اہواز کے اساتذہ کی زبانی عشرہ فجر کے دو یادگار واقعات
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-10-16
جنگی نمائش سے میدان جنگ تک
راوی: ایرج حیدری نیا
1986 کا عشرہ فجر قریب آ رہا تھا۔ میں نے کلاس میں اعلان کیا: "جس کے پاس کوئی آئیڈیا یا تجویز ہے، یہاں آکر اس کا اعلان کرےتاکہ ہم اس سال کی اسکول کی نمائش میں اسے پیش کر سکیں۔" اسمبلی ختم ہوئی تو جوان طلبا میرے ارد گرد جمع ہو گئے۔ آئیڈیاز اور تجاویز کا انبار لگ گیا، میں چونک گیا، میں نے "یا علی" کہا اور طلباکے ساتھ کام میں لگ گیا۔ سب سے پہلے، ہم نے نمائش ہال تیار کیا. طلبا دن رات ایک کر کے لگے ہوئےتھے؛ حتی اپنے گھروں کو بھی جانے کو تیار نہیں تھے، زبردستی انہیں میں نے گھر بھیجا۔ کمرے بہت سجے ہوئے تھے اور سجاوٹ مختلف انداز میں جھلک رہی تھی۔ ہم نے "گمنام شہداء" سے منسوب کمرے میں ان کے فرضی گمشدہ مزاروں پر چھوٹے چھوٹے چند پتھر رکھ دیئے۔ طلبا گھر سے آئی ڈی ٹیگز اور یادگار اشیا ءلے آئے اور انہیں قبروں کے اوپر شیشے والے خانے میں رکھ دیا۔ "شہداء اور سپاییوں کی تصاویر" والے کمرے کو بھی طلبا نے خود تیار کیا اور سجایا تھا۔ "وار آپریشنز" والا کمرہ جنگی علاقوں ، مورچوں اور خط مقدم پر بنے ٹیلوں کا منظر پیش کر رہا تھا۔ طلبا نے مقدس دفاع کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور انہیں نمائش کے آغاز سے پہلے، مہمانوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک بروشر میں تبدیل کر دیا۔ میں نے دو سپاہیوں سے بھی بات کی تاکہ وہ ان کمروں میں تشریف لائیں۔ افتتاح سے دو دن پہلے، ایک سٹوڈنٹ نے کہا، "میرے پاس ایک تجویز ہے"۔ میں نے کہا، "جی بتائیے"
وہ بولا: "سر! ہم دوسرے اسکولوں کو بھی دعوت نامے بھیج سکتے ہیں"۔
یہ ایک اچھا آئیڈیا تھا۔ طلبا جلدی سے اس کام میں لگ گئے اور دعوت نامے تیار کر کے اسکولوں تک پہنچا آئے۔افتتاحیے کی رات میں نے ٹیپ آن کیا، میں نے انقلابی اور حماسی ترانوں کا انتخاب پہلے ہی کر رکھا تھا۔ انقلابی ترانوں کے ساتھ لالٹینوں اور موم بتیوں کی ہلکی ہلکی ٹمٹماتی روشنی نے ایک دلنشین اور خوشگوار ماحول پیدا کر دیا۔ ہم سپاہ پاسداران سے زیادہ جنگی سازوسامان تو نہیں لا سکے تھے لیکن پھر بھی، جنگی سازوسامان اور ہتھیاروں والا کمرہ سب سے زیادہ پر رونق لگ رہا تھا، اور طلبا ان کمروں کے انچارج کی وضاحتی گفتگو کو جوش و خروش سے سن رہے تھے۔ اساتذہ اور تربیتی امور کے ذمہ دار افراد نے فیملیز اور طلباء کے ساتھ نمائش کا دورہ کیا اور ہمارا شکریہ ادا کیا۔ چند ماہ بعد محاذ جنگ پر روانگی تھی ، اسی اسکول کے بہت سے طلبا بھی روانہ ہوئے۔ یہ وہ جوان تھے جنہوں نے یا تو نمائش کے انعقاد میں ہماری مدد کی تھی یا وہ مہمان تھے اور محاذ جنگ وہ میرے اور دوسرے اساتذہ کے شانہ بشانہ بہادری سے لڑے اور آخر کار جام شہادت نوش کر گئے[1]
عشرہ فجر میں زندگی
راوی: محمد مکتبی
صرف عشرہ فجر کے ایام ہی وہ ایام ہوتے تھے جب ذہین اور نکمے طلاب کی کیفیت ایک جیسی ہوتی تھی۔ سب بے تاب اور منتظر نظر آتے تھے۔ بیت سیاح اسکول میں، اگرچہ طلبہ کی تعداد زیادہ تھی،لیکن ہمارا کام شب و روز جاری رہتا تھا۔ عشرہ فجر شروع ہونے سے پہلے والے جمعے کے دن ہم طلبا کے ایک گروپ کے ساتھ اسکول آتے اور کلاس روم اور صحن کو دھو دیتے، اور عشرہ فجر شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے طلبا اسکول کو سجانا شروع کر دیتے۔ اسکول کے اندرونی راستے اور کلاس روم امام کی تصویروں، رنگ برنگے جھنڈوں اور انقلابی نعروں سے بھرے ہوتے۔ ان سب میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہوتی تھی وہ دیواروں پر لگی ہوئی وہ خبریں ہوتی تھیں جو ان طلبا نے خود تیار کی ہوتی تھیں۔ ایک بار، انہوں نے 85 دیواری اخبار بنائے. ہال کے دونوں اطراف اخبارات کی نمائش لگی ہوئی تھی۔ عشرہ فجر کے دنوں میں ہمارے روزانہ ساڑھے تین گھنٹے کے پروگرام ہوتے تھے۔ تقریر، ترانے، ٹیبلو، مقابلے اور دیگر کئی پروگرام۔ اسکول کے جوان طلبا فارغ نہیں بیٹھتے تھے۔ ایک امام کی تصویر بناتا، تو دوسرا خطاطی کرتا اور تیسراتقریریں اور مضامین لکھتا۔ رات کو ایک یا دو افراد باری باری اسکول کی پہرہ داری کرتے تاکہ کوئی شرارتی لڑکا ان کی سجاوٹ کو خراب نہ کرے۔
اسکول کے پاس چونکہ زیادہ بجٹ نہیں ہوتا تھا، اس لیے ہمیں طلبا کے وسائل ہی استعمال کرنے پڑتے تھے۔ ترانہ پیش کرنے والے گروہ کے لیے، میں طلبا سے کہہ دیتا تھا کہ جس کے پاس اپنی یا بھائی کی سفید شرٹ یا کالی پینٹ ہے وہ پہن کر آئے۔ کالی پینٹ پر سفید شرٹیں اس پروگرام کو خوبصورت بنا دیتی تھیں ۔ ہمارے پاس موسیقی کے آلات نہیں تھے، ہم ٹیپ میں کیسٹ لگاتے اور طلبا اس کی موسیقی کی دھن پر ترانہ پڑھتے تھے۔
اس طرح کے پروگرام میں ہمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا، کبھی کبھی ترانہ پیش کرنے والا ہی بیمار ہوجاتا اور پھر پورا گروپ خراب ہوجاتا، یا تھیٹر گروپ کا کوئی شخص بیمار ہوجاتا تو ہمیں اسے فوری طور پر تبدیل کرنا پڑا۔
آخری پروگرام سائنس اور کھیلوں کا مقابلہ ہوتا تھا۔ ہر کلاس سے حصہ لینے والے طلبا کی مجموعی تعدادپانچ سو سے زیادہ ہوجاتی تھی۔ جیتنے والوں کو انعامات دیے جاتے۔ ایک اور پروگرام ، جس سے طلبا بہت لطف اندوز ہوتے، وہ بیت سیاح اسکول [2] سے جامع مسجد تک کا مارچ تھاجو کئی[3] کلو میٹر پر محیط تھا۔
[1] 1986 سے 1990 تک، باقر بورڈ اہواز کے ایک ضلع -1کے تعلیمی محکمے کے انچارج تھے۔ اس کے بعد، انہوں نے 1992 تک اہواز کے "شہدا ہائی سکول " میں عربی اور قرآن پڑھایا1992 میں انہیں صوبائی تعلیمی امور میں واپس بلایا گیا اور اہواز کے ضلع -1 کے ڈپٹی ریسرچ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینا شروع کیں۔
[2] اہواز کے علاقے "کمپلو" میں لڑکوں کے سیکنڈری اسکولوں میں سے ایک اسکول ہے۔
[3] بابایی، زینب، آش پشت جبھہ۔ انتشارات راہ یار، 2021، ص15
صارفین کی تعداد: 19








گذشتہ مطالب
- اہواز کے اساتذہ کی زبانی عشرہ فجر کے دو یادگار واقعات
- کامیابی کے بعد
- 18 سالہ نوجوان کی پٹائی
- ماموستا 47
- شہید سید اسد اللہ لاجوردی کے بیانات سے اقتباس
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
اہواز کے اساتذہ کی زبانی عشرہ فجر کے دو یادگار واقعات
صرف عشرہ فجر کے ایام ہی وہ ایام ہوتے تھے جب ذہین اور نکمے طلاب کی کیفیت ایک جیسی ہوتی تھی۔ سب بے تاب اور منتظر نظر آتے تھے۔ بیت سیاح اسکول میں، اگرچہ طلبہ کی تعداد زیادہ تھی،لیکن ہمارا کام شب و روز جاری رہتا تھا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

