شب عاشور کی مجلس میں اسد اللہ علم کی آمد

ترجمہ: محب رضا

2023-12-30


اس سے قبل کہ 1342 کے سال کی، شب عاشورہ کی تاریخی مجلس، خاص طور پر اسد اللہ کی حکومت کے عوامی مواخذے کی بات ہو، یہ بات واضح کرتا چلوں کہ چونکہ میں جانتا تھا کہ مسجد شیخ عبدالحسین، دینی اور اسلامی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور اس کی مجلس بہت اہم ہے اور امام خمینی بھی اس مسجد کو بہت اہمیت دیتے ہیں، چنانچہ اس لیے کہ محرم کے پہلے عشرے کی بے شمار مجالس مجھے تھکا نہ دیں اور میں اس مجلس کا حق پوری تندہی اور جانفشانی کے ساتھ ادا نہ کر سکوں، پچھلے سالوں کے برعکس، میں نے صبح اور دوپہر کی متعدد مجالس کو قبول نہیں کیا۔ شاید، فقط صبح کے وقت کی ایک مجلس اور ایک شام کی مجلس کا وعدہ کیا۔

شیخ عبدالحسین مسجد کی مجلس کے بعد، میں نے مسجد معیر میں ایک مجلس پڑھنے کا وعدہ کیا تھا۔ یعنی جب شیخ عبدالحسین مسجد کی مجلس ختم ہوتی، تو میں پاچنار بازار آتا اور وہاں سے  گاڑی میں سوار ہو کر خیابان خیام سے گزرتا، جو مسجد معیر کے قریب تھی۔ معیر مسجد، ایک گلی کے آخر میں تھی، جہاں تک گاڑی نہیں پہنچ سکتی تھی، لہذا گاڑی سڑک پر رک جاتی اور میں پیدل مسجد جاتا۔ مسجد معیر میں بھی بہت بڑا اجتماع ہوتا، لیکن تاثیر کے لحاظ سے، بحث کا اصل مرکز و محور، شیخ عبدالحسین مسجد ہی تھی۔

محرم کی پہلی رات سے میں نے شیخ عبدالحسین مسجد میں ایک بحث شروع کی۔ اب مجھے یاد نہیں کہ کیا نکات بیان ہوئے تھے، لیکن جو چیز مجھے یاد ہے، وہ یہ ہے کہ اجتماع ہر روز بڑھتا چلا گیا اور یہ اتنا زیادہ ہو گیا کہ مسجد کا صحن، گنبد کے نیچے اور مسجد کا ہال اور مدرسہ شیخ عبدالحسین، جو ایک الگ عمارت اور طلباء کا مرکز تھی، لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نہ صرف یہ جگہیں، بلکہ بازار بھی - جو شیخ عبدالحسین کی مسجد اور مدرسہ کے درمیان تھا - لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔

ساتویں اور آٹھویں شب سے ہی، انہوں نے درزیوں اور موچیوں کے بازار میں، خیابان خیام کے سامنے اور جہاں بھی ممکن ہوا، تمام مختلف کونوں میں لاؤڈ سپیکر لگا دئیے، ابھی بھی یہ ایسا ہی ہے جیسے میری آنکھوں کے سامنے ہو۔ محرم کی نویں شب یعنی آٹھویں روز، مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد، جب میں منبر پر بیٹھا تو دیکھا کہ، مسجد کے ہال کے اوپر والے ایوان میں، جو انفرادی نماز پڑھنے والوں کی جگہ تھی، دو کرسیوں پر، منبر کے بالکل سامنے، اس وقت کا وزیر اعظم اسد اللہ علم اور ناصری بیٹھے ہوئے ہیں۔ ساواکیوں کے علاوہ، کچھ فوجی کمانڈر بھی، جنہیں میں نے کئی مجالس ترحیم میں فوجی وردیوں میں ملبوس دیکھا تھا، اس رات کوٹ پینٹ پہنے، لوگوں کے درمیان، ہجوم کے اسی بے پناہ دباؤ میں بیٹھے تھے۔ میں ان میں سے کچھ کے چہروں سے آشنا تھا۔ جن کو میں نہیں جانتا تھا، وہ بھی بہت زیادہ تھے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کتنے محتاط تھے، لیکن بتایا گیا کہ ساواکیوں نے پہلے سے ہی تمام سیڑھیوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ وہ اس دن شام سے تیاری میں تھے کہ علم اور نصیری کے آمد کا انتظام کر لیں۔

میں نے اس رات، یعنی نویں محرم کی رات – وہ کہا، جو مجھے کہنا چاہیے تھا اور کہنا لازم  بھی تھا؛ لیکن عاشورہ کی رات کے برابر نہیں ۔ بلکہ میں نے کچھ اہم مطالب عاشورہ کی رات کے لیے رہنے دئیے۔ پھر تقریر کے دوران، میں نے کہا: "کل رات کو، جو کہ شب عاشورہ ہے، آج کی مجلس کی نسبت، بڑا اور اہم نتیجہ نکلے گا۔"

 

 

منبع: خاطرات و مبارزات حجت‌الاسلام فلسفی، مصاحبه‌ها: سیدحمید روحانی (زیارتی)، چ 1، 1376، تهران، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 255 – 256.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 448


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔