"رہا شدہ ایرانی قیدی کی یادیں" سے ماخوذ، محسن بخشی
عید کے پروگرامز
انتخاب: فاطمہ بہشتی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-10-27
غنچے کے بغیر، پھول کے بغیر، سبزے کے بغیر اور ہفت سین دسترخوان کے بغیر ایک اور بہار آپہنچی. بہار اپنے ساتھ کوئی تازگی لائے بغیر کیمپ تک آگئی اور اس کے ابتدائی دن تو عید نوروز تھی سو اس کیمپ میں شروع ہو گئی. ہم اس کیمپ میں اپنے پرانے دوستوں کے عید کے موقع پر ہونے والے پروگرامز سے لاعلم تھے. اسی لیے ہم نے پرانے بھائیوں سے مشورہ کیا اور طے پایا کہ ہم عید کی تقاریب منعقد کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کریں گے. دشمن کے ظلم و ستم اور سہولیات کی کمی کے باوجود ہم اس چیز کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ ثقافتی، سماجی اور مذہبی پروگرامز کے انعقاد میں اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں اور اتحاد اور نظم کے قیام کے لیے کسی بھی کاوش سے دریغ نہ کریں. معنی خیز، تعلیمی اور مزاحیہ کے پروگرامز کے بارے میں سوچ بچار کیا گیا.
قرائت، تجوید اور حفظ قرآن کریم، نہج البلاغہ کے مقابلے، کھیلوں کے مقابلے اور بیرک کا دورہ اہم ترین پروگرامز تھے. سال کے پہلے دن بیرک کے نمبردار نے نوروز کی آمد کے موقع پر مبارک باد پیش کرنے کے بعد ساتھیوں کو ہدایات دیں اور اس کے بعد پہلے سے تیار پروگرامز شروع کر دیے گئے.
بیرک کے نمبرداروں نے ساتھیوں سے گزارش کی کہ ان پروگرامز کے انعقاد کے دوران نظم و ضبط، قانونی معاملات اور موقع محل کو مد نظر رکھیں. شہداء کے گھر والوں، جنگ میں بچ جانے والوں اور بیماروں سے ملاقات کے لیے ایک بیرک کا انتخاب کیا گیا اور نئے سال کے پہلے دن نمبرداروں کے تعاون سے بیرک کا ہر فرد ایک ایک کر کے ان عزیزوں سے ملنے گیا. کمروں کو رنگین کمبلوں اور شہداء کی تصویروں سے سجایا ہوا تھا. بیرک کے احاطے میں نگرانی کے لیے کچھ بھائیوں کو تعینات کیا گیا تھا کہ اگر عراقی فوجی یا افسران پہنچ جائیں تو وہ دوسروں کو خبر کر دیں. ملاقات کی تقریب کے دوران بیرک کا نمبردار، مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ کچھ باتوں کی یاد دہانی بھی کروا رہا تھا اور اگر اس کے پاس کوئی معلومات یا خبر ہوتی تھی تو وہ سب کو آگاہ کرتا تھا. یہ ملاقات کیمپ میں زیادہ سے زیادہ اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کا ایک اچھا موقع تھی.
چند دانے کھجور، پانی، چینی اور شربت! مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے بس یہی کھانا پیش کیا جا رہا تھا.
کچھ ساتھیوں کے مزاحیہ لطیفے اور ہنسی مذاق ان الفت اور پاکیزگی کی محافل کی رونق تھے؛ اگرچہ جلاوطنی اور اسارت میں تھے. لیکن کچھ اتنے مزاحیہ تھے کہ جو کبھی بھلائے نہیں جا سکیں گے. اس ماحول میں محبت، پاکیزگی اور وحدت کا ایک الگ ہی مطلب تھا یعنی وہ سچی تھیں اور حقیقت رکھتی تھیں؛ ہر قسم کے کینے اور اختلافات سے دور اور یکجہتی اور روحانیت سے بھرپور ماحول تھا. واقعی میں اس میں کتنی پاکیزگی تھی!
25 تومان ہر قیدی کی مہینے کی تنخواہ تھی. ہمارے ساتھی اس تنخواہ میں سے کچھ پیسے جمع کرتے تھے اور عید اور مذہبی مواقع پر مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے عراقیوں سے کھجور اور چینی خریدتے تھے.
عید کا پانچواں دن بھی گزر گیا اور 26 مارچ کی صبح سورج ہمیشہ کی طرح کیمپ کے بے رونق آسمان کے ایک کونے سے طلوع ہوگیا.[1]
[1] بخشی، محسن، "پشت میله های رمادی"؛ خاطرات اسیر آزاد شده ایرانی محسن بخشی، حوزه هنری سازمان تبلیغات اسلامی، 1372(1993)، ص 56 و 57.
صارفین کی تعداد: 45