کتاب  ’’ما ھم جنگیدیم‘‘[1] کا تعارف

معرف: زہرا قاسمی
ترجمہ: صائب جعفری

2023-8-26


دفاع مقدس ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔  اس کام کے جملہ ذمہ  اداروں اور لوگوں میں سے ایک ’’ انقلاب اسلامی کا ثقافتی شعبہ‘‘ بھی ہے جس نے ’’تاریخ شفاہی‘‘[2] کے عنوان سے دفاع مقدس کے واقعات کو انٹرویوز کے ذریعہ جمع کیا ہے۔

کتاب ’’ما ھم جنگیدیم‘‘ کتابی مجموعہ ’’پشتیانی جنگ‘‘[3] کی پانچویں کتاب ہے اور نشر راہ یار کے مجموعہ’’زنان انقلاب‘‘کی بارہویں  کتاب ہے۔  اس کتاب میں ’’ملارد‘‘ کی خواتین کی جانب سے جنگی مورچوں کی حمایت اور مدد کی کہانی درج ہے۔

محمد مہدی رحیمی  نے اس کتاب کی جمع و تدوین کا فریضہ انجام دیا ہے۔  یہ بات مکمل واضح نہیں کہ اس کتاب کے لئے کتنے لوگوں کا انٹرویو کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ۱۳ خواتین کی داستان چھیاسٹھ حصوں میں درج ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا انٹرویو کیا گیا ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب کی مصنفہ نرجس توکلی لشکاجانی نے ایک جیسی ملتی جلتی داستانوں کو ایک ساتھ جمع کرکے تاریخی اعتبار سے ان کی تدوین کی ہے۔ اسی طرح انٹرویو کی تاریخ بھی مشخص نہیں ہے مگر  اتنا معلوم ہے کہ تمام انٹرویوز کتاب کی مصنفہ کو پہلی بار ۲۰۱۲ ء میں موصول ہوئے تھے۔ مصنفہ اپنی مصروفیات کے باعث فی الفور ان کو لکھ نہ سکیں اور ۲۰۱۹ ۔۲۰۲۰ میں اس کتاب کی تدوین کی جانب متوجہ ہوئیں۔ انہوں نے تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل انٹرویوز کے ذریعہ کتاب حاضر کی تدوین کی۔

اس کتاب کی  داستانوں کے موضوعات ’’ملاردی خواتین‘‘ کے جنگ میں حصہ لینے کا احاطہ کرتے ہیں۔   ان خواتین کے نام درج ذیل ہیں:

۱۔ جملیہ ناکینی

۲۔ خدیجہ اسکندری

۳۔ ربابہ ارشادی

۴۔ رقیہ چراغی

۵۔ ستارہ طاہری

۶۔ شمسی کندری

۷۔ گلچین حسین آبادی

۸۔ معصومہ رسولی

۹۔ معصومہ شوربایی

۱۰۔ ملوک عطاء الہی

۱۱۔ منیرہ زاہد پناہ

۱۲۔ مہری  حیدری مجدد

۱۳۔ مہین خمیس آبادی

یہ خواتین اپنا زیادہ وقت غذائی اجناس کی جمع آوری اور غذا پکانے کے سبب ایک ساتھ گذارا کرتی تھیں۔

خانم شمسی کندری  ڈیویلپمنٹ کے شعبہ  اور خواتین کے درمیان رابطہ کا کام انجام دیتی تھیں اور ان کا گھر ہی ان کاموں کا مرکز تھا۔

اس کتاب کی شکل و ترتیب میں پہلے ناشر کی پیش گفتار ہے اس کے بعد مصنفہ کا مقدمہ اور اس کے بعد ایک مقدمہ تاریخ کا ہے۔ اس مقدمہ میں اس کتاب کی جمع آوری کے طریقہ  اور اس میں صرف ہونے والے وقت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔  اس مقدمہ میں ملارد کی سماجی اور ثقافتی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔

ان خواتین کی داستانوں کو چار فصول میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کی پہلی فصل کا عنوان ’’ قبل از انقلاب (انقلاب سے پہلے)‘‘  ہے ۔ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس فصل میں انقلاب اسلامی ایران سے پہلے کے واقعات درج ہیں۔ اس فصل میں ۷ روایات یا داستانیں بیان ہوئی ہیں۔

دوسری فصل کا عنوان ’’انقلاب و شروع جنگ ( انقلاب اور جنگ کا آغاز)‘‘ ہے۔ اس فصل میں انقلاب اور جنگ کے آغاز میں خواتین  کی سرگرمیاں بیان ہوئی ہیں۔ اس فصل میں ۱۰ داستانیں بیان ہوئی ہیں۔

تیسری فصل کا عنوان ’’شروع کار جہاد (جہادی کاموں کا آغاز)‘‘ ہے۔ اس فصل میں ۳۹ داستانیں بیان ہوئی ہیں اور یہ حصہ کتاب کا سب سے ضخیم حصہ ہے۔ کاموں میں حصہ لینے میں خواتین کا ذوق و شوق،    اضافی سرگرمیاں، کاموں کو انجام دینے کا طریقہ کار وغیرہ اس فصل کے جملہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں راویوں نے گفتگو کی ہے۔

چوتھی فصل  کا عنوان ’’ امضای قطع نامہ و پایان جنگ ( جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط اور جنگ کا خاتمہ)‘‘ ہے ۔ اس حصہ میں ۹ داستانیں ہیں جس میں جنگ بندی کے بعد خواتین کی سرگرمیوں  کا احوال درج ہے۔

زیادہ تر داستانوں کا حجم ایک سے دو صفحات پر مشتمل ہے۔ داستانیں مختصر ہونے کے باوجود  اور ایک دوسرے سے بے ربط ہونے کے باجود بھی جنگ کے ایام میں خواتین کی سرگرمیوں کی بہت ہی دلکش تصویر کشی کرتی ہیں۔

کتاب کے آخر میں ایک حصہ تصاویر کا ہے  جس میں جنگ کے دروان خواتین کی سرگرمیوں کی بھی کچھ تصاویر موجود ہیں۔

کتاب ’’ماھم جنگیدیم‘‘ ۲۱۶ صفحات پر مشتتمل ہے اور اس کے ناشر ’’راہ یار‘‘ ہیں۔ ۲۰۲۱ میں یہ کتاب چھپی تھی اور البرز میں اس کی رونمائی ہوئی تھی۔

 

 

 

 

 


[1] ہم نے بھی جنگ کی۔۔۔

[2] Oral History

[3] جنگ کی حمایت،  support



 
صارفین کی تعداد: 1317


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منجمد گوشت

ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔