شہید مرتضی آوینی

معصومہ عابدینی
تلخیص و ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-5-1


اسلامی جمہوریہ ایران میں ڈاکیومنٹری کے حوالے سے مشہور و معروف شخصیت سید مرتضی آوینی سن ۱۹۴۷ کو ایران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد معدنیات کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ابتدائی تعلیم زنجان، کرمان اور تہران میں حاصل کی اور سن ۱۹۶۵ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور پھر اسی سال تہران یونیورسٹی میں آرکیٹیکٹ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے رہے۔سن ۱۹۷۵ میں اسی شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران آپ کو فلسفہ اور لٹریچر کے گہرے مطالعے کا شوق ہوا اور آپ نے شعری نشستوں، پینٹنگ ایگزیبیشنز اور موسیقی کے کنسرٹس میں بھی شرکت کرنا شروع کردی۔ آپ رزمیہ ورزشیں، ہائیکنگ اور تیراکی بھی کیا کرتے تھے۔ آپ اس زمانے میں اپنے دوستوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر گھنٹوں مباحثے کیا کرتے تھے لیکن آخر کار اس نتیجے تک پہنچے کہ اس طرح کی سرگرمیاں اور مباحثے دانشمندی کا تظاہر تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کام دانشمندی کی جگہ بالکل نہیں لے سکتا۔ یہ کیفیت پیداہونے کے بعد انہوں نے اپنے تمام تر تحریروں کو ایک ساتھ آگ لگا دی۔

یہ زمانہ اسلامی انقلاب کا زمانہ تھا۔ اسی سال آپ محترمہ مریم امینی کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے جو خود بھی فنون لطیفہ سے بہت لگاؤ رکھتی تھیں۔ اس ازدواج کے نتیجے میں خدا نے آپ کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شہید آوینی نے اپنی تصنیفات کو مذہبی رنگ دینا شروع کردیا۔

انقلاب کی کامیابی اور تعمیری جہاد کے ادارے کی تشکیل کے بعد آپ نے اس ادارے کے میڈیا ڈپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور پسماندہ علاقوں کی تعمیر کے امور میں حصہ لیا۔ آپ کی پہلی ڈاکیومنٹری ۱۹۷۹ میں خوستان میں آنے والے سیلاب کے بارے میں تھی، اس کے بعد "شش روز در ترکمن صحرا" یعنی صحرائے ترکمن میں چھ دن، جو گنبد کے علاقے میں انقلاب مخالف عناصر کی سرگرمیوں کے متعلق اور "خان گزیدہ ھا" یعنی وڈیروں کے ڈسے ہوئے لوگ، جو فارس کے علاقے فیروز آباد کے وڈیروں پر بنائی گئی ڈاکیومنٹریاں تھیں۔

شہید آوینی نے ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ کو جنگ شروع ہونے اور خرمشھر کے محاصرے کے بعد اس شہر کا سفر کیا اور "فتح خون" کے نام سے ڈاکیومنٹری بنائی۔ اس کے بعد آبادن شہر سے متعلق ایک ڈاکیومنٹری سیریل " حقیقت" سے نام سے بنائی۔ لیکن ان سب سے زیادہ مشہور ڈاکیومنٹری" روایت فتح" تھی جسے ٹیلی ویژن سے نشر بھی کیا گیا۔ شہید آوینی نے اس ڈاکیومنٹری کا متن خود ہی لکھا تھا جبکہ اس کی نریشن بھی خود ہی پڑھی تھی۔

شہید آوینی نے ڈاکیومنٹریاں بنانے کے علاوہ پرنٹ میڈیا میں بھی کافی سرگرمیاں انجام دیں۔ انکے مقالات ملک کے معروف جرائد میں چھپتے رہے۔ انہوں نے فن و ہنر سے متعلق ایران کے معروف ادارے حوزہ ہنری میں ہنر سے متعلق دینی مطالعہ کے دفتر کا بھی آغاز کیا۔ اسی طرح حوزہ ہنری کے سینما ڈپارٹمنٹ کے انچارج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

شہید آوینی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسلمان ممالک کا سفر بھی کیا جن میں لبنان، فلسطین، بوسنیا ہرزگوینیا، پاکستا، تاجکستان اور آذربائیجان شامل ہیں۔ جن کا ماحصل مختلف ڈاکیومنتری فلموں کی صورت میں سامنے آیا۔

شہید آوینی نے سن ۱۹۹۲ میں ایک بار پھر جنگی علاقوں کا سفر کیا تاکہ روایت فتح نامی ڈاکیومنٹری کے سلسلے کو آگے بڑھایا جاسکے۔ انہیں کبر ملی تھی کہ "فکہ" کے علاقے میں دسیوں ایرانی مجاہدین کو دفن کیا گیا تھا۔ ۹ اپریل ۱۹۹۳ کو آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس علاقے میں گئے، شہید آوینی کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر پڑگیا جس سے انکا پاؤں کٹ گیا اور شدید خوں ریزی کی وجہ سے اسپتال لے جاتے ہوئے آپ نے جام شہادت نوش کیا۔

سید مرتضی آوینی کے جسد خاکی کو ۱۱ اپریل ۱۹۹۳ کو حضرت آیت اللہ خامنہ ای سمیت دیگر اہم شخصیات کی موجودگی میں تہران میں واقع شہدا کے قبرستان بہشت زہرا کے قطعہ ۲۹، ردیف ۱۲، قبر نمبر ۱۱ میں سپرد خاک کردیا گیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3761


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ

اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔