"بتول قیومی" سے گفتگو

"خرم شہر" کی آزادی کی مٹھائی کے پیسوں سے ہم نے آپریشن تھیٹر کے کپڑوں کا انتظام کیا

گفتگو اور ترتیب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: ضمیر رضوی

2020-10-28


آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران جب مرد فرنٹ لائن پر دشمن سے لڑ رہے تھے تو خواتین گھروں، مسجدوں اور مذہبی اور ثقافتی مراکز میں جمع ہوتی تھی اور مجاہدین کے لیے اناج، کپڑے اور دوسری ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کرتی تھیں۔ "کاشان" کے گاؤں "قھرود" کی پیدائشی بتول قیومی (عرف شعبانی) بھی انہی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے 8 سال کے دفاع مقدس کے دوران مجاہدین کی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کرنے کے لئے بہت کوششیں کی تھیں اور بہت ساری خواتین کو صوبہ تہران میں اپنے ساتھ اکٹھا کیا تھا۔ "زبانی تاریخ ایران" کی ویب سائٹ نے ان کا انٹرویو لیا تاکہ وہ ان سالوں کے بارے میں بتائیں۔

 

آپ نے محاذ کی امداد کے لئے کب سے کام شروع کیا؟

جب جنگ شروع ہوئی اور عراقی ہوائی جہازوں نے مہر آباد ایئرپورٹ پر حملہ کیا تو اس وقت میں اپنی بیٹی کے اسکول گئی ہوئی تھی، میں نے پرنسپل اور اساتذہ کو روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے جنگ شروع ہوگئی ہے اور ہماری قسمت پھوٹ گئی ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی اور کہا: " ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔"  میں گھر آئی اور میں نے اپنے گھر کو محاذ کی امداد کا ایک مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت میں بسیج کا بھی حصہ تھی۔ میں خاوران روڈ کے آخر میں واقعی مالک اشتر بیس گئی تاکہ دیکھو کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے وہاں کے انچارج سے پوچھا: " آپ لوگوں کو کن چیزوں کی ضرورت ہے؟"

اس نے کہا: " مربہ، چینی، سوکھی روٹی اور کھانے پینے کا سامان جو محاذ پر بھیجا جاسکے۔"

ہمارا گھر "ایئرفورس" روڈ پر تھا۔ شاہراہ "ابوذر" کی ابتدا سے دوسرے پل تک کے لمبے راستے تک میں پیدل جاتی تھی اور محلے والوں کے دروازوں پر جا کر ان سے پوچھتی تھی آپ کے پاس چینی ہے؟

اس محلے کی خواتین مجھے جانتی تھیں اور میری مدد کرتی تھیں، ہم اپنے گھر میں مربہ بناتے تھے۔ لوگوں کی عطیات اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ ہمارے گھر کا صحن اور کمرے چینی سے بھر گئے تھے۔

راتوں کو میں ایک دو بجے تک شہید کریم شاہیان کی والدہ(خدا مغفرت فرمائے) کے ساتھ مربہ بناتی تھی۔ ایک دن میں بیس گئی تاکہ دیکھوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ "بنی صدر" فورسز کو ہتھیار نہیں دے رہا ہے ہمیں "مولوٹوف کاکٹیل" بنانے کے لیے کولڈرنک اور لیموں کے رس کی بوتلوں ضرورت ہے، ہم بوتلیں جمع کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ ہماری فورس دشمن کے آگے ٹک سکیں۔ آپ ہمارے لیے بوتلیں جمع کریں لیکن کسی کو بتائیے گا نہیں۔ شاہراہ کے شروع سے دوسرے پل تک میں پیدل جاتی تھی اور خواتین سے کہتی تھی اگر آپ کے گھر میں  بوتل ہیں تو ہمارے گھر پہنچا دیں۔ میں بوتلیں جمع کرتی تھی اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر ہم دوپہر کے کھانے کے لیے ان میں شوربا یا کوئی اور کھانا بھر کر چھ چھ کے پیکٹ بناتے تھے اور اس کے بعد ایک پک اپ ٹرک آتا تھا اور بوتلیں لے جاتا تھا۔

میں نے اتنی بوتلیں جمع کی تھیں کہ میں "بوتل والی خاتون" مشہور ہو گئی تھی۔ ایک دن میں بوتلیں جمع کرنے گئی ہوئی تھی، "کوکاکولا" روڈ جو ہمارے گھر سے بہت دور تھا، سے ایک خاتون آئی، جب اس نے دیکھا کہ ہمارا صحن گندا ہے اور برتن باغیچے کے پاس رکھے ہوئے ہیں تو اس نے برتن دھو دیے اور میرے بچوں سے کہا: " اپنی امی سے کہنا کہ میں رضائے الہی کے لیے تمہاری مدد کرنے آئی تھی لیکن کوئی کام نہیں تھا تو میں نے صحن اور برتن دھو دیے اور چلی گئی۔" مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ پھر میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا کہ میں اس کا شکریہ ادا کرتی۔

 

 آپ کے گھر آنے جانے والی کتنی خواتین تھیں؟

 تقریباً پندرہ سے بیس خواتین۔

 

 آپ کے گھر میں سرگرمیاں کتنے عرصے تک جاری رہیں؟

میں نے دو تین مہینے تک اپنے گھر میں سرگرمیاں انجام دیں اور اس کے بعد سپاہ اور بسیج نے پیروزی روڈ کے شروع میں کرائے پر ایک فلیٹ لیا انہوں نے اسے مرکز میں تبدیل کیا اور ہم سے کہا کہ ہم وہاں آکر کام کریں۔ ہم ایک سال تک وہاں رہے اس کے بعد انہوں نے کہا کہ فلیٹ کا مالک چاہتا ہے کہ ہم فلیٹ خالی کر دیں۔

 

آپ نے اپنی سرگرمیاں کیسے جاری رکھیں؟

 ایک دن مقداد روڈ پر واقع مسجد"حضرت علی (ع)" کے پیش نماز جناب "قدوسی" صاحب نے مجھ سے کہا: " مقداد روڈ پر دوسری چورنگی پر ایک گھر خالی ہے چل کر دیکھ لیں اگر آپ کے کام آئے تو آپ وہاں کام کر سکتی ہیں۔" میں نے وہاں جا کر اس جگہ کو دیکھا۔ وہاں کا ڈرائنگ روم بہت بڑا تھا تقریباً 30 یا  40 میٹر کا تھا۔ میں نے کہا: "اس کا ڈرائنگ روم اچھا ہے لیکن ہمیں ایک دوسرے کمرے کی بھی ضرورت ہے۔" انہوں نے ہمیں ایک اور کمرہ دے دیا اور ہم نے وہاں اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ اب تین مہینے تک آپ یہیں رہیے تب تک ہم کوئی اچھی جگہ ڈھونڈتے ہیں، لیکن مسلط کردہ جنگ کے پورے آٹھ سال تک ہم وہیں رہے۔

 

کیا وہ نجی ملکیت تھی؟

جی ہاں! وہ "عباس محرر" نامی ایک صاحب  کا گھر تھا۔ محرر صاحب ایک مخیر آدمی تھے اور انقلاب سے پہلے شاہ کے خلاف کام کرتے تھے۔

 

جس جگہ آپ اپنی سرگرمیاں انجام دیتی تھیں اس کا کوئی خاص نام تھا؟

 جی ہاں شروع میں اس کا نام زینبیہ تھا لیکن بعد میں ایک خاتون نے خواب دیکھا  اور اس جگہ کا نام مرکز حضرت زہرا (س) میں تبدیل ہوگیا۔

 

آپ وہاں کون سی سرگرمیاں انجام دیتی تھیں؟

ہم وہاں مختلف کام انجام دیتے تھے۔ کپڑوں کی سلائی سے لے کر مربہ اور سینٹری پیڈ بنانے تک۔

ایک بار ہم نے آلو کا بھرتا بنا کر فرج والی گاڑیوں کے ذریعے محاذ پر بھیجا۔ فوج اور سپاہ کے ہیڈکوارٹر نے ایک خط کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ ہم سفرجل اور سیب کا مربع بناتے تھے اور زیادہ تر سفرجل کا مربہ بناتے تھے کیونکہ وہ دیر سے خراب ہوتا ہے اور محاذ پر بھیجتے تھے۔

محرر صاحب بازار سے ایک ٹن خشک میوے لاتے تھے اور ہم پستے، بادام، کشمش اور انجیر صاف کرتے تھے۔ ہم اس میں سے ایک دانا بھی منہ میں نہیں ڈالتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مجاہدین کے لیے ہے اور ہمارے پاس امانت ہے۔ ان کی اہلیہ "بتول محرر" ہمارے ساتھ تعاون کرتی تھیں۔

مختلف مواقع پر ہم مرکز کے بڑے صحن میں ترکاری بناتے تھے۔ ماہ رمضان میں روزانہ روزے کی حالت میں ترکاری بناتے تھے اور بیچتے تھے۔

 

ترکاری کے پیسوں سے آپ نے کون سی چیزیں خریدیں؟

ان پیسوں سے ہم نے محاذ کے لیے تین نیسان ایمبولینسیں خریدیں۔

 

مرکز کے ساتھ تعاون کرنے والی خواتین کتنی تھیں؟

پچاس سے سو کے درمیان خواتین ہمارے ساتھ تعاون کرتی تھیں۔ البتہ یہ بتاتی چلوں کہ خواتین دو طرح سے ہمارے ساتھ تعاون کرتی تھیں کچھ خواتین مرکز میں آکر ہمارے ساتھ کام کرتی تھیں اور کچھ گھروں پر ہی کام کرتی تھیں۔ شاہراہ ابوذر سے ایئر فورس کے دوسرے پل تک کا علاقہ میری نگرانی میں تھا اور ہم منصوبہ بندی کرتے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

 

یہ تعاون کس قسم کا تھا؟

ایک طرف سے مرکز میں سب لوگوں کے آنے کی جگہ نہیں تھی اور دوسری طرف سے کچھ خواتین اپنے حالات کی وجہ سے مرکز میں آکر کام نہیں کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے ہم سے کہہ رکھا تھا کہ اگر ان کے لائق کوئی کام ہو تو وہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسپتال سے کپڑا لایا جاتا تھا تاکہ ہم مجاہدین کے لیے کپڑے سیئیں یا کارخانے سے مفت میں سوت(اون) لایا جاتا تھا تاکہ ہم کردستان اور ٹھنڈے علاقوں میں موجود مجاہدین کے لیے کپڑے، سویٹر اور ٹوپے بنیں۔ ہم سوت کو گھروں میں تقسیم کرتے تھے اور تین دن بعد سویٹر ٹوپے وغیرہ لے لیتے تھے۔

کپڑوں کی سلائی کے لیے پہلے ہم ان خواتین کو کپڑا دیتے تھے جو سلائی جانتی تھیں وہ کٹنگ کرتی تھیں اور پھر گھریلو خواتین سلائی۔ ایک خاتون کے پاس سلائی مشین نہیں تھی تو وہ ہاتھ سے ہی کپڑا سیتی تھی۔

میری ایک دوسری یاد خرم شہر کی آزادی سے وابستہ ہے۔ خرم شہر کی فتح کے کچھ عرصے بعد ایک کمانڈر آیا اور اس نے کہا: " ہم نے تیس ہزار عراقیوں کو گرفتار کیا ہے جن کے پاس نیچے پہننے کے کپڑے نہیں ہیں۔ اگر ہم کپڑا لائیں تو آپ لوگ ان کے لیے نیچے پہننے کے کپڑے سیدیں گیں؟"  میں نے جواب دیا: " میں شہیدوں کی ماؤں اور بیویوں سے نہیں کہہ سکتی کہ یہ لباس آپ عراقیوں کے لیے سی رہے ہیں، اگر کہوں گی تو وہ نہیں سییں گی اور کہیں گی کہ عراقی ہمارے دشمن ہیں ہم ان کے لیے کپڑے سییں؟! میں کہہ دوں گی کہ یہ محاذ کے لیے ہیں۔" اس نے کہا: "آپ تو بہت سمجھدار ہیں." میں نے جھوٹ بھی نہیں بولا بس اتنا کہا کہ یہ محاذ کے لیے ہیں۔ وہ ہمارے پاس ایک ٹرک کپڑا لے کر آئے اور تین دن بعد ہم نے نیچے پہننے کے کپڑے انہیں سونپ دیے۔

 

 آپ لوگ سینٹری پیڈ کیسے بناتے تھے؟

ہمارا ایک دوسرا کام سینٹری پیڈ بنانا تھا۔ پیڈز بنانے کے لیے کام شروع کرنے سے پہلے ہم اپنے ہاتھ صابن سے ضرور دھوتے تھے اور زمین اور اپنے پیروں پر ایک چادر بچھاتے تھے، میں حفظان صحت کے حوالے سے بہت حساس تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جینز کا کپڑا خون جمع کر لیتا ہے۔ میں جینز کی پینٹیں جمع کرتی تھی اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرلیتی تھی، مثال کے طور پر 20×20 سینٹی میٹر کے ٹکڑے کاٹتی تھی اور بلیچ لگا کر اسے حوض میں دھوتی تھی اور پھر انہیں گرم پانی میں کھولاتی تھی تاکہ جراثیم مر جائیں، اس کے بعد انہیں دھوپ میں سکھا کر استری کر دیتی تھی۔ ہم ایک پٹی نیچے رکھتے تھے اور اس پر ایک روئی کی پٹی رکھتے تھے اور پھر ان کو باندھ دیتے تھے۔ میں نے اتنا جینز کا کپڑا دھویا کہ میرے ہاتھوں سے خون نکلنے لگتا تھا۔ میرے دماغ میں نہیں آیا کہ میں دستانے خریدلوں تاکہ بلیچ میرے ہاتھوں کو نقصان نہ پہنچائے۔

 

آپ کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کس عمر کی تھیں؟

میری پیدائش 1957ء کی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی اس وقت میں جوان تھی۔ کئی خواتین میری ہم عمر تھیں اور زیادہ تر مجھ سے بڑی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ میں صرف مردوں کا کردار تھا اور خواتین کا کوئی کردار نہیں تھا، اگر خواتین کا کوئی کردار نہ ہوتا تو جنگ آگے ہی نہ بڑھتی۔ کچھ خواتین اپنے شوہروں اور بچوں کو محاذ پر بھیج دیتی تھیں اور خود محاذ کے پیچھے کام کرتی تھیں۔

شہید "شعرباف" کی زوجہ اور "رضائی" صاحبہ جو شہید کی زوجہ اور تین شہیدوں کی والدہ تھیں، ہمارے ساتھ کام کرتی تھیں۔ کچھ خواتین تو اپنے بچوں کی شہادت کے ایک ہفتے بعد  ہی مرکز لوٹ آتی تھیں اور اپنے کام شروع کر دیتی تھیں۔

 

محاذ کی مدد کے لیے آپ پیسے بھی جمع کرتی تھیں؟

جی ہاں! مئی 1982ء میں جب ہماری فورسز نے خرم شہر کو فتح کیا تو لوگ خوشی میں مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔ میرے پاس ایک ہرا بیگ تھا۔ میں لوگوں کے دروازے پر جاتی تھی اور کہتی تھی اگر آپ خرم شہر کی آزادی کی خوشی میں مٹھائی بانٹنا چاہتے ہیں تو اس کی جگہ پیسے دے دیجیے، آپریشن تھیٹر کے لیے کپڑوں کی ضرورت ہے۔ لوگ دو، چار، پانچ، دس یہاں تک کے پچاس تومان بھی دیتے تھے جو اس وقت بہت زیادہ ہوتے تھے۔ کچھ خواتین اپنا سونا دے دیتی تھیں اور ہم ان کے پیسوں سے کپڑا خریدتے تھے اور آپریشن تھیٹر کے کپڑے سیتے تھے۔

 

محاذ سے متعلق ساری سرگرمیاں مرکز میں ہی ہوتی تھیں؟

جی نہیں! مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ ہم میں سے کچھ خواتین کو تہران کے اسکول کے طلباء کی طرف سے عطیہ کردہ امداد کو چھانٹنے کے لئے  خاوران روڈ پر ایک جگہ لایا گیا۔ یہ امداد بہت زیادہ تھی۔ اسے چھانٹنے میں کئی دن لگے اور ہم بہت تھک بھی گئے تھے۔ میں خود وہ بوریاں اٹھاتی تھی جو آدمی بھی نہیں اٹھاتے تھے ان سالوں میں میں نے اتنا بھاری سامان اٹھایا کہ تیس سال کی عمر میں میری کمر کا آپریشن ہوا۔

ہماری ایک اور سرگرمی "یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی" کے ساتھ کام کرنا تھا۔ محاذ پر کیمیکل گیس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ملک سے بڑی تعداد میں خصوصی انجیکشنز درآمد کیے گئے تھے۔ ہم وہاں گئے اور ہم نے انجیکشن کو چاروں طرف سے دھاگوں میں باندھ دیا تھا کہ جب فوجی انہیں اپنے بیگ میں رکھیں تو وہ نہ ٹوٹیں۔ ایک بار جب ہم وہاں گئے تو ہم نے دیکھا کہ کچھ طلباء نے کسی وجہ سے ہڑتال کر رکھی تھی۔ میں آگے بڑھی اور میں نے ان سے کہا: " محاذ پر جوان شہید ہو رہے ہیں، تم لوگ ان کے خون پر کھڑے ہو!"  طلبہ بغیر کچھ کہے ایک ایک کرکے چلے گئے۔ یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے مجھ سے پوچھا: " آپ نے ان سے کیا کہا کہ وہ لوگ چلے گئے؟! ہم نے ان لوگوں کو منانے کی کافی کوشش کی لیکن ہم کامیاب نہ ہوسکے!"

 

اس زمانے میں منافقین شہروں میں بہت زیادہ سرگرم تھے آپ کا کبھی کسی سے سامنا نہیں ہوا؟

ایک مرتبہ خواتین مربہ بنا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک خاتون آئی جو بہت پردہ کی ہوئی تھی۔ اس نے کہا: "تم لوگ یہاں مربہ بناتی ہو اور محاذ پر جوان اس سے فٹبال کھیلتے ہیں۔" میں نے جواب دیا: " ان کا فٹبال کھیلنا اس سے بہتر ہے کہ عراقی کہیں ایرانیوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے۔ یہ سپاہ کا بجٹ نہیں ہے بلکہ یہ عوام کا پیسہ ہے۔ میں لوگوں سے پیسے لیتی ہوں اور محاذ پر خرچ کرتی ہوں۔"

جو خاتون مرکز کی انچارج تھی انہوں نے مجھ سے کہا: " جانتی ہو یہ کون تھی؟ یہ بیس کی کمانڈر تھی۔ تم نے کیوں اس سے اس طرح سے بات کی؟"  میں نے کہا: "جو کوئی بھی ہو اس نے غلط بات کی میں نے بھی اس کا جواب دے دیا۔"

کچھ وقت بعد بیس کا انچارج آیا اور اس نے کہا: " آپ کیسے جانتی تھیں کہ وہ صحیح انسان نہیں ہے؟!" میں نے کہا: "میں نہیں جانتی تھی!" اس نے کہا: " آپ نے اسے صحیح جواب دیا، وہ منافقہ تھی۔ اس کا شوہر محاذ پر کام کرتا تھا اور وہ خود یہاں بطور کمانڈر کام کرتی تھی!"

 

مرکز میں آپ کا کام کب شروع ہوتا تھا اور کب ختم؟

میں صبح سات بجے سے دوپہر 12 بجے تک مرکز میں ہوتی تھی، پھر میں گھر واپس آجاتی تھی اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی، انہیں کھانا دیتی تھی پھر دوبارہ مرکز چلی جاتی تھی اور رات ساڑھے سات آٹھ بجے تک وہیں رہتی تھی۔

 

آپ ہفتے میں کتنے دن وہاں جاتی تھیں؟

جمعہ کے علاوہ میں روزانہ مرکز جاتی تھی۔ کبھی کبھار جمعہ کے دن مرکز جانے کے علاوہ ہم زخمیوں کو دیکھنے اسپتالوں میں بھی جاتے تھے۔

 

آپ کے شوہر کو آپ کی اتنی سرگرمیوں سے پریشانی نہیں ہوتی تھی؟

میں اپنے روزانہ کے شیڈول کو منظم رکھتی تھی۔ سارے کاموں کو انجام دینے کے لیے میں کم ہی آرام کرتی تھی۔ میں رات کا کھانا پہلے سے تیار کرکے رکھتی تھی تاکہ جب میرے شوہر آئیں تو انہیں کھانا تیار ملے اور وہ یہ نہ سوچیں کہ میں گھر کے کاموں کو چھوڑ کر دوسرے کام کرتی رہتی ہوں۔ میرے پاس واشنگ مشین نہیں تھی تو میں ہاتھوں سے کپڑے دھوتی تھی اور اس کے علاوہ اس وقت آج کل جیسا نہیں تھا کہ ایک دن مرغی کھا رہے ہیں ایک دن مچھلی، بلکہ ہم زیادہ تر سادہ کھانے جیسے دالیں وغیرہ بناتے تھے۔

 

 آپ اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے لیے کوئی ثقافتی یا ترغیبی پروگرام نہیں کرتی تھیں؟

ساری خواتین تنخواہ کے بغیر رضائے الہی کے لیے کام کرتی تھیں۔ ہمیں بجٹ کی طرف سے بھی تنگی تھی کبھی کبھار ہم چھ مہینے میں ایک مرتبہ مثال کے طور پر امام زمانہ (عج) کی ولادت کے جشن کے موقع پر اسکارف یا موزے وغیرہ دے کر خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ کبھی کبھار فوج خواتین کو تحفے دیتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک خاتون کے پاس سلائی مشین نہیں تھی وہ ہاتھ سے سلائی کرتی تھی تو انہوں نے اسے سلائی مشین تحفے میں دی،  ایسا نہیں تھا کہ خواتین ان چیزوں کی طرف توجہ رکھتی تھیں بلکہ وہ صرف رضائے الٰہی کے لیے کام کرتی تھیں۔

 

آپ کی سرگرمیاں کتنے عرصے تک جاری رہیں؟

میں جنگ کے ختم ہونے تک مرکز میں کام کرتی رہی۔ صرف 1984 میں جب اللہ نے ہمیں ایک اور بیٹی دی تو میری سرگرمیاں کچھ کم ہوگئی تھیں۔ اس وقت کہا جا رہا تھا کہ بچے ضرور پیدا کریں۔ یہاں تک کہ حمل کے آخری دنوں میں اور ڈلیوری سے ایک دن پہلے تک میں زخمیوں کے لیے سبزیاں صاف کر رہی تھی۔ جب میری بیٹی تھوڑی بڑی ہوگئی تو میں نے دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کردیں اور جنگ کے ختم ہونے تک امدادی کاموں میں مدد کرتی رہی۔



 
صارفین کی تعداد: 4268


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منجمد گوشت

ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔