تفسیر المیزان کی تو آپ بات ہی نہ کریں ، جتنی بڑی گالیاں اس کتاب اور اس کے مصنف کو دے سکتے تھے دیتے تھے ، اس کتاب میں سے کوئی بھی بات پکڑ لیتے اور تنقید کرتے ہوئے کہتے کہ یہ شخص بھلا مفسر ہے؟! ایک مفسر بھلا ایسی گھسی پٹی بات کر سکتا ہے؟! مختصر یہ کہ انہوں نے جوانوں کو ان کتابوں کے خلاف اکسانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ وہ کسی کو یہ کتابیں پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں دیتے تھے
انہوں نے منطقی بات کی اور کہا کہ"اس صورتحال اور اس قسم کی خبروں سے ہم یہاں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے، ہم دوسرے ملک میں ہیں،یہاں اجنبی ہیں، جو فیصلہ بھی طے ہوگا سب مل کر ہی اس پر عمل درآمد کریں گے"۔
واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا: "اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"
ایک ماہ کے دوران، جب یہ پل کارون پر موجود تھا، روزانہ عراقی طیارے بمباری کے لیے آتے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے؛ اس بات سے بے خبر کہ ہم صرف رات کو پل استعمال کرتے تھے۔ جب دن نکلتا، ہم پل کو بکسل کیبل سے اپنے کنارے کھینچ لیتے اور کارون کے گھنے نباتاتی پردے میں چھپا دیتے۔ اس طرح، پورے آپریشن کے دوران، عراقی پل کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھے
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔