عراقی مراجع کی جانب سے امام خمینی کا استقبال

ترجمہ: محب رضا

2024-1-2


میرے نجف پہنچنے کے چند سال بعد، ایک دن انہوں نے کلاس میں اعلان کیا کہ آیت اللہ خمینی کاظمین میں ہیں۔ یہ ناقابل یقین تھا۔

ہم کچھ ساتھیوں نے، جن میں جناب شیخ محسن غروی قوچانی بھی شامل تھے، آقا خمینی کا پتہ لیا اور ان سے ملنے کاظمین چلے گئے۔ رات کے وقت ہم اس جگہ پہنچے، جہاں ہمارا خیال تھا کہ آقا خمینی موجود ہوں گے۔

وہاں کچھ لوگ سو رہے تھے، ہم بھی سو گئے۔ میں صبح کی اذان کے قریب، ایک آشنا آواز سن کر اٹھا اور متوجہ ہوا کہ وہ کسی سے بات کر رہے ہیں۔ جی ہاں، شیخ نصر اللہ خلخالی، آیت اللہ خمینی سے گفتگو میں مشغول تھے۔ میں ان کے ساتھ حرم مطہر گیا، ان سے بات چیت کی اور بوسہ بھی دیا، جب میں رویا تو آقا خمینی بھی رو پڑے۔

بہت سے لوگ، بالخصوص نجف، کربلا اور دیگر شہروں سے کافی علما تشریف لائے تھے۔ وہاں بہت سی تقریریں کی گئیں، جن میں جناب شیخ محمد مہدی آصفی اور میں نے, فارسی اور عربی  زبان میں انقلاب کی عظمت کے بارے میں بات کی۔

ان کے عراق پہنچنے کے فوراً بعد، میں نے ان کے دروس کے جلسات منعقد کرنے کے بارے میں کئی بار بات چیت کی۔

چند دنوں بعد، آیت اللہ خمینی نے، سامرا کے کاظمین سے نزدیک ہونے کی وجہ سے، ادھر کا سفر اختیار کیا، اور ہم چار افراد ان کے ہمراہ گاڑی میں تھے۔ جناب خلخالی آگے بیٹھے تھے اور ہم پیچھے، آقا خمینی درمیان میں، آقا مصطفٰی دائیں جانب اور میں بائیں جانب بیٹھا تھا۔ راستے میں آقا نے جناب مصطفیٰ سے کہا: میری پیٹھ کی تھوڑی مالش کر دو، میری کمر میں درد ہے۔ میں نے پوچھا: "کیا اس جلاوطنی سے آپ کی کمر میں درد ہو گیا؟" انہوں نے کہا: "بہت سی چیزوں سے"۔

سامرا میں بھی بہت شاندار استقبال ہوا۔ علمائے کرام کے علاوہ سامرا کے مفتی اعظم بھی جناب خمینی کی رہائش گاہ پر آئے۔ مجھے کہا گیا کہ بہتر ہے کہ آپ یہاں بات کریں۔ میں کھڑا ہو گیا،اور عربی زبان میں بات کرتے ہوئے، جناب خمینی کا تعارف ان کے سامنے پیش کیا۔

ہم سامرا میں کچھ دن رکے۔ چونکہ عربی سمجھنے والے سامعین کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، لہذاٰ میں ہر روز عربی میں تقریر کرتا تاکہ انکو آیت اللہ خمینی سے زیادہ سے زیادہ آشنا کر سکوں۔

سامرہ کے بعد ہم کربلا چلے گئے، جہاں جناب سید محمد شیرازی نے ہمارا پرتپاک اور شاندار استقبال کیا۔

البتہ میں نے سنا کہ کربلا میں موجود ایرانی قونصل خانے نے وہاں مقیم طلباء اور ایرانیوں میں، ان کے درمیان موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ افواہ پھیلا دی کہ وہ استقبال کرنے والوں کی تصویریں کھینچ رہے ہیں اور اس کے بعد انکے پاسپورٹوں کی تجدید نہیں کریں گے اور انہیں ایران میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آیت اللہ خمینی کے استقبال کرنے اور ان سے ملنے آنے والوں کو دھمکایا گیا،  لیکن ان کی تمام کوششیں بے اثر رہیں۔

اہل کویت میں سے ایک فرد نے آیت اللہ خمینی کی رہائش کے لیے، چند دنوں کے لیے ایک گھر کا انتظام کردیا۔ مغرب کے نزدیک سید محمد شیرازی نے مجھے پیغام بھیجا کہ اگر ممکن ہو تو آقا سے درخواست کریں کہ اگر ممکن  ہو تو آج میری جگہ نماز کی امامت کرا دیں۔ میں نے کہا:  "کسی اور سے کہہ سکتے ہیں؟" انہوں نے کہا: "وہ کسی اور کی بات نہیں مانتے"۔ میں نے بات کرنے کی ہامی بھر لی۔

آقا، حرم امام حسین علیہ السلام میں لوگوں کی ایک تعداد کے درمیان بیٹھے، زیارت پڑھ رہے تھے۔میں لوگوں کے درمیان میں سے ہوتا ہوا انکے پاس پہنچا اور عرض کی، "آقا آپ اپنے کام جلدی سمیٹ لیجیے، ہمیں نماز ادا کرنے جانا ہے" کہنے لگے: "کہاں؟" میں نے کہا: "صحن میں"۔ کہنے لگے: "مگر کیوں؟" میں نے کہا: " کیوں کی بات نہیں ہے، ہمیں جانا ہے اور صحن میں نماز جماعت ادا کرنی ہے۔"

اگرچہ وہ سید محمد کے گھر میں نہیں رکے تھے، لیکن اپنی اقامت گاہ میں، وہ دن رات انہی کے مہمان تھے۔ چونکہ میں نجف میں زیر تعلیم تھا، اس لیے کربلا میں رک نہیں سکتا تھا، چنانچہ ملا خراسانی  کے درس آیات الاحکام میں شرکت کے لیے، روزآنہ آقا غروی کے ہمراہ، رفت و آمد کرتا تھا۔ ہم نے آیت اللہ خمینی کو بھی بتا دیا تھا کہ ہم ہر وقت کربلا میں موجود نہیں ہوتے، ہمارے دروس کا سلسلہ ہے، تو انہوں نے فرمایا تھا کہ دروس کی تعطیل نہیں ہونا چاہیے، میں ہمیشہ مصطفٰی کو بھی یہی بات کہتا ہوں۔

اس آمد و رفت کے دوران، میں کوفہ اور نجف کے درمیان، حی السعد (سعدآباد) کے علاقے میں واقع مدرسہ جامعہ النجف گیا اور وہاں کے مدیر شیخ محمد کلانتر سے آقا خمینی کے استقبال کے بارے میں بات چیت کی۔ اس مدرسہ میں شیخ محمد علی مدرس افغانی، شیخ محمد ہادی معرفت، جناب باقری اور جناب ملکوتی سرابی جیسے نامور استاد موجود تھے۔ شیخ کلانتر طلبہ کو خود مختار سمجھتے تھے۔ مدرسہ میں ایک نوٹس لگا کر، کربلا اور نجف کے درمیان ایک کاروان سرائے میں آیت اللہ خمینی کے استقبال کے لیے جمع ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔

آیت اللہ خمینی نے کربلا میں اپنے قیام کی آخری چند راتوں تک، مغربین کی باجماعت نماز کی امامت کی اور آقا شیرازی ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے رہے۔

 آپ کربلا کے بعد نجف تشریف لائے، لوگ  نجف سے لے کر خان یونس تک آپ کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ یعنی نجف اور کربلا کے درمیان، (تقریباً 90 کلومیٹر کا فاصلہ) آپ کا استقبال نجف سے تقریباً 40-50 کلومیٹر پہلے شروع ہو گیا، خدا جانے اس استقبال کا انتظام کس نے کیا، لیکن یہ بہت شاندار استقبال تھا اور دیگر مراجعین کی جناب سے ایک مراجع کی یہ حمایت بہت جالب تھی۔

استقبال کے بعد، ہم اس گھر میں داخل ہوئے، جسے شیخ نصر اللہ خلخالی نے آیت اللہ خمینی کے لیے کرایہ پر لے کر قالین بچھائے تھے۔ اسکے بعد مراجعین آپ سے ملنے تشریف لائے، سب سے پہلے تشریف لانے والے مرجع, آقا خوئی اور آخری آقا حکیم تھے، آقا شاہرودی بھی تشریف آئے۔

آیت اللہ خمینی بھی آقا حکیم سے ملنے گئے، اس ملاقات میں، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ آقا حکیم اپنے بیٹھنے کی خاص جگہ سے ادھر ادھر کہیں نہیں گئے، بس کمرے کے دروازے تک آئے اور پھر واپس جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور آیت اللہ خمینی بھی ایک دوسری جگہ جا کر بیٹھ گئے۔

آیت اللہ خمینی نے بہت انکساری سے بات کرنا شروع کی: " آقا، آپ کو ایران کے حالات کی خبر ہے؟ کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم قیام کریں؟ جناب حکیم نے کہا: "نہیں، ہم پر کچھ فرض نہیں، ہمارا فریضہ وہی ہے جو امام حسن علیہ السلام کا وظیفہ تھا۔" آقا خمینی نے فرمایا: " درست ہے، امام حسن (ع) کا وظیفہ ایک خاص وقت پر اور امام حسین (ع) کا وظیفہ بھی ایک خاص وقت کے مطابق تھا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) دونوں نے اپنے الٰہی فرض پر عمل کیا؟" وہ کہنے لگے: "تو پھر؟" جناب خمینی نے جواب دیا: "ہم امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہیں، ناکہ امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں، کیونکہ رضا خان معاویہ تھا، مگر محمد رضا یزید ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے پردہ ہٹا دیا ہے اور سامنے آ کر اسلام سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہمارا کوئی فرض نہیں ہے؟" جناب حکیم نے کہا: "درست، ہو سکتا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کا زمانہ ہو، لیکن ہمارے پاس انصار نہیں ہیں۔ اگر ہم نے قیام کیا اور ناکام رہے تو مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ ایران کی شہنشاہی طاقت، مشرق وسطیٰ کی اہم ترین طاقتوں میں سے ایک ہے۔" آیت اللہ خمینی نے فرمایا: "ہم نے، جو آپ سے کم رتبہ ہیں اور آپ کے فرزند یا چھوٹے بھائی کے مانند ہیں، قیام کیا تھا۔ 15 خرداد کے واقعے میں بہت لوگ مارے گئے، کیوں؟ میرے سید کی خاطر؟ نہیں، یہ واضح ہے کہ ایرانی عوام موافق ہیں"۔ جناب حکیم نے کہا: "نہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں اور وہ ہمیں تنہا نہ چھوڑ دیں"۔ آیت اللہ خمینی نے فرمایا: "نہیں، آپ آگے آگے اور میں آپ کے پیچھے، شہنشاہیت کے خلاف پرچم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے اور نتیجہ حاصل کر لیں گے"۔ لیکن بہت بحث اور گفتگو کے بعد بھی آقا حکیم قانع نہیں ہوئے اور فرمایا: "اچھا ہے، آپ جو بھی تشخیص دیں، وہ قابل احترام ہے اور اسی کے مطابق عمل کریں۔ میں کچھ اور دلائل رکھتا ہوں"۔ جب ہم باہر آئے تو آقا دعائی سمیت دیگر ساتھیوں نے ہمیں گھیر لیا اور ملاقات کے بارے میں سوال کرنے لگے۔

جناب خوئی سے ملاقات کے دوران، انہوں نے اپنی مسند آیت اللہ خمینی کو دے دی اور آیت اللہ خمینی کی بہت زیادہ عزت و تکریم کی، حتیٰ کئی بار مجھ سے کہا، "مسئلہ، علم اور اس طرح کی چیزوں کا نہیں، مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ جب لوگ آتے ہیں اور مجھ سے یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ہم آپ کی تقلید کرتے ہیں، کیا آپ ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم آیت اللہ خمینی کو رقم دے دیں؟، میں بھی بہت خوشی سے کہتا ہوں: دے دو، یا کچھ لوگ آکر مجھ سے پوچھتے ہیں، آقا یہ کیسا ہے کہ ہم آیت اللہ خمینی کی تقلید کر لیں؟ میں کہتا ہوں: آپ جو بھی تشخیص کریں، اسی کے مطابق عمل کریں"۔

کچھ عرصے بعد، میں نے آقا خوئی کے گھر میں، آقا خمینی اور جناب حکیم کے درمیان ہونے وای گفتگو، جوانی کے جوش و خروش میں، مکمل تفصیل کے ساتھ، لفظ بلفظ نقل کر دی، جو ایک سیلاب کی طرح نجف بھر میں پھیل گئی۔

آیت اللہ خمینی نے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک فرد کو میرے پاس بھیجا، اس نے کہا: آقا کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ تشریف لا سکیں، تو کچھ گفتگو کرنی ہے۔ میں نے ہامی بھر لی.

آیت اللہ خمینی کی رہائش کے اوپر والی منزل میں، صرف میں، جناب خلخالی اور آقا خمینی موجود تھے۔ آیت اللہ خمینی نے فرمایا: "جناب صادقی، آپ نے کیا کر دیا؟ آقا حکیم  سے ملاقات کا ماجرا پورے نجف میں زبان زد عام ہے، آپ نے قصہ خوب گرما دیا ہے "۔ میں نے کہا: "میں نے وہی نقل کیا ہے جو ہوا تھا۔ درست ہے، اس میں کسی حد تک جوانی کے جذبات بھی شامل ہو گئے"۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: "اچھا، ہونا اس طرح ہونا چاہیے کہ کسی کو برا نہ لگے!

 

 

منبع: خاطرات آیت‌الله دکترمحمدصادق تهرانی، تهران، مؤسسه فرهنگی هنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1397، ص 97 – 101.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 3032


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔