ورکشاپ

زبانی تاریخ سے آشنائی – 2

یادداشتیں

ترجمہ: محب رضا
ویراؕش: یوشع ظفر حیاتی

2024-2-11


یادداشتیں

راوی نے جو دیکھا، سنا، کہا یا انجام دیا، اسے یادداشت کہتے ہیں ۔

مثال کے طور پر، اگر راوی کہے: "میں نے کربلا ۵ کے آپریشن میں افراد کو قیدی بنایا" تو یہ یادداشت ہے، لیکن اگر وہ کہے:"والفجر آپریشن ۸ میں  ہماری فوج نے کامیابی حاصل کی" تو یہ معلومات ہیں ۔

یادداشت میں، راوی فاعل ہوتا ہے۔

یادداشتوں کی مختلف نمونوں کی بنیاد پر درجہ بندی کی جا  سکتی ہے۔ ایک تقسیم بندی  میں،یادداشت غیر مکتوب یا مکتوب میں تقسیم ہوتی ہے۔

ایک اور قسم کی درجہ بندی میں، یادداشت کومطلق اور مقیدمیں تقسیم کیا جاتاہے۔

مطلق یادداشت، وہ یادداشت ہے  جس میں کوئی قید نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر راوی کہتا ہے: "میں اور میرا ایک اورساتھی، اپریشن کی ایک رات گئے اور ایک ٹینک تباہ کرکے واپس آ گئے۔" یہ ایک مطلق یادداشت ہے ، لیکن اگر ایک یادداشت،  غیر مکتوب تاریخ کے لیے قابل استفادہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مکان، زمان ، توضیحات اور دیگر نکات کی قید موجود ہو  ۔جیسے اس مثال میں، راوی کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ کس آپریشن کی رات تھی، کس تاریخ کو، کس اسلحے کے ساتھ، کس کے سمیت۔۔۔ اس نے یہ کام کیا ،جو وہ بیان کررہا ہے،  تاکہ اسے غیر مکتوب تاریخ میں استعمال کیا جا سکے۔

غیر مکتوب تاریخ میں، مقید یادداشت قابل استفادہ ہوتی ہے البتہ  داستان نویسی میں  مطلق یادداشت بھی کام آتی ہے۔غیر مکتوب تاریخ میں مطلق یادداشت کم وزن ہے کیونکہ اس کی تصدیق[1] نہیں کی جا سکتی۔

صورت کے اعتبار سے یادداشت کی ایک اور تقسیم ،ادبی یادداشت اور تاریخی یادداشت ہے۔ ادبی یادداشت توصیف پر مشتمل ہوتی ہے، مثال کے طور پر، "گرمیوں کی ایک خوبصورت چاندنی رات..."۔ لیکن اگر یادداشت کے اسی حصے کو اس طرح کہا جائے کہ " قمری مہینے کی چودھویں رات جب یہ واقعہ...  رونما ہوا، اور چاند آسمان پر چمک رہا تھا..."۔ اس قسم کی یادداشت تاریخی ہو گی۔

غیر مکتوب تاریخ کے لیے، ہمیں ایسی یادداشتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو تاریخی صورت میں بیان ہوں ، اور اگر ہم راوی کے ذہن سے ایسی یادداشتیں استخراج کر سکیں تو  مطلوبہ نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔

اگرچہ یہ کہنا  بہت آسان ہے، لیکن انٹرویو  لینے کے ماہر افراد بھی ایک گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ، بیس منٹ کی خالص یاداشتیں حاصل کر پاتے ہیں ۔  چونکہ ہمارے سامنے (راوی) ایک انسان  ہوتاہے اس لیے وہ یادداشتیں حاصل کرنا، جو ہم چاہتے ہیں، آسان کام نہیں ہوتا ۔

یادداشت کی بحث میں، دو مزیداصطلاحات بھی ہیں، حافظہ اور روایت۔ ان اصطلاحات کو زیادہ تر یونیورسٹیوں  (خصوصاً علم نفسیات) میں  تعریف کیا جاتا ہے۔ چونکہ آگے چل کر ہم انکو استعمال کریں گے، لہذا ٰ لازم ہے کہ ان کی تعریف بھی کر دی جائے ۔

حافظہ یہی ہمارا ذہن ہے، لیکن زندگی کے دوران  پیش آنے والے تمام واقعات ہمارے ذہن میں نہیں رہتے اور ہمیں ان کا صرف ایک حصہ یاد رہتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق پورا ذہن، حافظہ ہے اور جوچیز  ہماری یاد میں رہ جاتی ہے اسے یادداشت کہتے ہیں۔ ہم اس یادداشت کا جو ذکر کرتے ہیں اسے روایت کہتے ہیں۔

غیر مکتوب تاریخ میں، سب سے خالص  ترین خام مادہ، یاد داشت سے دقیق روایت حاصل کرنا ہے۔ بہت ہی درست روایت حاصل کرنا  ایک مشکل کام ہے، اورامکان ہے کہ  راوی مختلف اوقات میں،گوناگون حالات کی بنا پر،ایک ہی یادداشت کو مختلف شکلوں میں بیان کرے۔

مختلف شرائط میں، لوگوں کی یادداشت کی روایت بدل جاتی ہے۔ بہترین روایت وہ ہے جو بغیر کسی حب و بغض کے، یادداشت کی تفصیل کے ساتھ نقل ہو۔غیر مکتوب تاریخ کی مشکلات میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور خالص یادوں سے صحیح روایت اخذ کرنا  ایک محنت طلب کام ہے۔

ہر شخص کے حافظے کے تین حصے ہوتے ہیں: سیکھنا، محفوظ کرنا اور دوبارہ  یاد کرنا۔ انٹرویو میں انٹرویو لینے والے کا  ہنر، یاد کرنے والے حصے کو فعال کرنا ہے۔ اگر ہم راوی کے ذہن کو، اس کی یادیں بیان کرنے  کے لیے متحرک کر سکیں  تو  کامیاب ہو جائیں گے۔ 

 

 

[1] آگے چل کر یادداشت کی تصدیق کی بحث بھی آئے گی۔

oral-history.ir



 
صارفین کی تعداد: 297


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔