ورکشاپ
زبانی تاریخ سے آشنائی – 11
تدوین
ترجمہ: محب رضا
2024-5-9
تدوین
یہ فیصلہ کرنے کے بعدکہ سوالات متن میں شامل رہیں گے یا نہیں ، اگلا مرحلہ متن میں رموز اوقاف لگانے کا ہے تاکہ متن کو آسانی سےپڑھا جا سکے۔ متن میں ہر اس جگہ جہاں ضروری ہو نقطے، کومے، سوالیہ یا فجائیہ نشان یا اس قسم کے دیگر نشانات لگائیں ۔
نوٹ: اصول یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے ، جملے اتنے مختصر ہونے چاہئیں۔
رموز اوقاف لگانے کے بعد، "کے"، "کے ساتھ"، "میں"، "کہ" اور اس طرح کے دوسرے حروف استعمال کریں تاکہ متن سلیس اور رواں ہو جائے۔
ابھی تک، ہم نے اصل متن میں کچھ تبدیل نہیں کیا ، صرف اسے پڑھنے میں آسان اور سلیس بنایا ہے۔
اگلے مرحلے میں، اگر ضروری ہو تو، جملہ بندی پر نظر ثانی کریں اور جملوں کی ترتیب کو بدلیں تاکہ متن کی ایک بہتر شکل بن جائے ۔ اس مرحلے میں ، ہم کسی جملے کو کم یا زیادہ نہیں کرتے ، صرف ضرورت کے مطابق جملوں کی ترتیب کو بدلتے ہیں ۔
اس کے بعد ہم اصل متن میں پہلے سے لکھے ہوئے مبہم نکات کی وضاحت اورتفسیر کا، پاورقی کی شکل میں اضافہ کرتے ہیں ، یہاں تک کہ پہلا باب مکمل ہو جائے ۔اس کے بعد،کتاب کے باقی ابواب میں بعینہ یہی کام انجام دیا جاتا ہے۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ اس مرحلے میں بھی راوی سے رجوع کرنے اور اس سے مبہم نکات پوچھنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
عمومی بول چال کا اندازیا ادبی تحریر ی لہجہ
عمومی بول چال کا انداز ، یا مکالمہ وہی کلمات ہیں جو راوی خود بیان کرتا ہے ، مثال کے طور پر، وہ کہتا ہے، "میں جا رہا ہوں" یا "ہم گئے تھے" جبکہ اس کا مقصود ہوتا ہے کہ "میں گیا"۔ اس کےبالمقابل ، ادبی انداز پایا جاتا ہے جس میں راوی کے عام بول چال کے انداز کو ادبی تحریر میں تبدیل کیا جاتا ہے ، جیسے " میں جا رہا ہوں" " جیسے عمومی کلمات کو "میں گیا" سے تبدیل کرتے ہیں۔
فی زمانہ ، عام بول چال کے انداز کو ادبی تحریر میں تبدیل کرنے کا رواج ہے، سوائے براہ راست اقتباسات کے۔راوی کے براہ راست اقتباسات ، عمومی بول چال کے انداز میں قوسین کے اندر رکھے جاتے ہیں ؛ مثال کے طور پر: <<اس نے مجھ سے کہا، "محمد، آؤچلیں"۔>>
دفاع مقدس کی جنگ کے اختتامی دور میں جنگ کی غیر مکتوب تاریخ کے متعلق متعدد کتابیں شائع ہوئی جو مکالمہ کے انداز میں مرتب کی گئی تھیں۔ لیکن فارسی زبان کی اکیڈمی نے ان پر فارسی زبان سے روگردانی کرنے کا اعتراض لگایا اور کچھ مدد سے وہ قلمی انداز اور ادبی تحریر کی جانب پلٹ گئے ۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ، سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ جہاں بھی براہ راست اقتباس موجود ہو وہاں عین عبارت مکالمہ کی شکل میں لکھی جانا چاہیے۔
براہ راست اقتباس میں، اگر جملہ کسی دوسری زبان میں ہو، تو اسے بالکل ویسے ہی لکھا جائے اور حاشیہ میں اس کا ترجمہ دیا جانا چاہیے۔حتیٰ اگر راوی کسی کلمے کا غلط تلفظ بھی کردےتو اسے اسی طرح لکھنا چاہیے جیسے کہا گیا تھا اور اگرکسی وضاحت کی ضرورت ہو تو حاشیہ میں درج کی جائے۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 627