بارہویں محرم کی رات اور میری گرفتاری کا ماجرا

ترجمہ: محب رضا

2023-12-16


محرم کی گیارہویں رات میں نے جو کچھ بیان کیا وہ مطمئن کر دینے والا جواب تھا، اس لیے وہ لوگوں کے وجود کا حصہ بن گیا۔ اگلی رات [بارہویں محرم کی رات] میں نے پھر کہا: "آج کی رات امام حسین علیہ السلام کی مصیبت بیان کرنے کی آخری رات ہے۔ دیکھتے ہیں کل 12 محرم الحرام کے دن حکومت ہمارے ساتھ کیا کرتی ہے؟

میں منبر سے نیچے اترا اور دوسری مجلس کے لیے مسجد معیر چلا گیا۔ میں نے پھر وہاں اپنی بات کہی اور اعتراضات کو دہرایا۔ مجلس کے بعد، مسجد سے نکل کر میں ایک گلی میں داخل ہونے لگا، جہاں سے پیدل چل کر مجھے خیام اسٹریٹ پہنچنا تھا اور گاڑی میں بیٹھںا تھا۔

میں جیسے ہی مسجد معیر سے باہر نکلا تو ایک شخص خوفزدہ حالت میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا: "مسجد کی تمام دیواروں کے پیچھے پولیس والے کھڑے ہیں۔ دو تین نہیں، دس بیس نہیں، تیس، چالیس بھی نہیں۔ مسجد کے چاروں طرف ہر جگہ اہلکار موجود ہیں۔ چاہتا تھا کہ آپ مطلع رہیں۔"

میں نے کہا: ’’بہت اچھا‘‘ اور گلی میں داخل ہو گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں آئے تھے لیکن ان کا راستہ اس جگہ سے نہیں تھا کہ انہیں معلوم ہوتا کہ مسجد کی دیواروں کے پیچھے اتنی تعداد میں اہلکار جمع ہیں۔

میں سڑک پر پہنچ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اب ہمیں واپس مڑ کر گلوبندک چوک سے گزرنا تھا، اور وہاں سے سبزہ میدان کے سامنے بوذرجمہری اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے سیروس چوک۔

جیسے ہی ہم وہاں سے نکلے، ایک دو کاروں نے ہمارا پیچھا شروع کر دیا۔ ہم نے سوچا لازماً حاضرین محفل میں سے ہوں گے۔ ہم گلوبندک چوراہے سے واپس مڑ کر مسجد امام کے سامنے سے بھی گزر گئے۔ مسجد امام اور لوہاروں کے بازار کے درمیان، اچانک ایک جیپ ہماری کار کے آگے آ گئی اور اس بری طرح سے ہمارے ساتھ چلنے لگی کہ قریب تھا کہ ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ کیونکہ وہ مسلسل ہمارے آگے پیچھے ہو رہی تھی، تو میں نے ڈرائیور سے کہا، "یہ جیپ والا ایسا کیوں کر رہا ہے؟ ایک طرف ہٹ کر رک جاؤ! ایسا نا ہو کہ ہماری ٹکر ہو جائے۔" ڈرائیور نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔

جیپ بھی ہمارے آگے آکر رک گئی۔ رکتے ساتھ ہی اس میں سے کرنل طاہری نام کا ایک پتلا دبلا شخص نیچے اترا، اسی نے چند ماہ قبل مجھے حرم امام زادہ قاسم میں گرفتار کیا تھا،اور پمارے پاس آکر بولا: "آئیں جیپ میں چلتے ہیں"۔

گھر پہنچنے سے پہلے ہی میں گاڑی سے اتر کر جیپ میں سوار ہو گیا، جس کو کرنل طاہری چلا رہا تھا۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک اور گاڑی بھی تھی۔

خوب، میں سمجھ گیا تھا کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لہذاّ میرا ڈرائیور میرے بغیر، گھر چلا گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ گھر کے دروازے پر بھی کچھ ایلکار ناکہ لگائے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گاڑی آکر رکی ہے تو انہوں نے بیچارے ڈرائیور سے پوچھا کہ وہ کدھر ہیں؟، ڈرائیور نے کہا: "بیچ راستے میں ہمیں روک کر، کرنل انہیں جیپ میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے۔" لیکن انہوں نے ڈرائیور کو بہت مارا اور کہا: "ہم تمہارے ساتھ خود جاکر دیکھیں گے، اگر وہ پکڑا گیا ہے تو تمہیں چھوڑ دیں گے، لیکن اگر انہوں نے اسے نہیں پکڑا تو پھر تمہیں ہمیں بتانا ہوگا ہ وہ کہاں ہے؟"

مجھے اس قصے کے بارے میں معلوم نہیں تھا کیونکہ کرنل طاہری مجھے راستے سے ہی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس ماجرے کو ڈرائیور نے رہائی کے بعد مجھے بتایا تھا۔

بہرالحال کرنل طاہری نے جیپ ایک سڑک پر موڑی لیکن اس نے دور سے عزاداروں کے ایک دستہ کو آتے دیکھا۔ اس نے فوراً گاڑی واپس موڑی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں گاڑی کی اگلی سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر لوگوں نے مجھے دیکھ لیا تو وہ گاڑی کو گھیر لیں گے اور بلا خوف و تردد مجھے آزاد کرا لیں گے، کیونکہ بارہ محرم کی رات لوگوں کا جوش و جذبہ اپنے عروج پر تھا۔ لہذاٰ اس نے محض انکو دیکھتے ہی اپنا رخ موڑ لیا اور واپس اسی بوزرجمہری اسٹریٹ سے ہوتا ہوا ری اسٹریٹ پر آ گیا۔ وہاں اس نے پھر دیکھا کہ ایک اور دستہ آ رہا ہے! پھر واپس مڑا اور قیام چوک کی جانب آ گیا! ادھر بھی ایک ماتمی دستہ آ رہا تھا۔ وہ امین سلطان اسکوائر کی طرف مڑ گیا اور آخر کار ادھر ادھر سے ہوتا ہوا تھانے پہنچ گیا اور مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔

بعد میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے لانے کے کچھ دیر بعد دوسرے اہلکار، میرے ڈرائیور کے ساتھ اسی تھانے پہنچے اور دروازے پر ہی پوچھا کہ فلاں کو یہاں لائے ہیں؟ اور جب انہوں نے سنا: ہاں، کرنل طاہری خود لائے ہیں اور اب وہ انکے ساتھ اوپر ہے۔ انہوں نے اسی وقت ڈرائیور کو چھوڑ دیا اور وہ بھی کار میں گھر واپس چلا گیا۔

منبع: خاطرات و مبارزات حجت‌الاسلام فلسفی، مصاحبه‌ها: سیدحمید روحانی (زیارتی)، چ 1، 1376، تهران، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ص 271 – 272.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 1010


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔