خاموش فریاد

مجاہدین ناامید ہوگئے۔ ایک طرف سے بھوک اور پیاس تو دوسری طرف سے برف اور سردی نے انکی ہمت توڑ دی تھی۔ اگر مزید چند دنوں تک یہ سامان یہاں نہیں پہنچتا تو بہت سارے جوان شہید ہوجاتے۔ اس لئے جوانوں میں سے پانچ بہترین جوانوں نے رضاکارانہ طور پر اس درے میں اترنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ یہ ساز و سامان واپس لا سکیں۔ وہ لوگ درے میں اترے لیکن ہم نے جتنا بھی انکا انتظار کیا وہ واپس نہیں آئے

سید حمید شاھنگیان کی یادداشتیں

شعبہ موسیقی میں انقلاب

میں چاہتا تھا کہ انکے کام کا انداز تبدیل ہو اور یہی ہوا۔ وہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر دھنیں بنانے لگے ہم نے ان کی جگہ نوجوان ہنرمندوں کو دے دی۔ آہستہ آہستہ پروڈکشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ لوگ دھنیں بناتے اور انقلابی شاعر ان دھنوں کے حساب سے شعر لکھتے۔ مجھے یقین تھا کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو موسیقی کی دنیا میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 20

 بارزانی خود ماسکو گیا اور علوم سیاسی و نظامی کی تحصیل کے سلسلے میں وہاں شہر بدر کئے جانے والے کردیوں سے رابطہ استوار کیا اسکو سال ۱۹۵۸ میں عبد الکریم قاسم نے عراق بلوا لیا اور وہ شایان شان استقبال کے ساتھ دوبارہ عراق آگیا اور عراق کے شمالی حصے میں کرد نشینوں کے استقلال کے حامیان میں شمار ہونے لگا۔

گھٹن کے دور میں پندرہ خرداد کی برسی کی تقریب

ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ فیضیہ کے اندر مظاہرہ کریں گے۔ آقا نیک آبادی اور شہید سلیمی بہت متحرک تھے۔ ہم باہر جانا چاہتے تھے، مگر مدرسہ زیر محاصرہ  تھا۔ہم نےچھت کے اوپر سے نہر والی طرف چھلانگ لگا ئی اور گھر چلے گئے۔ اگلے روز  ہم دوبارہ دروازے  سے  داخل ہوئے اورمظاہرہ شروع  کردیا۔

معصومہ رسولی کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

نقلی گل لالہ کا گلدستہ

دفاع مقدس کے دوران امدادی کارروائیوں کی یادیں

لکڑی کے دستے والے تاروں کو مٹی کے تیل والے ہیٹر پر رکھ کر انتظار کرتے تاکہ وہ گرم ہوجائے اور ہم اسے آرام سے ڈیزائین دے سکیں۔ ساٹن کے کپڑے پر جیلیٹن مل کر اسکے سوکھنے کا انتظار کرتے۔ اسکے بعد میرے والدہ اسکے اوپر گل لالہ کی بناتیں اور اسے اپنے پاس موجود سامان سے مخصوص انداز میں موڑ دیتیں اور اس طرح ایک ایک کرکے گل لالہ بنتے چلے گئے۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 19

مجھے کوئی امید بھی نہ تھی کہ میری والدہ وقت رخصت کچھ پیسے مجھے دے پائیں گی۔ لہذا وہ ۳۰ اپریل ۱۹۶۶ کا دن تھا جب میں، خدا کا نام لے کر اور اسکے توکل کے ہی سہارے صرف و نحو کی دو کتابوں کو لے کر، اس قرآن کریم کو سینے سے لگائے گھر سے نکلا جو میری ماں نے مجھے تحفہمیں  دیا تھا اور بغیر کسی زاد راہ کے عراق کے سفر پر روانہ ہو گیا

حلبچہ پر بمباری کا واقعہ

ایک گھنٹہ پہلے جب ہوائی جہاز شہر کی جانب ڈایو لگا رہا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا وہ سفید بادل جو جلد ہی غائب ہوگیا اس گلی میں بسنے والے افراد کے قتل کا باعث ہوگا۔ بمباری کے وقت ان کم سن اور نوزائیدہ بچوں کی حالت کا تصور ایک ایسا مرثیہ ہے جس کا ذکر مصیبت منبر قلم سے غیر ممکن نظر آتا ہے۔

جہد مسلسل کا مثالی نمونہ آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی

سلام علی ابراہیم

آج اسلامی جمہوریہ ایران عالمی ظالمانہ سسٹم کے خلاف دنیا بھر کے مظلوم عوام کی حقیقی آواز بن چکا ہے جن کا تعلق چاہے کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ مظبوط علمی اور سیاسی شخصیت اور شجاعانہ اقدامات آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا وہ خاصہ ہے جو ایک عالمی لیڈر میں بہت ہی کم نظر آتی ہے۔

اسد اللہ تجریشی کی یادداشتیں

بائیکاٹ

جیل کی اُس زمانے کی اصطلاح کے مطابق میرا بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ بائیکاٹ یعنی کسی کو بھی یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ سلام کا جواب دے، ساتھ کھانا کھائے، گفتگو کرے، ورزش کرے، یا کوئی بھی اور کام انجام دے

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 18

وہ جوان چونکہ اور امانات کے دیگر لوگوں کی طرح طلباء پر اعتماد اور بھروسہ رکھتا تھا اسی لئے وہ سارے مجمعے کو چھوڑ کر میری جانب آیا اس کا ایک طاب علم پر اعتماد کرنا مجھے مجبور کرگیا کہ اس کے اس بھرم کو ٹوٹنے نہ دوں لہذا میں نے اس کو مثبت جواب دیا اور فوراً اس پستول کو لے کر اپنے گھر آگیا اور اپنی والدہ سے کہا : یہ امانت ہے اسکے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہئے گا اور اسکی خبر کسی کو ہونے نہ پائے ...

کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔

تم جلدی کیوں جاگے؟

بظاہر، ان افراد کی  جیل میں کی جانے والی مزاحمت، ان کے گھر والوں تک منتقل ہو گئی اور بعض علماء اور مراجع کرام بھی اس  احتجاج میں شامل ہو گئے، اس صورتحال نے انہیں اپنا حکم واپس لینے پر مجبور کیا۔
 

خاموش فریاد

مجاہدین ناامید ہوگئے۔ ایک طرف سے بھوک اور پیاس تو دوسری طرف سے برف اور سردی نے انکی ہمت توڑ دی تھی۔ اگر مزید چند دنوں تک یہ سامان یہاں نہیں پہنچتا تو بہت سارے جوان شہید ہوجاتے۔ اس لئے جوانوں میں سے پانچ بہترین جوانوں نے رضاکارانہ طور پر اس درے میں اترنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ یہ ساز و سامان واپس لا سکیں۔ وہ لوگ درے میں اترے لیکن ہم نے جتنا بھی انکا انتظار کیا وہ واپس نہیں آئے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔