آپ اس کے ساتھ کیوں آئیں؟

مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-11-17


انگلینڈ میں رضائیوں کے والد کی اعزازی تقریب منعقد ہونی تھی اور مجھے بھی غفاری اور محتشم صاحب کے ساتھ وہاں جانا تھا، لیکن میں کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے پیرس چلی گئی.

ہمارا پیرس میں ایک دفتر تھا کہ جس کے متعلقہ امور کی انجام دہی کا انچارج ایک مومن شخص تھا. اطلاعیے لکھنا اور دوسرے شہروں میں ان کی نشر و اشاعت وغیرہ اس کے ذمے تھی. مجھے(طلیعہ سرور) انہی لوگوں میں سے کسی کے ساتھ انگلینڈ جانا تھا. تمام تقریروں اور اعزازی تقریب منعقد کرنے کے لیے لندن میں ایک یونیورسٹی کرائے پر لی گئی. آفس کے انچارج کو کوئی کام پڑ گیا تھا اس نے معذرت کر لی تھی کہ ابھی وہ میرے ساتھ نہیں آسکتا. طے پایا کہ وہاں موجود دوسرا شخص مجھے لے جائے گا. لندن میں مجھے خرازی صاحب کے گھر جانا تھا. میں نے اسے پتہ دے دیا. جب ہم خرازی صاحب کے گھر پہنچے تو وہ گاڑی سے نہیں اترا. جب خرازی صاحب میرے استقبال کے لیے آرہے تھے تو اچانک ان کا چہرا غصے سے لال ہوگیا. انہوں نے آہستہ سے مجھ سے کہا: "آپ اس کے ساتھ کیوں آئیں؟" اور پھر انہوں نے ڈرائیور اور اس شخص کو دفتر لوٹنے کے لیے روانہ کردیا.

مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، میں نے حیرت اور تھوڑے بہت ڈر کے ساتھ خرازی صاحب سے پوچھا: "وہ کون ہے؟" انہوں نے جواب دیا: "وہ ایک ساواکی ہے جو اب تک ہمارے بہت سے ساتھیوں کو بے نقاب کر چکا ہے. جب بھی کوئی ایران جانا چاہتا ہے تو وہ پہلے ہی اس کا نام اور معلومات، ساواک اور ایئرپورٹ والوں کو بھیج دیتا ہے تاکہ اس شخص کے پہنچتے ہی اسے گرفتار کرلیا جائے." ہم سب خوفزدہ تھے کیونکہ اسے تمام اطلاعیوں اور معاملات کی خبر تھی، ہم خوش بھی تھے کہ ہمیں پتا چل چکا تھا کہ حالات کیسے ہیں اور پھر وہاں سے میں پیرس نہیں گئی.

 جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایک یونیورسٹی کرائے پر لی گئی تھی. پہلے بنی صدر صاحب نے تقریر کی، انہیں مختصر گفتگو کے لیے کہا گیا تھا، لیکن انہوں نے اتنی دیر بک بک کی کہ پھول بھی مرجھا گئے، انگریزی زبان میں بھی اعلان ہوا کہ وقت ختم ہو چکا ہے اور ہمیں یونیورسٹی خالی کرنی ہے، اس کے بعد رضائی اور علی بابائی کسی نے بھی تقریر نہیں کی اور یہ نشست ایک سانحے میں تبدیل ہوگئی.

 

 

 

 

منبع: خاطرات زنان مبارز، به کوشش فائزه توکلی، تهران، عروج، 1399(2020)، ص 129.



 
صارفین کی تعداد: 50


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

نوحہ خوانی کی آڑ میں اہلکاروں کو چکمہ

اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا. میں نے خود کو ایک جوان نوحہ خواں کے پاس پایا جو زنجیر زنی کرنے والوں کے لیے تھکی ہوئی آواز میں نوحہ پڑھ رہا تھا. میں نے جلدی سے کہا: مولا حسین ع تمہیں اس کی جزا دیں، تم بہت تھک گئے ہو، لاؤ میں تمہاری مدد کروں اور میں نے مائیک میں پڑھنا شروع کردیا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔