قانون پر ساواک کا گھناوَنا سایہ

ترجمہ: محب رضا

2024-6-22


سانحہ خرداد کی پندرہویں برسی تھی، قم اورمخصوصاً مدرسہ فیضیہ میں ایک الگ ہی ماحول تھا۔  نجف سے ہر روز اعلامیہ اور ریکارڈ شدہ تقریر  آتی جو بہت حوصلہ بخش ہوتی تھی  ۔ امام اس دن کی خاص اہمیت کے قائل تھےجیسا کہ انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد فرمایا: "پندرہ خرداد۔وہ دن جب  ہم نے مضبوط ارادے والے افراد اور ملت کے جوانوں کو کھویا، یہ دن تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے اور  اس تحریک کا آغازہے۔ جن لوگوں نے  پندرہ خرداد کو قیام کیا، انہوں نے مردانگی دکھائی  ، انہوں نے جلادوں کے مقابل 'نہ' کہا اور شہید ہو گئے، اوروہ اس عظیم تحریک کی ابتدا بن گئے ۔ میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے رحمت اور ان کے پسماندگان کے لیے سلامتی، صبر اورسعادت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘

وہ پندرہ خرداد کی برسی کا دن تھا، شاید  1970 کا سال ، جب مدرسہ  فیضیہ میں ایک بار پھر غم و غصے کا اظہار ہواورامام کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس عظیم واقعہ کی برسی کو عملی طور پر منایا گیا۔ چونکہ مدرسہ کے اندر ہاتھا پائی  ہو رہی تھی ، ساواک اور شاہ کے ایجنٹ طلباء کو مار رہے تھے اور دروازے بند کر دیے گئے تھے تاکہ کوئی بھی باہر نہ نکل سکے، لہذاٰ باہر کے افراد کو اندر کی صورتحال سے باخبر کرنے کے لیے طلباء نے لمبے ڈنڈے والی جھاڑووَں پر کپڑے کے ٹکڑے باندھ کر انہیں بلند کر دیا تاکہ لوگ فیضیہ کی   حالت کی جانب متوجہ ہو سکیں۔ اس روز حکومت کے اخبارات نے لکھا کہ فیضیہ کی چھت پر کمیونسٹ سرخ پرچم لہرا یا گیا،اسی وجہ سے حکومت کے کارندوں نے طلباء کے ایک گروہ کو گرفتار کیا ہےجن میں سے ایک میں بھی  تھا۔ بہت سے لوگوں کوگرفتار کیا گیا،ہم تقریباً بتیس افراد تھے، جن کو قم میں ساواک کے ادارے منتقل کیا گیا۔ اس روز فیضیہ میں موجود طلاب میں کوئی فرق نہیں کیا گیا  تھاکہ ان کا رجحان کیا ہے، البتہ ضمناً  چند افرادجیسے میں خود ،تہران میں  کی جانے والی تقاریر اور جلسوں میں فعال موجودگی کی وجہ سے ان کے زیر نگرانی تھا اور ان حالات میں مجھے گرفتار کیاگیا تھا۔ میرا عقیدہ یہ تھا کہ حرکت کرنا لازم ہے، جیسا کہ مشہور کہاوت ہے کہ ’’اگر تم  نے جلنے کا سوچ لیا ہے تو پروانہ بن جاوَ‘‘، دراصل  اسی محرک  کی وجہ سے میں نے دار التبلیغ  کا عہدہ چھوڑا، ورنہ مجھے ایک سجا ہوا دفتر،  دار التبلیغ کے کتابخانہ جیسی ایک صاف ستھری عمارت اور دار التبلیغ  کی جانب سے مراعات حاصل تھیں، اور آیت اللہ شریعتمداری میری  جانب خصوصی توجہ رکھتے تھے، یہ امتیازات دیگرطلاب کو میسر نہیں تھے، لیکن چونکہ میں اس قسم کا محرک و جذبہ رکھتا تھا ،اس لیے  میں نے شعوری طور پر اپنا راستہ منتخب کیا۔ البتہ  فیضیہ میں گرفتار ہونے والےافراد  ہر قسم کے تھے۔

پندرہ خرداد کی برسی کے موقع پر فیضیہ میں ایک بہت بڑا اجتماع اکٹھا ہوا،یہ اجتماع اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ کچھ دیر بعد ہی  فیضیہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ کیونکہ دروازے بند کر دیے گئے تھےلہٰذامدرسے  سے باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔کچھ طلاب مدرسے کی چھت کی جانب گئے تاکہ وہاں سے باہر نکل سکیں لیکن  انہیں باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملا ۔جب انہوں نے  دیکھا کہ ہر طرف حکومتی اہلکار موجود ہیں اور انکی آوازبھی کہیں نہیں پہنچ سکتی توانہوں نے جھاڑو کےچوبی  دستوں پر کپڑے کے ٹکڑے باندھ کر جھنڈوں  کی مانند لہرانے شروع کر دئیے تاکہ خلق خدا  متوجہ ہو سکے کہ فیضیہ میں قتل و غارت جاری ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ بیان دیا کہ فیضیہ کی چھت پر سرخ جھنڈا لہرایا گیا ہے۔ انہوں نے انہی حالات میں مجھے گرفتار کیا،مجھے اس طرح دو تین بار ڈنڈے  مارے کہ میں نہ تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل رہا اور نہ بیٹھنے کے، یعنی میں ایک بے حس و حرکت انسان کی طرح گرا پڑا تھا  کہ وہ آئے اور مجھےساواک کے اڈے لے گئے ۔ اس دن آقا بہجت کے ایک صاحبزادے، ان کےبڑے بیٹے ،بھی ہمارے ساتھ تھے، ٹھیک سے یاد نہیں شاید محمد حسین تھے۔جناب  دستمالچی نام کے ایک دراز قد طالب علم بھی تھے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یا دنیا میں نہیں رہے۔ جناب سرابی نامی ایک  طالب علم، جناب فقیہی، جناب صلواتی  جو بہت  ہونہارطالب علم تھے، ایک  اورطالب علم جناب سعیدیان،یہ سب  آیت اللہ منتظری کے نزدیکی افرادمیں سے تھے۔ ہم بتیس افراد تھے، جن میں سے کچھ کو فیضیہ کے اندر اور کچھ کومدرسہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ،کم و بیش  دو ماہ بعد  ،ہم سے  پوچھ گچھ کرنے کے بعد، ہمیں  فوجی خدمات کے لیے کازرون بھیج دیا گیا۔

جب فیضیہ میں  ہجوم ہو گیا تو انہوں نے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا جن میں سے ایک میں بھی تھا، میں کوشش  تو یہ کر رہا تھا کہ اپنے ایک دوست شہید شیخ صادق رفیعی کو بچاوَں ،جو کہ بعد میں حج کے سانحے میں شہید ہوئے ، مگرمیں خود ان  ایجنٹوں کی پکڑ میں آ گیا اور مجھے قم میں ساواک کےحراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس واقعے میں تقریباً بتیس اور لوگ گرفتار ہوئے تھے،لیکن  مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ میں پہلے سے ہی زیر نگرانی تھا  کیونکہ جو پوچھ گچھ کی گئی تھی، اس میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ میری آمد و رفت  کے مقامات کے بارے میں پوچھا  گیا ،جبکہ وہ مقامات اور افراد پہلے ہی  سےساواک کی نظروں میں تھے ۔تقریباً دو ماہ کی حراست کے بعدمجھے پتہ چلا کہ ملحقہ کوٹھریوں میں،میرے کئی دوسرے دوست موجودہیں۔ آئندہ کا کچھ معلوم نہیں تھا اور حال مخدوش تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے ہمیں ایک بس میں بٹھایا جس کے پیچھے کچھ فوجی جیپیں تھیں اورہم چل پڑے۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہمیں تہران لیجا رہے ہیں ۔ میں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ وہ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟ کسی نے جواب نہیں دیا، گویاجو جانتے بھی تھے،وہ کچھ کہنے سے ڈرتے تھے، لیکن ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے  افسر نے بتایا، "تمہیں کازرون لیجایا جا رہا ہے!" میں نے سمجھا  شاید جلاوطن کر رہے ہیں لیکن  زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ معلوم ہو گیا کہ فوج میں بھرتی کے لیے لیجا رہے ہیں ۔میں نےفوج  میں بھرتی کے علاوہ ہر چیز اور ہر جگہ کے بارے میں سوچا تھا کیونکہ اس وقت کے بھرتی کے نظام کے قانون کے مطابق مجھے تعلیمی استثنیٰ حاصل تھا۔خیابان ناصر خسرو پر رہنے  والے  ایک معزز عالم دین ، اگر میں غلطی نہ کروں توانکا نام   جناب صبوری تھا، کے توسط سے  جناب عزالدین زنجانی صاحب مرحوم کے نام ایک خط لکھا گیا تھا، میں زنجان گیا تھااور انکے ذریعے  تعلیمی استثنی کا کارڈ حاصل کیا تھا۔ اس لیے میں نےسوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ پیش آئےگا۔ میں بھول گیا تھا کہ وہ حتی ٰاپنے ضابطوں کا احترام بھی نہیں کرتے اور ساواک کا گھناوَنا سایہ،  ملکی قوانین اور ضابطوں سے بالاترہے۔ بہرحال، ہمیں کازرون ٹریننگ سینٹر میں منتقل کر دیا گیا،جو کہ مارشل لاء دستوں کے زیر انتظام تھا۔

منبع: حمیدزاده گیوی، اکبر، خطیب انقلابی: اندیشه‌ها و خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین اکبر حمیدزاده گیوی، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر اثار امام خمینی مؤسسه چاپ و نشر عروج،‌ 1398، ص 114 - 116.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 373


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سب سے زیادہ دیکھے جانے والے

جنگ شروع ہونے سے پہلے عراق کی سرگرمیاں

اگلی صبح ہم واپس ایلام کی جانب نکلے اور ظہر کے نزدیک ہم ایران شہر پہنچ گئے اس رات ہم ایلام کے گورنر کے مہمان تھے۔ اگلے دن ہم وہاں کے مقامی افراد کی مدد سے کہ جو اسلامی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور انہیں عراق اور ایران کے درمیان سفر کرنے کی اجازت تھی سرحد پار پہنچ گئے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔