تہران یونیورسٹی میں علماء کے دھرنے کے بارے میں آیت اللہ خلخالی کا بیانیہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-11-14
اندر داخل ہونے کے بعد مطہری صاحب کے حکم پر، میں نے دھرنے کا اعلان کر دیا. ہماری رکنے کی جگہ یونیورسٹی کی مسجد تھی. ایک لڑکوں کا گروہ اور ایک لڑکیوں کا گروہ ہمارے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گیا. لڑکے آوازیں لگا رہے تھے: لڑنے والے بھائی! دھرنا، دھرنا. لڑکیاں بھی چلا رہی تھیں: " لڑنے والی بہن! دھرنا، دھرنا. اس دن دوپہر تک وہاں اتنے لوگ جمع ہو چکے تھے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی. دھرنے کے دوسرے دن قرہ باغی اور بدرہ ای کے حکم پر فوج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا. فوجیوں کا ایک گروہ ملٹری ٹرکس کے ساتھ باغ شاہ سے چلا اور یونیورسٹی کے سامنے سے ہوتا ہوا لوگوں کے بیچ سے زبردستی گزرا. وہ سب پوری طرح اسلحے سے لیس تھے. ان میں سے کچھ لوگ رو رہے تھے اور کچھ، لوگوں سے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آخری کالم میں چلنے والے فوجی آپ پر مشین گن سے اندھا دھن فائرنگ کرنا چاہتے ہیں. ایسا ہی ہوا لیکن لوگوں نے میدان نہیں چھوڑا اور جنازوں کو اٹھا کر یونیورسٹی کے اندر لے آئے. رات کے وقت دھرنا دینے والوں نے فیصلہ کیا کہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ایک سیکیورٹی نظام بنایا جائے اور آخرکار اکثریت کی رائے سے اس اہم کام کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی. ہم نے بھی تحفظ کے لیے یونیورسٹی کے آس پاس اور پورے تہران سے بازو بندوں کا انتظام کیا اور ان پر دستخط کیے. خلاصہ کلام یہ کہ حالات دن بدن ہمارے حق میں ہوتے جا رہے تھے. لوگ ہمارے لیے نقد پیسوں سے لے کر کھانے پینے تک کی چیزوں کا بندوبست کر کے یونیورسٹی بھیجتے تھے. ہم کچھ دنوں تک یونیورسٹی میں دھرنے پر بیٹھے رہے اور اس بیچ حاجی مرزا خلیل کمرہ ای صاحب ایک اور عالم دین کے ساتھ وہاں آئے. لیکن ہم نے اور وہاں موجود یونیورسٹی کے طلباء اور لوگوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اسی لیے وہ واپس لوٹنے پر مجبور ہو گئے. یونیورسٹی کے اندر لوگ باری باری تقریر کرتے تھے. ان لوگوں نے میری تقریر کے لیے بھی ایک وقت معین کر دیا تھا. انہی دنوں "جینڈر میری" کا کمانڈر ان چیف، یونیورسٹی کے آس پاس موجود لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا. اس کی پستول ضبط کر لی گئی. وہ ہتھیار آخر تک محمد منتظری کے پاس تھا جو شہید ہو گئے.
منبع: صادق گیوی، محمد صادق، خاطرات آیت الله خلخالی، چ ۲، تهران، نشر سایه، 1379(2000)، ص ۲۷۲-۲۷۳.
صارفین کی تعداد: 70