گھٹن کے دور میں پندرہ خرداد کی برسی کی تقریب

ترجمہ: محب رضا

2024-6-2


1354ء میں سانحہ خرداد کی پندرہویں برسی کے موقع پر جناب شیخ احمد کروبی  نےچند روز مکتبہ فیضیہ میں قیام کیا ۔ یہاں آپ نے  ہر روز کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر تقریر کی اور پہلوی حکومت کا یزیدی حکومت سے موازنہ کرتے رہے۔ ان کی  یہ تقاریر پندرہ تاریخ تک جاری رہیں۔

پندرہ خرداد کو انہوں نے ایک گرما گرم تقریر کی، یہ تقریر نئے حوادث کے لیے ایک چنگاری تھی۔

اسی سال کچھ افراد کو جیل میں پھانسی دے دی گئی اورکہا یہ گیا کہ وہ فرار ہوتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ ہم نے مذہبی افراد کے لیے فاتحہ خوانی رکھی اور بعدمیں جناب کروبی نے تقریر کی۔ ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ فیضیہ کے اندر مظاہرہ کریں گے۔ آقا نیک آبادی اور شہید سلیمی بہت متحرک تھے۔ ہم باہر جانا چاہتے تھے، مگر مدرسہ زیر محاصرہ  تھا، لہذاٰ ہم واپس  آکر منتشر ہوگئے۔ چونکہ سامنے والا  دروازہ محاصرے میں تھا، اس لیے ہم نےچھت کے اوپر سے نہر والی طرف چھلانگ لگا ئی اور گھر چلے گئے۔ اگلے روز  ہم دوبارہ دروازے  سے  داخل ہوئے اورمظاہرہ شروع  کردیا۔ محاصرہ  مزیدبڑھا دیا گیا  مگر ہم پھر بھی مختلف حیلوں سے باہر نکل گئے ۔ اب اہلکاروں نے کسی کو اندر آنے یا باہر جانے  سے روک دیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر تصادم ہوا تو کیا ہوگا۔ ہمارے افراد میں سے کچھ پہرہ دے رہے تھے اور کچھ علماء اور مراجع کے گھروں کی جانب چلے گئے تاکہ حکومت کے دباؤ کو کم کروا سکیں۔

کچھ دوست سرخ جھنڈا لے کر فیضیہ کی چھت پر گئے  اور شہدا کے امام کی یاد اور نشانی کے طور پر اسے وہاں نصب کردیا، یعنی  پندرہ خرداد کے شہداء کا خون آج بھی جوش مار رہا ہے۔ حکومت نے اس سرخ پرچم  کے نصب کرنے پر ایک چال چلی اورپراپیگنڈہ  شروع کر دیا کہ یہ کمیونسٹوں کے جھنڈے کے ساتھ مظاہرے کر رہے ہیں اور اسلامی مارکسسٹ فیضیہ میں گھس گئے ہیں۔ اس  دلیل کی بنا پر انہیں  پولیس کے حملے کے لیے بہانہ بھی مل گیا  اور آخر کار اسی وجہ سے انہوں نے   متعدد افراد کو گرفتار کیا اور اپنے ہمراہ لے گئے ۔

ہم ان طلبہ کی حمایت میں  علمائے کرام کے گھر گئے۔ ہم نے ایک اعلان کا مسودہ تیار کیا ہو اتھا  جس پر علماء کے دستخط لیے، اسکا متن بہت سخت تھا۔

ہم سطح اول کے علماء کی خدمت میں  بھی گئے۔ انہوں نے بتایا، وہ سب علامہ طباطبائی کے گھر گئے ہیں۔ خود علامہ تھے ، انکے علاوہ آیت اللہ شریعتمداری، آیت اللہ گلپائیگانی، آیت اللہ مرتضی حائری اور آیت اللہ مرعشی نجفی  بھی موجود تھے۔ انہوں نے جلسےکا اہتمام کیا تھا تاکہ مشورہ کرسکیں کہ  جو کچھ ہوا ہےاس کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے۔

ہم نے گفتگو شروع کی کہ آج وہ اسلامی مارکسزم کے نام پر طلبہ کو گرفتار کر کے تحریک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہ طلباء کی توہین کر رہے ہیں ۔ہم آپ بزرگان سے  کم از کم یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ اس اعلانیہ پر دستخط کر دیں ۔ آیت اللہ شریعتمداری نے کہا: ان گرفتار افراد میں سے ہر ایک کی شناخت فراہم کریں، اگر آیت اللہ مکارم شیرازی، آیت اللہ جعفر سبحانی جیسے، حوزہ کے دو اولین سطح کے علماء  انکی تائید کردیں  تو میں دستخط کردوں گا۔ البتہ یہ  تقریباًناممکن تھا اور ہر فرد کی شناخت دریافت نہیں کی جا سکتی تھی۔

ہم نے یہ بھی کہا کہ اس اعلانیہ  پرلازماً دستخط  ہونے چاہیے ۔ اس وقت طلبہ اور فیضیہ کی عزت خطرے میں ہے،بالآخر  حوزے  کے دفاع کی بڑی ذمہ داری آپ کے ہاتھ میں ہے، اگر آپ نہیں کر سکتے تو جو کر سکتا ہے اس کے حوالے کر دیجئے ۔ یہ ایک بہت ہی سخت  بیان تھا  جس کا ہم نے اس محفل میں اظہار کیا۔ پہلے آقاشریعتمداری اور اس کے بعد آقا گلپائیگانی اٹھ کر چلے گئے۔ ہم نے جناب مرعشی نجفی اور شیخ مرتضیٰ حائری کو بٹھایا اور ان سے مزید  اپنائیت سے گفتگو کی۔آقا حائری نے کہا: میں حوزے کو محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ، اگر میں نے  دستخط کردئیے  تو حوزہ بالکل ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔

میں نے  اس سے پہلے آقا حائری کو قزل قلعہ جیل میں پیش آنے والے واقعات،  ساتھیوں کو مارنے اور اذیت دینے  کی باتیں اور مہدی ربانی اورپیشاب کرنے کا قصہ بیان کیا ہوا تھا۔جب میں نے جیل کے احوال بیان  کیے تھے تو وہ بہت متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور  پوچھا: "کیا تم وہی شخص نہیں ہو جس  نےاس دن جیل کے حالات کے بارے میں بتایا تھا؟" میں نے کہا:"جی بالکل"، وہ بولے:" میں دستخط کروں گا"، آقا نجفی نے بھی دستخط کر دیئے، دو افراد نے دستخط کر دئیے۔اب  اگر ہم اس کی کاپیاں کر سکتے  تو یہ ایک بڑا کام تھا ۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ میں پہلے ہی بے نقاب ہو چکا ہوں کیونکہ اس جگہ آنے سے پہلے میں نے جناب شیرازی کے گھر ایک سخت تقریر کی تھی۔

اعلامیہ  کا مسودہ میری جیب میں تھا۔ جب میں علامہ کے گھر سے نکلا تو میں نے سب کے سامنےیہ مسودہ پھاڑ دیا۔ البتہ اس اعلامیہ کی  پروف شدہ کاپی ، جو میں نے خود تیار کی تھی ، عباس حسینی نامی ایک ساتھی کے سپرد کر دی تاکہ اس کی نقول تیار کی جا سکیں ۔

نو خرداد کی شام میں اپنے  سسرکے گھر تھا۔ میں دروازہ بند کرنے گیا تو دیکھا کہ گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔ دروازے پر  موجودساواکیوں میں سے ایک نے مجھے پہچان لیا۔ اس نے دروازے پر حملہ کر دیا  تاکہ اسے بند نہ ہونے دے، میں نے بھی کوئی ہچکچاہٹ  نہیں دکھائی  اوردروازے کو زور سے دھکیلا اور اس کے منہ پر گھونسا مارا۔ دوسرے ساواکی اس کی مدد کو آگئے اور میں دروازہ بند نہ کر سکا اور گرفتار ہو گیا۔

 

منبع: دهه پنجاه: خاطرات حسن حسن‌زاده کاشمری، علی خاتمی، محمدکاظم شکری، تدوین فرامرز شعاع حسینی، تهران، ‌مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، عروج، 1387، ص 133 – 136

 



 
صارفین کی تعداد: 422


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

جب یادداشت چلی گئی

انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد میں نے مسجد امیر المومنین (ع) میں کام شروع کیا۔ اب، اپنے  اور اپنے خاندان کے بارے میں میری یادداشت مکمل طور پرمحو ہو چکی تھی ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو میں نے بسیج  میں شامل ہو کرمحاذ پر امدادا ور سامان کی فراہمی شروع کر دی
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔