پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 47

نوریاب واپسی اور والدہ کی تمنا کا پورا ہونا   اکتوبر 1976 کے آغاز میں، میں عارضی طور پر نوریاب میں ٹھہر گیا۔ سب سے پہلے، میرے دماغ میں دو چیزیں چل رہی تھیں دو انتخاب؛ خدمت(ملازمت) کی جگہ اور زوجہ کا انتخاب۔ پہلے انتخاب میں، میں تردد کا شکار تھا کہ اپنے آبائی گاؤں نوریاب میں ہی رک جاؤں اور نماز جماعت اور نماز جمعہ پڑھا کر لوگوں اور اپنے گاؤں والوں کی خدمت کروں یا کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔ نوریاب میں کوئی مستقل، امام مسجد نہیں تھا۔ جناب خلیفہ محمد...

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 46

میرے آواز مسجد کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بازار اور بانہ شہر میں نشر کی جارہی تھی۔ میں نے اپنے مقالے کا پوری لگن کے ساتھ اور مدلل دفاع کیا۔ میں اتنی بہترین اور ہوش اڑا دینے والی گفتگو کر رہا تھا کہ تمام حاضرین کو میرے بیان اور لہجے سے بہت خوشی ہوئی اور گویا وہ سانس بھی نہیں لے رہے تھے۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 45

احمدیان صاحب کے بعد مفتی زادہ صاحب نے ’معاشرے کو بعثت انبیاء اور رسولوں کے منصوبوں کی ضرورت‘ کے عنوان سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور بالکل واضح طور پر طاغوت، شیخ اور پہلوی حکومت پر حملہ کردیا اور موجودہ دور میں طریقت اور تصوف کو شاہ کی آمریت کی خدمت قرار دے دیا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 44

اس کے رویے سے میں پریشان ہوگیا اور میں نے فوراً جواب دیا: ’’مصر!‘‘ کیونکہ اس خاتون کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ، غیر ملکی یونیورسٹیز کے گریجویٹس تھے۔ پھر انہوں نے مزید پوچھا: ’’یعنی آپ نے مصر میں تعلیم حاصل کی ہے اور حوزۂ علمیہ سنندج نے اس کی تصدیق کی ہے؟‘‘

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 43

عید کے دن، میں نے لوگوں کو عید الاضحیٰ کی نماز پڑھائی۔ موسم بہت ٹھنڈا تھا اور میں ہیٹر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ہیٹر کے آس پاس سیمنٹ کا فرش تھا اور کارپٹ نہیں تھا۔ گاؤں کے ایک باسی نے جسکا لقب [۔۔۔] تھا ایک خاص غرور کے ساتھ دو میٹر کی دوری سے ایک تومان کے دو سکے آہستہ سے میری طرف اچھالے جو ہیٹر کے پاس زمین پر گرے اور ان کی آواز آئی۔ جب سکے گر گئے تو اس نے تکبر والے لہجے میں مجھ سے کہا: ’’ماموستا، ایک تومان میری طرف سے اور ایک تومان میرے بھائی کی طرف سے ہے۔‘‘

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 42

میں نے ان سے عرض کیا: ’’جناب ماموستا پہلے بات تو یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ میں شاہ ہوں اور نہ جناب عالی بادشاہ۔ حقیر ہرگز آپ کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا طالب علم ہوں اور مہمان بھی۔ اگر آپ مجھ سے ناراض ہیں تو میں کل ہی گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار ہوں۔‘‘

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 41

’افتا‘ کے امتحان میں مختلف مضامین تھے؛ صرف، نحو، منطق، بلاغت، اصول، تفسیر اور فلکیات۔ اکثر مضامین کے لیے ضروری تھا کہ میں اس علم کے ماہر بزرگ علماء سے رجوع کروں۔ اس امتحان کی تیاری کے لیے میں نے دو سال تک بڑی مشقتیں اٹھائیں؛

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 40

ہم مجبور تھے، اس وجہ سے کہ کہیں ہم سے شناختی کارڈ نہ مانگ لیا جائے، ہم گاڑی میں نہ بیٹھ کر پیدل ہی دیوانہ پل گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے، جو دربندی خان کے جنوب میں 500 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب ہم پل پر پہنچے تو وہاں صرف ایک پولیس اہلکار ہی تعینات تھا۔ اس نے ہمیں دیکھا اور کہنے لگا: ’’آپ لوگ گاڑی سے کیوں نہیں جارہے؟‘‘

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 39

ملا مجید، بہت بوڑھے اور ضعیف تھے اور بہت کم ہی اپنے گھر سے باہر آتے تھے۔ ان کا گھر ملاویسی مسجد کے سامنے سنندج کے ایک بدنام محلے کے پاس تھا۔ پہلوی حکومت نے بری خواتین کو وہاں جمع کردیا تھا اور اس محلے میں وہ جسم فروشی کرتی تھیں

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 38

 کانی میران(گاؤں) چھ ماہ بعد، یعنی سن 1972(1351) کے موسم خزاں کے آخر میں، میں  دورود گاؤں کو چھوڑ کر کانی میران گاؤں چلا گیا اور ماموستا ملا علی سعادتی افشاری کی خدمت میں علم منطق کی عبد اللہ یزدی کی کتاب ’موجّھات‘ کے باقی حصے کی پڑھائی شروع کردی۔ مجھ سے کم سطح کے تین چار طالب علم میرے ساتھ تھے اور بہت کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے الگ ہوں۔ البتہ اس بار کانی میران، سن 1968(1347) کے کانی میران سے بہت مختلف تھا اور تعلیم، لوگوں کے احترام اور رہنے کی...
1
...
 
مہدی فرہودی کے بیانات سے اقتباس

کامیابی کے بعد

قصہ دراصل یہ تھا کہ ساواک کے زیر شکنجہ رہ کر علی کی شہادت واقع ہو چکی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کو  یہ بتایا گیا کہ چونکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ان کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ شہید علی جہان آرا تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے طالب علم تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔