پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 31
درزیان اور در زیان!
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-2-24
(’درزیان‘ ۔ بغیر فاصلے کے۔ ایک گاؤں کا نام ہے جبکہ ’در زیان‘۔ فاصلے کے ساتھ، کا مطلب ہے خسارے میں)
اپریل 1968(اردیبھشت 1347) میں، کانی میران کے ماموستا ملا رشید کو خیرباد کہنے کے بعد ہم پریشان اور دربدر ہوگئے۔ کچھ طالب علم دوستوں کی رہنمائی پر ہم درزیان[1] گاؤں میں ماموستا ملا مصطفیٰ آلمانہ ای کی خدمت میں پہنچے۔ وہ ایک متواضع اور پرسکون عالم دین تھے۔ ادبیات کی حد تک انہیں صرف اور نحو پر عبور حاصل تھا۔
اپنی جائے پیدائش سے چار ماہ کی دوری کے بعد میں نے اپنی والدہ کو ایک خط لکھا اور آخر میں حسب معمول دستخط کردیے: ’’ آپ کا بیٹا قادر ۔ درزیان‘‘ میری والدہ، خط کو پڑھوانے کے لیے نوریاب گاؤں کے ایک مولانا صاحب کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے خط پڑھا اور کہا: ’’دایہ سلمہ، آپ کے بیٹے کے خط میں ایک جملہ آیا ہے جو تھوڑا پریشان کن ہے۔‘‘
میری والدہ نے گھبرا کر پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
مولانا صاحب نے جواب میں کہا: ’’آپ کے بیٹے نے لکھا ہے کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، لیکن میں در زیان(خسارے) میں ہوں۔ میں نے بہت سوچا لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس در زیان(خسارے میں) کا کیا مطلب ہے!‘‘
پندرہ دن کے بعد، نوریاب سے ایک خط ڈاک کے ذریعے مجھے ملا۔ میری والدہ نے لکھا تھا کہ تمہارا خط ملا اور اسے پڑھ کر میں بہت پریشان ہوئی۔ میرے بچے تم کس مشکل میں ہو؟ کیا ہوا ہے جو تم زیان(خسارے) میں ہو؟ آخر تم نے کون سا سودا کیا ہے کہ جس میں تم نقصان اور زیان(خسارے) میں پڑ گئے ہو؟
جتنا میرے خط نے میری والدہ کو پریشان کیا تھا اور شاید رلا دینے والا تھا، اتنا ہی ان کے لکھے ہوئے جواب نے مجھے ہنسایا اور اسے پڑھ کر میں محظوظ ہوا۔ میں نے جوابی خط میں ان کے لیے وضاحت کی: ’’ ’درزیان‘ ایک گاؤں کا نام ہے کہ جس میں، میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور الحمد اللہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ نوریاب کے ماموستا محترم نے درزیان کا غلط معنی کرکے میری بوڑھی والدہ کو اس قدر ڈرا دیا ہے۔
کچھ وقت گزرا اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ درزیان گاؤں کے مدرس، جناب ماموستا ملا مصطفیٰ کو ادبیات اور صرف و نحو پر عبور حاصل ہے لیکن ان میں اعلیٰ سطح کی کتابوں کی تدریس کی صلاحیت موجود نہیں ہے اور وہ ہماری تعلیم و تدریس کی توقعات کو پورا نہیں کرسکتے، لہٰذا ہم نے درزیان گاؤں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے یہاں وہاں تلاش کیا لیکن علاقے کے دینی تعلیم کے مدارس سے متعلق ہماری چھان بین کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اور ہم نے عراق کے کردستان کی طرف کوچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
صارفین کی تعداد: 279








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘
راوی: مولاداد رشیدیدشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

