ورکشاپ

زبانی تاریخ سے آشنائی – 12

ایڈیٹنگ کے قوانین کی رعایت

ترجمہ: محب رضا

2024-8-12


ایڈیٹنگ کے قوانین کی رعایت

تدوین )مرتب کرنے(کے دوران ایڈیٹنگ  کے قوانین کی رعایت

تدوین کے دوران ایک اہم نکتہ ، تدوین  کرنے والے  کی جانب سے نگارش کے قواعد اور ایڈیٹنگ کے اصولوں کی رعایت ہے۔تدوین کے دوران سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر  تدوین کرنے والا اس خیا ل سے،کہ کتاب بعد میں ایڈیٹر  کے  ہاتھوں ایڈٹ    ہو جائے گی  ، خود  ایڈیٹنگ  میں کوتاہی کرے ۔ اس سوچ کا مطلب یہ ہے کہ تدوین کرنے والا اپنے کام کی قدر کا قائل نہیں۔

تدوین کرنے والے کو اپنے کام  پر اتنا اطمینان ہونا چاہیے کہ ایڈیٹر کو کام سونپنے کے بعد وہ متن میں کوئی تبدیلی نہ کر پائے ۔

 

مرتب کرنے کے دوران متن کی  تصدیق

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ متن کی تصدیق ہر جگہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی لازم۔ لیکن راوی کی یادداشتوں کی تدوین  کرتے وقت اس نکتہ کی جانب توجہ رہے کہ زبانی تاریخ کا مورخ ، ایک ٹیپ ریکارڈر کی مانند نہیں ہے کہ راوی کے توسط سے جو گفتگو بھی بیان ہو اسے بغیر تصدیق کے قبول  کرکے تحریر کر دے۔جب ہم  تدوین کرنے والے کے عنوان سے راوی کی گفتگو پڑھتے ہیں، تو ہم اس کے ایک حصے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن گفتگو کے اس دوسرے حصے کے بارے میں ،جسے ہم قبول نہیں کرتے، راوی سے بحث کرتے ہیں ۔ ان میں اکثر موارد کے بارے میں دونوں میں سے ایک  فریق مطمئن ہو جاتا ہے  اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔البتہ گفتگو  کا ایک حصہ ایسا بھی ہو سکتا  ہے جسے دونوں   ہی فریق تبدیل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں ۔ یہاں  ہمیں تدوین کرنے والے کے طور پر  دیگر  ذرائع سے ایسی دستاویزات تلاش کرنا  چاہیے جن کے توسط  سے صحیح نکات کی تشخیص کر سکیں ۔

اس مرحلے کے بعد  بھی گفتگو کا ایک حصہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس  کے بارے میں اختلاف رائے ہو۔اگر  یہ نکات  انحراف یا توہین   وغیرہ  کے حامل ہوں تو ان حصوں کو ناشر کی رضامندی کے ساتھ  حذف کردینا چاہیے؛چونکہ یہ ذمہ داری   تدوین  کرنے  والے  کےکندھوں پر ہے، اس لیے اسے ہر صورت شریعت، رسم و رواج  اور قانونی   پہلووَں  کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

لیکن اگر ان حصوں میں توہین یا ہتک عزت وغیرہ شامل نہ ہوں  تو تدوین کرنے والے کو حاشیہ میں وضاحت کرنی چاہیے کہ  یہ  نکات  راوی کے توسط  سے بیان ہوئے ہیں، البتہ اس حوالے سے  اور روایتیں بھی  موجود ہیں ، جیسا کہ فلاں ماخذ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

ایسی صورتحال  بہت کم پیش آئے گی کہ  راوی سے بحث کے بعد، دیگر ماخذ تلاش کرکے اور انحرافی یاتوہین آمیز حصے الگ کرنے کے بعد بھی  اختلاف نظر  باقی رہے ، لیکن پھر بھی، اگر ایسا کوئی نکتہ باقی  رہ جائے  تو لازم ہے کہ پاورقی میں مختصر جملوں اور مستند ذرائع کے ساتھ اس کی وضاحت کی جائے، تاکہ قاری متوجہ رہے  کہ تدوین کرنے والامتن سے لاتعلق نہیں تھا۔

یہ ایک علمی  نکتہ  ہے اور خاص طور پر غیر ممالک میں انجام پانے والے  کاموں میں مرسوم ہے  کہ اگرچہ مرتب  کرنے والے یا ایڈیٹر، کسی جملے کے غلط ہونے کے بارے میں  یقین  رکھتے ہوں لیکن چونکہ  وہ راوی سے متعلق ہوتا ہے  ، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ اس میں  مداخلت کریں، بلکہ  وہ حاشیہ میں بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت دوسرے  منبع یا منابع میں مختلف انداز  سے نقل ہوئی ہے۔

حذف    کرنےکے بارے میں

جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ  مرتب کرنےوالے کو کسی بھی ایسی چیز کو شائع کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے جس میں انحراف، توہین، ہتک، جھوٹ  یا  اس قسم کی چیزیں موجود ہوں ۔ حتی اگر  دیگر افراد اس مسئلے کی جانب متوجہ نہ بھی ہوں  تو بھی ہمیں  تدوین کرنے والےکے  عنوان سے پیشہ ورانہ طور پر  جھوٹ  یا دوسروں پر  تہمت لگانے سے پہلوتہی کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر  اس  طرح کرنے کا نتیجہ   یہ نکلے کہ کام چھپ  نہ سکے ،  تب بھی اس مسئلہ پر اصرار کیا جانا چاہیے۔

تدوین کرنے والے کا مقدمہ

جب کتاب، ابواب کی  طے کردہ  ترتیب کے مطابق  ، پہلے باب سے آخری باب تک مدون  ہو جائے تو ان ابواب سے پہلے اور بعد میں چند  حصوں  کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ متن کامل ہو جائے  ۔سب سے پہلے،  لازم ہے کہ تدوین کرنے والا کتاب کے آغاز میں مقدمہ لکھے۔ یہ مقدمہ اس متن  سے فرق کرتا ہے  جو ممکنہ طور پرناشر یا راوی لکھتے ہیں  ۔عام طور پر، اس مقدمہ میں  کام کی توضیح دی جاتی ہے ، مثال کے طور پر،انٹرویو کس کے توسط سے اور کدھر انجام پائے ؛ انٹرویو کے کتنے  سیشن ہوئے ؛ انٹرویو کے دورانیے  ،  یعنی مجموعی طور پر کام  کے انجام دہی کی  توضیحات  ،اس مقدمہ میں بیان ہوتی ہیں ۔ مقدمہ کے  آخر   میں ،ادب و احترام کی رسم کو قائم رکھتے ہوئے ان تمام افراد کا شکریہ  ادا کیا جاتا ہے جنہوں نے اس  کام کے انجام کے دوران اس کے لیے  زحمت اٹھائی ۔

مقدمہ کا حجم ، رواج کے مطابق ،دو سے چار صفحات کے درمیان ہونا چاہیے،الفاظ کی تعداد  500 سے 1000 کلمات کے درمیان ہو سکتی  ہے۔یہ متن، تدوین کرنے والے کی جانب سے ، بہت مختصر، واضح اور بغیر کسی  بناوٹ کے ہونا چاہیے، بالکل ویسے ہی جیسے تدوین متن  کے بارے میں بیان کیا گیا تھا۔

راوی کے دستخط

کتاب  کے وزن  اور وقعت میں اضافہ کرنے کے لیے بہتر ہے کہ تدوین کے بعد راوی سے ایک صفحے کی حد تک  ، کتاب کے متن  کی تائید میں ،تحریری شکل میں تصدیق  لے لیں کہ اس کتاب میں لکھے گئے  نکات وہی ہیں جو اس نے انٹرویو سیشن میں بیان کیے تھے۔


 


oral-history.ir


 
صارفین کی تعداد: 407


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

منجمد گوشت

ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔