بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-3
ترتیب: محترمہ سپیدہ خلوصیان
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-11-9
21اپریل 2022 بروز جمعرات کو "بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے "سورہ آرٹ کلب" میں تین سو چونتیسواں پروگرام منعقد ہوا جس میں شہداء کی کثیر تعداد فیملیز نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری آقاے حسین بہزادی فر تھے۔ مہمانوں میں آقاے رضا عباسی، امیر محمود نجف پور اور کرنل احمد حیدری شامل تھے۔
پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے سٹیج سیکرٹری نے تیسری مہمان شخصیت جناب احمد حیدری صاحب کو دعوت دی۔
حیدری صاحب نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوے بتایا کہ: "اپنے گھر والوں سے بچھڑنے کے بعد، ہماری اگلی خاطر مدارت، عراقیوں کی طرف سے مار پیٹ تھی۔ جب ایران میں تھے تو سنا کرتے تھے کہ عراقی جیلوں میں ایرانی قیدیوں کو ڈنڈوں اور کیبل کی تاروں سے مارا جاتا ہے اور عقوبت خانوں میں ان کو شکنجے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن جس چھاؤنی میں ہم تھے، وہ علاقہ جب عراقیوں کے قبضے میں آیا اور ہمارے جوانوں کو قیدی بنا لیا گیا تو وہاں کی جیلوں میں جگہ نہیں تھی۔ اس لیے وہ ہمیں چھاؤنی نمبر گیارہ اور بارہ میں لے گئے۔ وہیں جہاں کامبیز صاحب ہم سے پہلے موجود تھے۔ وہاں جب جا کر ہم نے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وہ ہم سے اچھے حال میں ہیں۔ کیونکہ وہ صرف جیل میں تھے، جبکہ ہم شکنجے برداشت کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک بار وہاں ایرانی نیوی کے ایک غواص (غوطہ خور) فوجی کو لایا گیا اور وہاں واش روم کے احاطے میں ہی اس کو اس کے غواصی کے لباس میں مار مار کر شہید کردیا۔
وہاں وحشت کا یہ عالم تھا کہ ایک گارڈ کے مطابق، اگر عراقی کسی ایرانی کو ماریں پیٹیں یا مار ڈالیں تب بھی ایرانی کچھ نہیں کر سکتے، کیوں؟ اس لیے کہ وہاں قیس نامی ایک شیطان صفت شخص تھا جو دیکھنے میں اچھا لیکن اندر سے انتہائی پست و گھٹیا فرد تھا۔ اور جب عمر کے حساب سے قیدیوں کو الگ الگ کیا گیا تو نوجوان فوجی اس کے نام اور تصویر سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی نئی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔ وہیں ایک قیدی تھا جس کا نام علی رضا تھا اور شمال کا رہائشی تھا۔ مورچے میں سر زخمی ہوا تو اس کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی، اسے بھی ہماری جیل میں رکھا گیا۔ وہ کبھی کبھی کہتا کہ: دوستو! میری آنکھ ٹھیک ہوگئی ھے۔ مجھے شفا مل گئی ہے۔ لیکن در اصل بم کا وہ ٹکڑا اس کے سر میں جگہ بدل گیا تھا جس کی وجہ سے متاثرہ آنکھ میں بہتری آگئی تھی۔ دبلا پتلا سا وہ جوان تھا۔ چلتے پھرتے گنگناتا تھا، لیکن اس زخم کے بعد اس کے منہ سےہم نے صرف " یا امام رضا ع" ہی سنا تھا۔ ایک دن ہم لائن میں کھڑے تھے کہ ایک چوکیدار نے جو شاید وہی قیس تھا، اس جوان کی پشت پہ ایک ڈنڈا رسید کیا۔ ڈنڈا لگتے ہی وہ گر پڑا۔ ظالم نے اس زور سے مارا تھا کہ دوسرے عراقی فوجی نے عربی میں کہا: مت مارو اتنی زور سے، مطلب خود اسے بھی ترس آگیا تھا۔ یہ سب باتیں در اصل اس لیے بتا رہا ہوں کہ میں نے جو غزل لکھی وہ اسی موضوع پہ ہے۔"
راوی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ: " سوشل میڈیا پہ کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے؟ جی ہاں یہ بالکل سچ ہے۔ بلکہ یہ بھی بتا دوں کہ ہمیں چھاؤنی میں داخل کر کے چار گھنٹے مسلسل مارا پیٹا گیا۔ ہم بارہ چودہ لوگ تھے۔ ہم میں سے کئی زخمی ہوگئے۔ عباسی صاحب جو ایک زخمی کو سہارا دئیے ہوے تھے، ان کو تو بہت مارا۔ ہم سب نے لاتیں مکے بہت کھائے مگر کیبل کی تاروں سے مار نہی کھائی۔ البتہ یہ تاریں ان کے ہاتھ میں تھیں۔ اور جب ہاتھ باندھ رہے تھے تو اس طرف میں نے ٹویوٹا گاڑی دیکھی، اس کے ساتھ ہی ایک ڈنڈا مجھے پڑا اور پھر آنکھیں بند ہی کر لیں میں نے۔ خیر ہم پھر الرشید جیل میں لائے گئے۔ تھکن سے چور تھے۔ جیل میں تو دو بندوں کی جگہ تھی جس میں لوہے کا دروازہ اور ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی۔ اور تو اور واش روم کی حالت بھی بری، اور اس پہ اور ستم یہ کہ پورے دن میں ایک بار واش روم جانے کی اجازت تھی۔ خیر ہم دونوں کو انفرادی قید میں رکھا گیا۔ مجھے نیند آرہی تھی میں سو گیا، جاگا تو آقا عباسی سو رہے تھے۔ میں جو ایک اچھا فٹبال پلیئر ہوا کرتا تھا، اب میری حالت ایک اسیر پرندے کی طرح تھی۔ اتنے میں اچانک مجھے پیٹ میں درد محسوس ہوا جو اوپر کی طرف آنے لگا اور سینے کی جانب بڑھا۔ میں نے خود کو موت کے قریب پایا۔ ان حالات میں ذہن کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ فورا مجھے امام موسی کاظم علیہ السلام کی اسیری کا خیال آیا، میں نے اپنے آپ سے کہا: تمہیں کم از کم ایک کمبل اور لائٹ تو میسر ہے نا۔ اور ابھی چند ہی دن تو ہوے ہیں قید ہوئے، ابھی سے ہمت ہار گئے! بس امام ع کا خیال آتے ہی طبیعت بہتر ہونے لگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی یاد صرف ماتمداری تک نہیں ہونی چاہئیے بلکہ زندگی میں ان کی سیرت پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جنگ میں عاشورا سے ہم درس لیتے ہیں۔ امام سجاد ع اور امام موسی کاظم علیہما السلام اسارت میں ہمارے لیئے نمونہ عمل تھے۔ اور یہی ہمارا بہت بڑا آسرا تھا۔
خیر ہمیں وہاں سے باہر لے کر گئے اور کچھ دیر بعد ایک عراقی افسر آیا اور ہم دونوں سے پوچھنے لگا کہ: "اگر ہم تہران پہ حملہ کریں تو لوگ ناراض تو نہیں ہونگے؟"
میں نے ایک نظر صارم پہ ڈالی مطلب عراقیوں کو اس شخص نے بہکا دیا تھا۔ اس سے نام پوچھا، اس نے بتایا: عباس گودزری، میرے دو جڑواں بیٹے ہیں۔ اور پھر خدا نے مجھے دو جڑواں بیٹیاں بھی دے دیں۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ سب جھوٹ تھا۔ گفتگو سے اس کے سچ اور جھوٹ کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ ہاں ایک جگہ اس پہ ترس بہت آیا۔ مجھے اس وقت تک کیبل وائر سے مار نہیں پڑی تھی۔ جب الرشید جیل میں ہمیں لے گئے تو منی بس میں سوار ہوتے وقت میں زخمیوں کی مدد کر رہا تھا اور سب سے آخر میں تھا، میں نے سوار ہونے کے لئے گاڑی کے پائدان پر پاؤں رکھا اور پھر اگلے ہی لمحے کیبل وائر میری کمر پہ رسید ہوئی۔ اس وقت تو معمولی جلن کا احساس ہوا، لیکن رات کو لیٹا تو سارا احساس بدل گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے بیلچے کے دستے پہ لیٹا ہوں بلکہ اس ڈنڈے پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ اس وقت میں نے سوچا کہ یہ ہے وہ کیبل وائر جس کا نام بہت سنا تھا۔ اگلے روز ہمیں دست بستہ بغداد سے تکریت لے گئے۔ تکریت سے باہر ہی بس رک گئی۔ ہم کچھ لوگ اترے اور ایک عراقی کو دیکھا جو قیدیوں کو کیبل وائر سے مار رہا تھا۔ میری دوسری باری تھی کیبل وائر سے پٹنے کی۔ میں نے بھی سوچا کہ آج اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔
آپ شاید جانتے ہوں گے کہ دنیا میں چار پانچ ہی لوگ تھے جن کی رفتار سب سے زیادہ تھی، ان میں سے ایک فرانسیسی فٹبالسٹ "ٹیری ہنری" تھا، دوسرا خداداد عزیزی تھا، تیسرا نام میرا تھا۔ پھر اس کے بعد روبن اور میسی کے نام آتے تھے۔ خیر اس عراقی کی کیبل وائر ہوا میں جو بلند ہوئی تو اس سے پہلے کہ مجھے لگے، میں نیچے سے نکل گیا اور بندھے ہاتھوں سے اسے ٹھینگا دکھا جو کہ اس وقت نامناسب بات تھی!
پھر چھاؤنی گئے۔ میں اسی پہ خوش تھا کہ پھرتی سے کیبل وائر کا وار خالی جانے دیا لیکن اندر جا کر پتہ چلا کہ بہت سارے عراقی اندر ہیں اور ہر عراقی کے ہاتھ میں وہی کیبل وائر، مطلب یہ کہ کیبل وائر ہم نے کھانی ہی کھانی تھی۔ وہاں ایک وحشتناک سرنگ بنی تھی۔ اس میں اپنے ساتھیوں کو پٹتا دیکھ کر میں اپنی باری بھول گیا۔ آج بھی وہ منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگلے دس دنوں تک ایک ہاتھ اوپر کرنے کے لیے دوسرے ہاتھ سے سہارا دینا پڑتا تھا اور پھر واپس بہت آرام سے نیچے آتا تھا اور جو ہاتھ زخمی تھا اس کو دوبارہ واپس لانے سے تو چیخیں نکلتی تھیں۔ حالت ایسی خراب تھی کہ اپنے مرنے کی دعا کر رہا تھا۔ کیونکہ اپنے چہرے پر سے مکھی تک اڑانے سے بھی عاجز تھا۔
کچھ مہینوں بعد چھاؤنی نمبر انیس میں کسی طرح سے ایک پنسل آگئی۔ جو ٹکڑوں میں بٹی اور اس کا ایک ٹکڑا ہمارے حصے میں آگیا۔ اس وقت ہمارے انچارج یوسف سمندریان صاحب تھے جو ایف پانچ کے پائلٹ تھے، میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ شعر لکھنے کا جی کر رہا ہے، مجھے بھی پینسل مل سکتی ہے کیا؟ انہوں نے پنسل دے دی، اب کاغذ نہ تھا میرے پاس، اس کے لیئے ایک دوست سے گزارش کی کہ وہ اپنے سگریٹ کسی پلاسٹک میں ڈال لے اور ڈبیا مجھے دے دے۔ خیر میں ڈبیا لے کر ایک کھڑکی کے پاس گوشہ تنہائی میں بیٹھ گیا اور دیکھا سنا سب ماجرا اشعار میں پرو ڈالا:
رات کی تاریکی ہے، جیل ہے اور پانی کی صدا آتی ہے۔
اس پہ مستزاد، جھینگر کی صدا آتی ہے۔
پھٹی چادر کی چلمن سے مہ تاباں کو چلتے دیکھا۔
گویا جھکے قدموں سے کوئی بڑھیا آتی ہے۔
علم کے اس پیاسے کے تن رنجور کا نہ پوچھئے۔
جس دیار میں ہوں یہ، وہیں ضیا آتی ہے۔
عراقیوں کے بارے سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں،
کھڑکی کے بالکل سامنے بہت دور کانٹے دار تاروں کے پیچھے ایک بیرک تھی جس میں بہت سی بتیاں جل رہی تھیں۔
اس پر لکھا:
ہم جیسے آزاد منش کی کیا پوچھتے ہو صاحب!
جن کے چلنے سے زنجیر کی ندا آتی ہے۔
قید تھی، ڈنڈے تھے اور تازیانے بھی۔
ان کو اس ستم سے صفا آتی ہے۔
بیمار ہو میاں، پڑے رہو کونے میں، ذکر خدا کرو۔
ایسے میں دیر سے بہت، شفا آتی ہے۔
اب جو ملی آگہی ہاتھ کے زخموں سے،
اس پنسل با وفا کی نداے بکا آتی ہے۔
صارفین کی تعداد: 1900