نصر اللہ فتحیان کی حکایت

جنگ میں طبی امداد

محیا حافظی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-4-15


نصر اللہ فتحیان، جنوب کی جنگی طبی امداد کے انچارج تھے، دفاع مقدس کے دوران انہوں نے پیدائش سے کمان تک کی اپنی حکایات، کتاب ’’بھداری جنگی(جنگی طبی امداد)‘‘ میں بیان کی ہیں۔ یہ کتاب، کمانڈر علی اصغر ملا کے فتحیان صاحب کے ساتھ 60 گھنٹوں پر مشتمل انٹرویوز کا نتیجہ ہے، جو 13 ابواب اور 26 موضوع محور اور وقت کے سفر والے مکالموں پر مشتمل ہے جس کی تدوین کا کام عباس حیدری مقدم آرانی نے انجام دیا ہے۔ کتاب کی تدوین میں انٹرویو کے سوالات کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران دشمن کی شدید گولہ باری اور لڑائی والے صوبوں کے طبی مراکز کی محدودیتوں کے باعث زخیموں کی طبی امداد بہت دشوار تھی۔ سپاہ کے میڈیکل یونٹ میں بھی اس کے حالیہ قیام کی وجہ سے ابھی تک مؤثر خدمات کی صلاحیت اور گنجائش موجود نہیں تھی۔ دوسری جانب، رضا کار ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے گروہوں کو منظم کرنے اور رابطے کے لیے مختلف اداروں جیسے وزارت صحت، تعمیراتی جہاد، ہلال احمر وغیرہ میں ایک نئی ساخت اور تشکیل کی ضرورت تھی۔ اس امدادی یونٹ نے آپریشنز میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور ہر آپریشن کا ایک مستقل یونٹ بن گیا تھا۔

کتاب کا پہلا باب راوی کی پیدائش سے اسلامی انقلاب کی فتح تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس باب میں راوی کی جائے پیدائش اور ان کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ انقلاب کی فتح کے بعد، راوی اور ان کے کچھ دوستوں نے اصفہان میں سپاہ کے شاہینِ شہر کیمپ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد وہ میڈیکل اسسٹنس کورس کرنے تہران چلے گئے اور اس طرح سے انہوں نے سپاہ کے طبی شعبے میں قدم رکھا۔ سپاہ پاسداران میں ان کا شامل ہونا اور کردستان کے محاذ میں ان کی شرکت وہ موضوعات ہیں جو دوسرے باب میں بیان ہوئے ہیں۔

نومبر 1981 کے شروع(آبان 1360 کے وسط) میں راوی کو سپاہ کے ادارۂ صحت کی طرف سے جنوبی محاذوں کی جنگی طبی امداد کی تقویت کے لیے خوزستان بھیجا گیا اور آپریشن والے علاقوں کی طبی امداد کے امور انہیں سونپ دیے گئے۔ سپاہ پاسداران کے کمانڈر، محسن رضائی کے حکم پر انہوں نے سپاہ کے طبی امداد کے انچارج کے ساتھ مل کر حفظان صحت اور میڈیکل ذمہ داریوں اور ہدایات کو ترتیب دیا اور اس کے ساتھ جنگی طبی امداد کے شعبے کو بھی ایک ساخت اور ترتیب دی۔ سپاہ کی ساخت اور اس کی توسیع کے ساتھ ہی انہیں کربلا بیس کے طبی امداد کے امور کا انچارج بھی بنا دیا گیا۔

کتاب کا چوتھے سے تیرھواں مکالمہ، جنگی طبی امداد کی صورتحال اور آپریشن فتح المبین، بیت المقدس، رمضان، محرم، والفجر مقدماتی، والفجر1، والفجر2، والفجر4، خیبر، بدر اور والفجر8 میں راوی کی سرگرمیوں کے بارے میں ہے۔ جنگ کے طولانی ہونے اور پھیل جانے کے باعث محاذ کے پچھلے حصے میں ’’ستاد مرکزی امداد و درمان جبھہ(محاذ کی طبی امداد کا جنرل ہیڈکوارٹر)‘‘ نامی ایک ادارہ شروع کیا گیا جس کے بارے میں چودھویں مکالمے میں بات کی گئی ہے۔ اگلے مکالمے میں کیمیائی حملے کے متأثرین کے علاج، ٹریننگ، افرادی قوت، ادویات اور خون کی فراہمی کے طریقے، رسد، مواصلات، مشہوری، طبی سرگرمیوں کی توسیع، جنگی طبی امداد میں اختراعات اور نتائج کے بارے می گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب کے آخر میں دستاویزات، تصویریں اور ایک اشاریہ پیش کیا گیا۔ دستاویزات کے حصے کے شروع میں جنگی طبی امداد سے متعلق، ان ٹائپ شدہ نکات(بغیر تصویر) کو پیش کیا گیا ہے جو آپریشن والفجر۔8 شروع ہونے سے کچھ گھنٹے پہلے 9 فروری 1968(20 بھمن 1346) کو ہونے والے اجلاس میں درج کیے گئے تھے۔ کتاب کے متن میں بھی ذیلی سرخیوں کے ساتھ متعلقہ افراد اور آپریشنل نقشوں کی تصاویر پیش کی گئی ہیں۔ کتاب کے آخر میں موجود تصویریں اور آپریشنل نقشے، کلر پرنٹ کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔

کتاب ’’روایت نصراللہ فتحیان / بھداری رزمی‘‘ کے پہلے ایڈیشن کو سن 2023(1402) میں ’’مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس‘‘ نے 696 صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع کیا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 24


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘

راوی: مولاداد رشیدی
دشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔