جو کام بھی ہوسکے
خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-3-30
دوبارہ بسیج کی رسد پہنچی۔ ہم نے اسے کلاس کے بعد کے لیے مسجد کے کونے میں رکھ دیا۔ خواندگی کی ایک طالب علم نے مشورہ دیا کہ خشک میوہ جات کو ملا کر تھیلیوں میں ڈال دینا چاہیے۔ دوسری نے کہا: ’’اس طرح کسی میں پستے کم ہوں گے کسی میں زیادہ۔‘‘ ہم نے اس مشورے کو قبول کرلیا اور ایک خاتون کو پستے کی گنتی کی ذمہ داری دے دی۔ ہر پیکٹ کا حصہ سات پستے تھا۔ بقیہ خشک میووں کو بھی ہم نے نظروں سے تولا اور تھیلیوں میں ڈال دیا۔ طے پایا کہ اگلے دن سب سوئی دھاگہ لے کر کلاس میں آئیں گے۔
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔
دوسری رسد جو ہم تک پہنچی تھی وہ اونی دھاگے کی تھی۔ ہر کسی نے اپنے پاس موجود وقت اور توانائی کے مطابق اونی دھاگہ لے لیا۔ انہیں اگلے 10 دنوں میں تیار کرنا تھا۔ کچھ خواتین جن کا ہاتھ تیز چلتا تھا انہوں نے مقررہ وقت سے پہلے ہی گرم ٹوپے اور مفلر تیار کرلیے تھے۔ سبھی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو برؤے کار لاکر کام کیا تھا تاکہ ان کا بہترین کام مجاہدین تک پہنچے۔
جب بسیج کی گاڑی تلگرد[3] میں جنگی ترانے چلاتی تھی تو لوگوں کی جتنی بھی استطاعت ہوتی تھی، وہ محاذوں کے لیے امداد دیتے تھے۔ بعض لوگوں کی حیثیت صرف استعمال شدہ کپڑوں کی ہوتی تھی، اسی لیے ہمارے ہفتے میں دو دن استعمال شدہ کپڑوں کو دھونے کے لیے مختص ہوگئے تھے۔ ہم نے پیسے جمع کیے اور کچھ سرف اور صابن خرید لیے۔ جمعرات اور جمعے کو دعائے ندبہ کے بعد ہم مسجد کے صحن میں رک گئے۔ جب مرد چلے گئے تو ہم نے کپڑوں کو تشلوں میں ڈالنا شروع کردیا۔ دھونے کے بعد ہم نے انہیں دھوپ میں ڈال دیا تاکہ وہ اچھی طرح سے جراثیم سے پاک ہوجائیں۔ اگلے ہفتے جمعرات تک کپڑوں کو تہ کرکے پیک کردیا گیا۔[4]
تاریخ شفاهی :: هر کاری که آید (oral-history.ir)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ الرضا مسجد، تلگرد کے دوسرے موڑ پر تھی(راوی)۔
[2]۔ شمس الشموس مسجد، دریا روڈ پر واقع ہے۔ تلگرد، دریا اور آس پاس کے علاقوں کی مساجد میں محاذوں کی حمایت کے جو کچھ بھی جمع ہوتا تھا وہ شمس الشموس مسجد میں اکٹھا کیا جاتا تھا اور وہاں سے محاذوں پر بھیجا جاتا تھا(راوی)۔
[3]۔ مشہد کے طلاب محلے میں واقع ہے۔
[4]۔ منبع: استادی، مریم، خاطرات بانوان آموزشیار نھضت سوادآموزی خراسان، ناشر: راہ یار، 1402، ص 199۔
صارفین کی تعداد: 71








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘
راوی: مولاداد رشیدیدشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

