کتاب  ’’فرسان‘‘ کا اجمالی تعارف

تدوین: فریدون حیدری ملک میان
ترجمہ: صائب جعفری

2023-9-5


کتاب فرسان کی جلد سادہ ہے۔ کچھ زردی مائل مٹا مٹا رنگ ہے جس کو کتاب کے آخر میں موجود تصاویر ان کی شرح کے تناظر میں بغور دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں فوجی جوانوں اور آپریشنز کی کچھ تصاویر ہیں جس میں کچھ جوان بیٹھے ہیں اور کچھ کھڑے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ زمانے کی غبار آلود فضا سے نکل کر ہماری آنکھوں کے سامنے آیا چاہتے ہیں۔

تقدیم نامہ کی ابتدائی  عبارتوں میں ’’عملی نمونہ‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال بہت ہی صریح اور صداقت پر مشتمل ہے جو ایثار اور عشق کے جذبوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

’’وہ لوگ جنہوں عشق اور ایثار کا عملی اظہار کیا تاکہ اس دور کے لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن جائیں‘‘

تقدیر نامہ کے صفحہ میں ان سب لوگوں کا نام بنام شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس کتاب کی تمام مراحل میں خلوص نیت سے حصہ لیا ۔ اگلے صفحات پر ایلام میں دفاع مقدس کے آثار کی نشر و اشاعت کے مدیر کےکلمات ہیں جس میں وہ اس صوبہ کی جغرافیائی اور جنگی اہمیت اور جنوب اور شمال غرب کے علاقوں کی موقعیت پر گفتگو کرنے کے ہمراہ کتاب فرسان کے مصنف کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔

کتاب کے مقدمہ میں اس بات کو صریحا بیان کیا گیا ہے کہ یہ تحقیق تاریخ شفاہی کے دبستان میں ایک تشریحی موضوع ہے۔اس میں فرسان گروپ جو جنگ کےدوران گوش برھا کے نام سےمشہور تھا اور جنگ کے دوران ایران کو ناامنی کی طرف دھکیل رہا تھا اور فوجیوں  اور عوام کے کان کاٹا کرتا تھا، کے بارےمیں  تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس گروپ نے ایران کو ناامن بنا کر لوگوں میں خوف و دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ اس گروپ کے اراکین  انقلاب اسلامی سے قبل کی تنظیم ’’ژاندر مری‘‘ اور  ان انقلاب مخالف عناصر پر مشتمل تھے جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد عراق کی سرزمین میں پناہ لی تھی۔  یہ لوگ اس سے پہلے بھی سرحدوں پر تعینات تھے لہذا سرحدوں کے سوراخوں اور مورچوں کے خلا سے اچھی طرح واقف تھے۔ یہ لوگ ایلام کے چشموں، خلیجوں حتیٰ کہ چرواہوں تک کو پہچانتے تھے۔ ان وحشیوں کا کام  یہ تھا کہ  یہ مختلف مورچوں میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور کسی بھی شخص کو زخمی  کرنے یا شہید کرنے کے بعد اس کا سیدھا کان کاٹ لیا کرتے تھے اور اس کو ثبوت کے طور پر پیش کرکے بعثیوں  سےانعام وصول کیا کرتے تھے۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی ایران کی فوج نے بھی ایک ایسا گروہ تشکیل دیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ ان کا کوئی فرد بعض اوقات تنہا بیس بیس کلو میٹر تک دشمن کے علاقہ میں چلا جاتا تھا اور  اس علاقہ میں بارودی سرنگ بچھاتا تھا یا عراقی فوج کے جنگی سازو سامان کو خراب   کیا کرتا تھا۔ یہ لوگ کمال کے شجاع لوگ تھے اور اس کام کے دوران کئی ایک لوگ شہید بھی ہو جایا کرتے تھے۔

کتاب حاضر ان کان کاٹنے والوں کے بارے میں لکھی گئی کتاب کی پہلی جلد ہے۔ مصنف  نے مقدمہ میں خود درج کیا ہے کہ  یہ کتاب دو جلدوں میں مدوّن ہوئی ہے اور اس کے لئے ایرانی بٹالینز کی جانب سے آپریشن کرنے والوں اور فرسان کے اسیروں سے انٹرویوز کئے گئے ہیں۔

مصنف نے اس کتاب میں کوشش  کی ہے کہ سپاہیوں سے انٹرویوز میں محاکات اور جزئیات کا پورا پورا خیال  رکھے۔   جنگ کے زمانے اور انٹرویو کے زمانہ میں فاصلہ زیادہ ہونے کے سبب بہت سے راویوں کے حافظہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا ہے سو کئی جگہ مصنف نے حاصل شدہ معلومات پر ہی اکتفا کیا ہے۔

مصنف نے یہ کوشش بھی کی ہے داستان گو حضرات کے بیان کو من و عن  ’’فرسان‘‘ میں درج کر دے تاکہ قاری اس کتاب کا دقیق مطالعہ کرے اور  فروسان کے  گروپ اور ان کے اعمال قبیح کو خود ان کی زبان سے سن کر سمجھے۔ اس کے بعد مصنف یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ یہ واحد تحقیق ہے جس میں فروسان گروپ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

راویوں کو بہتر طور پر پہچاننے کے لئے  ان کے مختصر حالات زندگی اور آٹھ سالہ جنگ میں ان کے کردار کو بھی مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب تین فصول کا مجموعہ ہے۔ پہلی فصل پندرہ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں فرسان کا تاریخچہ بیان ہوا ہے۔  دوسری دو فصلوں میں سے ہر ایک چند حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ کتاب کے آخری صفحات پر کچھ سیاہ سفید تصاویر ہیں جن کی کوالٹی اچھی ہے اور ان تصاویر کے ساتھ ان کی توضیحات بھی درج ہیں اس کے  ساتھ ہی یہ اختتامی صفحات منابع اور ماخذ کے بیان پر بھی مشتمل ہیں۔

پہلی فصل میں فرسان کی تاریخ بیان ہوتی ہے  اور فرسان کے لغوی معنی بیان ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فرسان گروپ کی وجود میں آنے کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔  پھر ایرانی فوج کی جنگی  فنون اور طرز عمل کی بات کر کے  گوریلا جنگ پر گفتگو کی  جاتی ہے۔

دوسری فصل میں ریٹائرڈ فوجیوں کی بیان کردہ روایات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس فصل میں بارہ روایات جو جگہ دی  گئی ہے۔ ہر روای اپنے تعارف  کے ساتھ انقلاب اسلامی میں اپنی اور اپنے خاندان کی سرگرمیوں کی بات کرتا ہے اور  پھر آٹھ سالہ جنگ میں اپنی شرکت اور کردار  کی کچھ تصویر کشی کرتا ہے۔

تیسری اور آخری فصل میں پانچ داستانیں موجود ہیں جو فرسان  کے گروہ کی قید میں رہنے والے افراد تھے۔ جب  یہ گرفتار ہوئے اور کچھ عرصہ اس گروہ کے ہمراہ رہے تو ان کے پاس فرسان والوں کی سننے کے لائق داستانیں تھیں۔

کتاب فرسان کی پہلی جلد بتول میرزائی کی قلم فرسائی کا نتیجہ ہے اور ۲۰۱۹۔۲۰۲۰ ء میں ادارہ کل حفظ و نشر ارزش ہای دفاع مقدس  صوبہ ایلام، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایلام اور سپاہ امیرالمومنین  علیہ السلام کی کوششوں سے اور انتشارات سورہ ہائے عشق کے تعاون سے چھپ کر بازار میں آئی۔ یہ کتاب (جلد) ۴۸۲ صفحات پر مشتمل ہے اور پہی طبع ۱۰۰۰ نسخوں پر مشتمل ہے۔ B5سائز کے صفحات  پر مشتمل  اس کتاب کی قیمت ۸۰ ہزار تومان  مقرر کی گئی ۔

 

 

 

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 1408


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منجمد گوشت

ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔