دختر اصفہان کی انقلاب کے دنوں کی یاداشتیں
انٹرویو: مائده شاه نظری
ترجمہ: ابوزہرا علوی
2022-2-3
میں زہرا کرباسی 1938کی پیدائش ہوں میرے آباء و اجداد اصفہان کے مشہور علماء اور مراجع رہے ہیں میرے نانا اپنے ہی گھر میں مسجد حکیم کے پڑوس میں مدفون ہیں۔۱۹۵۳میں ،میں ۱۵ سال کی تھی کہ میری شادی کردی گئی ۱۹۵۷میں میرے ہاں اولاد ہوئی پہلا بچہ بیماری کی وجہ سے فوت ہوگیا ۔بچپن میں میں پڑھائی کے سنٹر جایا کرتی تھی وہاں ٹیچر ایک مقیدہ خاتون تھی کہ جب سے کشف حجاب کا قانون لاگو ہوا تھا انھوں نے کئی سال عمومی حمام جانا چھوڑ دیا تھا۔ ان سالوں میں جب میں ان کی شاگر د تھی انھوں نے ایک لفظ بھی نا لکھا جو وہ تعلیم دیا کرتی تھی پر وہ راضی نا تھیں۔ ان کے بھائی کاغذ کی پرچی پر کام لکھ کر اور وہ خود صرف پڑھا کرتی تھیں۔ ہم نے اس طرح ان سے پڑھنا سیکھا اور میرے والد بھی دینی داستان کی کتابیں لایا کرتے تھے اور ہمیں دیا کرتے تھے اور سوتے وقت کہا کرتے تھے کہ مجھے سنا و اور جب مجھے لگتا کہ وہ سو گئے ، تو میں پڑھنا چھوڑ دیتی لیکن جب وہ متوجہ ہوجاتے تو کہتے "پڑھو !میں نیند میں بھی سنتا ہوں"میرے والد نے میرے بھائیوں کے لئے شناختی کارڈ بھی نہیں بنوایا تھا کیونکہ اس کے لئے انھیں فوجی ٹریننگ پر جاناپڑتا ، اس زمانے میں NCCکی ٹرینگ کا نا لینا ایک طرح سے قانون شکنی شمار ہوا کرتا تھا۔ بعد میں میرے ماموں نے شناختی کارڈ بنوایا ۔میری والد پڑھی لکھی تھیں ان کے خاندان کے کچھ لوگ فرانس میں رہا کرتے تھے، لیکن والد صاحب کا خاندان ایک روایتی خاندان تھا لیکن اہل علم تھے۔ میرے والد کو مجھ پر بڑا بھروسہ تھا انھوں نے بچپن میں میرے ساتھ دین و تاریخ اور ادبیات پر کام کیا تھا۔ والدہ کہا کرتی تھیں کہ اس سے کنویں کا پانی مت نکلوائیں مگر والد کہا کرتے تھے کہ "نہیں یہ اس کی قوت رکھتی ہے" میری عمر چار سال کی تھی میں بہت اچھی طرح قرآن والد صاحب کے سیکھانے کے بعد پڑھنے لگی۔ ہر روز صبح مجھے قرآن پڑھاتے اور اس زمانے میں مجھے ۵۰ریال دیئے جب میں قرآن کے چھوٹے سورے جیسے زاریات و واقعہ یاد کرلیئے۔ میرے شوہر ایک کاروباری تھے کہ جو عورت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نا ہی علماء سے کوئی رابطہ تھا اور نا ہی کسی اور سے کوئی رابطہ تھا ان کا رابطہ صرف بازار والوں سے تھا۔ ہر روز بازار جاتے دوکان کھولتے اور کام کیا کرتے اور واپس آجاتے۔ برے انسان نہیں تھے پر اچھی زندگی نہیں تھی، اور زندگی بھی بری نہیں گذر رہی تھی۔ ایک سرد سی زندگی ہمارے درمیان حاکم تھی۔ مالی استقلال کے بعد میں نے خود سے تدریس کی راہ پیدا کی، طلاق تو نہیں لی لیکن شوہر سے الگ ہوگئی اپنی والدہ کی مدد سے میں نے قرض لیا اور ۳۵ہزار تومان کا رباط روڈ پر ایک مکان خریدا۔ ایک دن میں نے اپنا سامان سمیٹا بچوں کو تھاما گاڑی پکڑی اور گھر سے باہر نکل آئی۔ وہ حیران ہوگئے ۔ نئے گھر میں کوئی سہولیات نہیں تھیں اب سب کچھ مجھے ہی کرنا تھا کسی نے بھی مدد نہیں کرنی تھی میرے شوہر کبھی کبھی اپنے بچوں کو دیکھنے آجایا کرتے تھے۔ اکثر میں خود سے کہا کرتی تھی اگر اس طرح اور اس سن میں میری شادی نہیں ہوئی ہوتی تو شاید میں اس سے زیادہ کام کر لیتی اور فائدہ مند ہوتی، جسم میں طاقت بھی ہوتی اور نفسیاتی قوت بھی ہوتی مجھے اس سلسلے میں گھر والوں کا بھرپور تعاون تھا ۔ ۱۵سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ۱۹٦۷ میں نے تعلیم بالغاں کے اسکول سے صرف چھ سال میں میٹرک کیا ،۱۲ سال تحصیل میں مشغول رہی ایک ہفتے میں پہلی سے تیسری کلاس کا کورس مکمل کیا اسی سال نوروز تک چھٹی کلاس کی سند حاصل کرلی۔ چھٹی کلاس میں استانی جو کہ حاملہ تھیں ان کی جگہ چھٹی کلاس کو پڑھایا۔ کیونکہ عمر زیادہ تھی لہذا کالج میں داخلہ نہیں ملا، بلآخر فلسفے کے شعبے میں مجھے کالج میں داخلہ مل ہی گیا، کچھ مدت کے بعد میں نے اپنا موضوع تبدیل کر کے نفسیات کے شعبے میں گورنمنٹ کالج اصفہان سے BA کیا جبکہ میں ٹیچر بھی تھی میں پہلے سے ہی نور اسکول میں قرآن پڑھایا کرتی تھی۔ جنرل نور بخش نے دستور دیا تھا کہ اس اسکول میں جائیں کیونکہ انہیں شکایت ملی تھی کہ ہم کلاس میں سیاسی گفتگو کرتے ہیں اور یہ بات اسکول کے لئے اچھی نہیں تھی۔ میں نے کہا "ٹھیک! میرا کوئی اعتراض نہیں، لیکن جہاں بھی جائیں گے کہیں گے کہ جنرل صاحب نے نکالاہے" اسی وجہ سے جنرل نے ہمیں اسکول میں رہنے کی اجازت دے دی تھی اور کہا: "ہماری عزت سے مت کھیلو " انگلش اور دوسری زبانیں انجمن ایرا ن سے میں نے سیکھ لیں۔
ایک مدت کے بعد محترمہ داریس ،جو رحمت اسکول کی پرنسپل تھیں جو ایک انگش میڈیم اسکول تھا ان کے شوہر ہماری قوم سے تھے مجھ سے رابطہ کیا اور قرآن کی تدریس کی درخواست کی کیونکہ وہ میری تدریس کی تعریف سن چکے تھے ۔ میں نے قبول کرلیا۔ تنخواہ بھی اچھی تھی اس اسکول میں علی الصبح شاگردوں کو گروپ کی شکل میں عیسائی مدرسوں کی مانند لائین میں کھڑا کیا جاتا اور دعا کرائی جاتی ،اس اسکول نے قرآن میں پورے اصفہان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔اس بات سے علاقے کا ادارہ خوش نہیں تھا اور نا ہی اسکول راضی تھا۔میں مجبوراً اپنی بیٹی اور اور چھوٹے بیٹے کو رحمت اسکول لے جایا کرتی تھی ،اسکول کے بابا اور ان کی زوجہ بوڑھے عیسائی تھے جو بہت اچھی نگہداری کیا کرتے تھےاور میری مدد کیا کرتے تھے۔ استادوں کی کمیٹی تشکیل دی گئی ۴۰۰ کے قریب استاد اس میں موجود تھےان میں سے ہر کوئی اپنے اسکول کی نمائندگی کر رہاتھا سب ایک جگہ جمع تھے الیکشن ہوئے ۔جس کے نتیجے میں ۱۲ افراد شوریٰ مرکزی جامعہ معلمان میں منتخب ہوئے ۔میں دو خواتین کے ہمراہ ،کہ جومجھ سے جوان تر تھیں مرکزی کمیٹی میں داخل ہوگئے باقی نو افراد مرد تھے۔ ۱۹۷۹ اساتذہ کی کمیٹی میں اساتذہ کی ہڑتال کا سلسلہ شروع ہو؛اس وقت طلاب کلاس میں حاضر نہیں ہوتے تھے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک میٹینگ میں اصفہان کے ساواک کا معاون بھی اس میٹینگ میں تھا اس نے ہم سب کے نام لیکر پکارا اور ہم سے کہا جو چاہیے لے لو جو گریڈ چاہیے وہ لے لو بس اسکول بند نہیں کرو ،مگر کسی نے بھی قبول نہیں کیا اورہڑتال جاری ر کھی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ دو خواتین ،عورت ہونے کی وجہ سے عمومی میٹنگز میں شرکت نہیں کرتی تھی لیکن میں مستقل شرکت کرتی تھی میرے شوہر کو اس کی خبر ناتھی، کبھی اکیلے چلی جاتی ہم میں جنسیت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ہرچند مجھ سےکہا گیا" آپ خواتین خطرہ مول نالیں کیونکہ اگر ہم پکڑے گئے توکوئی مسئلہ نہیں اگر آپ میں سے کوئی پکڑا گیاتو ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے،زیادہ بہادری کی ضرورت نہیں"وہ دور اب مجھے یاد آتاہے تو میرے ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہوجاتے ہیں کہ اگر پکڑی جاتی تو کیا ہوتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب شاہ ایران سے بھاگالوگ مسجد سید میں جمع ہوگئے تھے۔وہاں پر tvچل رہاتھا ۔ایک خاتون بے حجاب نیوز سنارہی تھی ۔لوگوں نے شور مچانا شروع کردیاکہ چادر پہنو۔میں اس مقام پر اس حرکت پر ہیجانی کیفیت میں حیرت زدہ ہوگئی فکر میں ڈوب گئی۔ امام خُمینی تہران سے قم چلے گئے،میں اور میرے ساتھی قم پہنچے۔آقاسے ملنا بہت سخت تھا۔حتیٰ ہمارے جوتے تک کو چیک کیا گیا۔ہم اس رات قم میں رکے اگلے دن پھر سے امام خُمینی سے ملاقات کے لئے گئے اسکے بعد ہم اصفہان لوٹ آئے۔ انقلاب کے شروع میں ڈاکٹر سروش کے توسط سے محترمہ دباغ سے جان پہنچان ہوئی ان سے انقلابی خواتین کے اجتماعی مسائل پر گفتگو ہوئی ۔اس زمانے میں انقلاب کے لئے بہت زیادہ ھیجان اور شور تھا ہم نے اس دوران انقلاب کے لئے بہت کام کیاتھا۔ انقلاب کے بعد اساتذہ کی کمیٹی کے سربراہ جناب تلگینی کو ایک پرائمری اسکول کے ھیڈ تھے کہ جو دروزہ تہران کے قریب تھا مجھے د ے دیا گیا؛اس کی پہلی ھیڈ بے پردہ تھی اور اس کی عزت رہ جائے اس لئے اسے ریٹائرڈ کر دیاگیا۔ یہ خاتون ہماری دور پرے کی رشتے دار بھی تھیانھوں نے بھی مشورہ دیا کہ میں اس اسکول کی ھیڈ بن جاوں۔ مجھے یا د ہے کہ ایک دن ایک شاگرد میرے پاس آیا اور کہا کہ فلاں اپنی سالگرہ منا رہاہے اور ہمیں بھی بلا یا ہے آپ کیا کہتی ہیں میں نے کہا:'جاو ،میں بھی آرہی ہوں "میں وہاں گئی اور شرکت کری اور کچھ بولا نہیں کہ وہ ناراض ہوں گے اور ناہی اس بات کی اجازت دی کہ کوئی غیر معقول کام اس سالگرہ میں ہو۔اسی فردوس اسکول کی بات ہے کہ محکمہ تعلیم کے ھیڈ کی تنگ نظری کی وجہ سے میرے اور ان کے درمیان شدید اختلافات ہوگئے ۔اخلاقی طور پر درست نہیں کہ میں نکا نام لوں لیکن معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ میں نے فردوس اسکول شاھین شہر تبادلہ کروالیا ۔محکمہ تعلیم ،فردوس اسکول کی پشت پر تھا میں دوپہر دیر تک اسکول میں رہ کر کام کیا کرتی تھی ابھی میں اسکول میں ہی تھی کہ ایک شاگردہ گبھرائی ہوئی میرے کمرے میں داخل ہوئی اور کہا:"محترمہ کرباسی! ایک مردمیرا پیچھا کررہاہے اور کہہ رہاہے کہ کیوں اپنا اسکارف پیچھے کی طرف رکھا ہے اب وہ مجھے گھسیٹ کر لے جائیں گے"وہ بہت ڈری ہوئی تھی،میں نے اسے اپنے کمرے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں بند کر دیا۔دیکھا کہ ادارے کا ھیڈ داخل ہورہاہے اس نے کہا:"وہ لڑکی کہاں ہے جو ابھی اسکول میں داخل ہوئی ہے؟"میں نے کہا"ابھی یہاں نہیں ہے"انھوں نے بہت زور لگایا کہ اس لڑکی کو ان کے حوالے کر دیا جائے ۔میں بھی یہ کام نہیں کرسکتی تھی کہ جو میری پناہ میں ہو اسے بے آبرو کردوں اور مجھے یہ بات بھی مناسب نہیں لگ رہی تھی۔اگلے دن مجھے نوٹس ملا۔میں ادارے گئی۔تو انھوں نے کہا" لکھ کر دو کہ تم پردے کے مخالف ہو "میں نے کہا"میں پردے کے مخالف نہیں ہوں،میں نے چار سال کی عمر سے چادر پہنا شروع کی ہےتصویر میں دیکھ لیں چادر کو سامنے سے بٹن لگاکر بند کیاہوا ہے۔میں چادر کے مخالف نہیں میں آپ لوگوں کے طریقے کے مخالف ہوں ،اس طرح کسی کو پردانہیں کرآیا جاسکتابالخصو ص اس صورت میں کہ جب چادر کا معاملہ ہمارے لئے جدید ہے ،میں اگر کوئی شاگردہ بے پردا بھی اسکول آگئی تو میں اسے آنے سے نہیں رکوں گی بلکہ اسے سمجھاوں گی دلیل دوں گی"جس طرح سے دوسری لڑکیوں نے پردا اختیار کیا ہے یہ بھی کر لے گی ۔بہر حال میں نے اس بچی کانام انھیں دے دیا لیکن وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے زیادہ مشکل پیش نا آئی۔البتہ اس دوران کوئی بے پردہ نہیں تھا بس اس بچی کا اسکارف پیچھے کی جانب کھسکا ہواتھا جس کی وجہ سے اتنا فضیتا ہو کہمحکمہ تعلیم کے ھیڈ کہ پہلے میرے شاھین شھر تبادلے کے مخالف تھے اس واقعے کے بعد انھوں نے خود کہا کہ اب اگر تم چاہو تو تبادلہ کر سکتی ہو کیونکہ اب یہ مرد تمہیں یہاں رہنے نہیں دے گا۔انقلاب کے بعد علی اکبر پرورش محکمہ تعلیم کے ھیڈبنے اور مجھے تہران میں ایک سیمنار میں بلایا گیا۔مجھے ان کی دفتر میں لے جایا گیا جب میں جناب پرورش کے کمرے میں پہنچی ان کا ہال بہت بڑا تھا خوبصورت لمبے مخملی پردےآویزاں تھے ۔میں نے پردوں کو ادھر اُدھر کیا تو کبوتر کھڑکی کے سوراخ سے اندر آگئے ان پردوں کے پیچھے کبوتروں کی بیٹھ پڑی تھی جب جناب پروش اندر تشریف لائے تو میں نے ان پر اعتراض کردیا کہ "آپ مرد لوگ ایک ہی جانب سوچتے ہیں ،بس آتے ہیں ادارے کا کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اپنے اطراف کا خیال نہیں رکھتے۔کس طرح سے آپ یہاں آتے اور رہتے ہیں،اس کونے کو نہیں دیکھا اتناخوبصورت کمرہ اور یہ حالت؟" انھوں نے کہا "خدا کی قسم مجھے معلوم نہیں ۔اب جاؤ میری جان چھوڑو" اساتذہ کی کمیٹی میں تین بھائی نیل فروش بھی تھے بہت ہی شریف اور اہل فکر تھے انکا کام ثقافتی تھا ۔انقلاب کے اوائل میں ہر سال محرم کے مہینے میں دس دن تک تک مجلس برپا کرتے تھے نذر کا اھتمام بھی کرتے تھے۔لیکن اس میں صرف ثقافتی لوگ شرکت کرتے تھے تقریریں ہوتی تھی بہت پڑھی لکھے افراد تھے ان کی گفتگو عمیق اور بغیر کسی نعرے بازی کے تقریر کرنے والوں میں ایک ڈاکٹر بہشتی کا بیٹا بھی ہوا اور دوسرے مقرر ڈاکٹر سروش ہوکرتے تھے۔اس میں موسیقی کے بجائے بانسری کا استعمال ہوا کرتاتھا ایک گم انگیز فضا طاری ہوتی تھی لائٹیں بند کر دی جاتی تھی صرف برقی قمقمے جلا کرتے تھے جسکی وجہ سے ایک غم کی فضا کا احساس ہوا کرتاہےایک اچھی انجمن تھی۔مگر کچھ دلائل کی بنا پر ختم ہوگئی۔ نوکری کے مستقل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ ایک سال کسی گاوں میں تدریس کرنا ہوگی۔اس بنا پر محکمہ تعلیم نے مجھ سے چاہا کہ کسی گاؤں میں جاؤں یا پھر کسی ایسے علاقے میں جاؤں جو ان چیزوں سے محروم ہےلیکن میں کسی اور جگہ مصروف تھی لہذا صرف دوپہر کی شفٹ میں جاسکتی تھی ۔میں نےاس کو قبول کیااور درچہ کے ایک بوائز اسکول میں جاؤں۔سال کے دو ماہ گذر چکے تھے میں اسکول میں وارد ہوئی ھیڈ نے وہ کلاسیں جس میں کوئی استاد نا تھا میرے حوالے کردی گئی تاکہ میں اپنے طریقے کےمطابق تدریس کروں ۔میں پردہ کرتی تھی اور باقی اساتذہ کی نسبت کہ جو کالج سے فارغ ہوکر آئی تھیں میری عمر زیادہ تھی اسی لے میں نے سنا کہ کےبچے کہہ رہے تھے کہ یہ جو بوڑھیا ٹیچر آئی ہے بہت سخت ہے۔ صرف تین بچوں نے دس نمبر لئے تھے باقی سب کے نمبر صفر تھے۔میں متوجہ ہوئی کہ یہ اسکول صرف پانچویں تک استاد رکھتا ہے اور جو بھی ان میں اچھا رہتاہے استاتذہ اسے اپنی فہرست میں شامل کرلیتے لہذا جو کلاس مجھے دی گئی وہ ایک دم کند ذہن بچوں کی تھی۔ میں نے اسی روز کلاس میں کہا کہ جو بھی املا میں نمبر حاصل کرے گا وہ املے کے پرییڈ میں باہر کھیل سکتاہے اب کیا تھا نمبروں کی تعداد اُنیس تک جاپہنچی اور شاگردوں کی تعدا ۱۸ تک جاپہنچی۔ایک دن نائب ھیڈ نے مجھ سے پوچھا کہ:" محترمہ کرباسی یہ سارے بچے باہر کیوں ہیں؟میں نے کہا:"میں کہا تھا کہ میں اپنے طریقے سے پڑھاتی ہوں "وہ چلے گئے۔اس طرح سال کے اخرمیں صرف ایک سپلی تھی بس جبکہ میری ساتھ والی کلاس میں پانچ بچے پاس ہوئے۔یہ میرا شاگرد اتنا فیل ہوا کہ اس کی آواز بھی مردانہ ہوگئی تھی کبھی کبھی ایسا لگتا کہ اسکول کا کنٹرولر آگیا ہے لیکن بعد میں پتا چلتا کہ یہ اپناشاگرد ہے جس کی آواز بھاری ہوگئی ہے۔چند سال بعد میں محکمہ تعلیم کے ساتھ شہداء کے خاندان سے ملنے دُرچہکی مسجد میں گئی تو مسجد کی دیوار پر اس کلاس کی آدھی تصویر چسپاں تھی وہ سب شہید ہوچکے تھے اور اب میں ان شہیدوں کی ما ؤں کو دیکھ رہی تھی۔
صارفین کی تعداد: 2869